Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر مملکت اور عمران خان کی سیکیورٹی، سرکاری افسران کا پروٹوکول پر اصرار کیوں؟

کراچی (صلاح الدین حیدر )صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کراچی تشریف لائے۔ ائیر پورٹ پر خود سے اپنا سامان اٹھایا، عام لوگوں میں گھل مل گئے ۔جیسے کہ وہ پارلیمان کے ممبر کی حیثیت  سے کرتے تھے، لیکن باہر آکر انہیں تعجب ہوا کہ ان کے پیچھے 27گاڑیوں کا قافلہ چل رہاہے۔ سیکیورٹی کرنی ہے صدر صاحب کی ،ناراض ہوئے اور منع کردیا کہ یہ کھیل تماشہ نہ کیا جائے۔عمران وزیر اعظم بننے کے بعد پروٹوکول کی لمبی چوڑی قطاریں 50/60گاڑیاں، پولیس ، رینجرز ملٹری انٹیلی جنس سبہی انہیں منظور نہیں تھے، لیکن پھر بھی جب 18ستمبر کو پہلی مرتبہ عہدہ سنبھالنے کے بعد کراچی تشریف لائے تو وہی لمبی چوڑی قطاریں سیکیورٹی اور دوسرے حضرات کی گاڑیوں کی، خیر ایئرپورٹ سے قائداعظم کے مزار گئے۔ وہاں سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس واپس، سڑکیں بند کرنے اور عوام کو مصیبت میں ڈالنے کی وجہ پسند نہیں آئی، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ایک بلیوبک ہے جو حکومت کیلئے اہم ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس جہاں وہ اعلیٰ سطحی اجلاس کررہے تھے، سے دور دور تک تمام اہم شاہراہیں بند کردیں پبلک کو تکلیف سے گزرنا پڑا، ہر طرف ہو کا عالم تھا، اب اس کا کیا کیا جائے۔ پھرسینیٹ کی سیکیورٹی کمیٹی نے اصرار کیا کہ وزیر اعظم چاہیں یا نہ منظورکریں،حکومتی احکامات پر مکمل عمل کیا جائے۔ سیکیورٹی ہو یا پروٹوکول عمران کیلئے مخصوص ہوگا جب تک وہ ایسے اہم منصب پر فائز رہیں گے۔ کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ بے چارے عمران خان سادہ زندگی پر زور دیتے ہیں اور دنیا انہیں صدیوں پرانے اصولوں پر چلانے کی حامی ہے۔لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ انگلینڈ کے وزیر اعظم جب ہمارے سابق ہم منصب یوسف رضا گیلانی کے ساتھ لندن کی سڑکوں پر سرکاری گاڑی میں نکلے تو ان کی گاڑی ٹریفک سگنل پر رک گئی، راستے بند نہیں کئے گئے۔ امریکی دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہائوس جو کہ صدر امریکہ کی سرکاری رہائش اورآفس بھی ہے، سڑک سے صرف اتنا دور ہے کہ اس پر روڈ کے کنارے غلیل سے نشانہ لگایا جاسکتا ہے لیکن وہاں تو سیکیورٹی نہیں ۔ مجھے خود وائٹ ہائوس جانے کا اتفاق ہوا ہے۔صدر کلنٹن سے ملاقات کا شرف حاصل رہا ہے۔ ایک صحافی کیلئے یہ سب معمولی بات ہے۔ مجھے تو ان تک پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔بس گیٹ پر اپنی شناخت کروانی پڑی اور پھر ہم وائٹ ہائوس کے اندر اور صدر کلنٹن سے مصروف گفتگو۔ ہمارے یہاں انگریزوں کے وقتوں کی کہانیاں ابھی تک دہرائی جاتی ہیں جب وائس رائے کے شاہی محل سے نکلنے پر سیکیورٹی احکامات جاری کئے جاتے تھے،ہم نے آزادی صرف کہنے کو حاصل کی ابھی تک غلامی کا طوق گلے میں پہنے ہوئے ہیں۔عمران ان سب فضول باتوں سے چھٹکارا چاہتے ہیں تاکہ عام آدمی کی طرح زندگی گزار سکیں ، امیر ، غریب اور حکمرانوں اورعوام الناس کا فرق مٹایا جاسکے لیکن سرکاری اصول جو غلامی کی یاد گار ہیں آڑے آجاتے ہیں۔افسران کا کہنا ہے کہ بلیوبک میں اہم جگہوں کا نام درج ہے جہاں سیکیورٹی ہٹائی نہیں جاسکتی۔ انہیں خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا ، پھر وزیر اعظم کی حفاظت ضروری ہے۔سرکاری اہلکاروں نے وزارتِ داخلہ کے اعلیٰ افسر یوسف نسیم کھوکھر کو یاد دلایا کہ وزیر اعظم کے ذہن نشین کروائیں کہ ان کی حفاظت ہم سب پر مقدم ہے۔ اس سے فرار ممکن نہیں، سینیٹ کمیٹی کے سیکیورٹی چیئرمین رحمن ملک جو سابق وزیر داخلہ رہ چکے ہیں اور ایف آئی اے کے اعلیٰ افسر بھی ، انہوںنے اس بات سے اتفاق کیا کہ عمران خان کچھ بھی کہیں، سرکاری اصولوں سے انحراف نہیں ہوسکتا۔ یہی ساری دنیا میں ہوتا ہے، رحمن ملک نے زور دے کر کہا ۔ آپ میڈیا کی پروا مت کریں، اپنا فرض انجام دیں۔ مسلم لیگ کے جاوید عباسی شاید واحد انسان تھے جنہوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ عمران اگر نہیں چاہتے تو سیکیورٹی ہٹا دی جائے ،پھر وہ جانے اور ان کا کام، لیکن حکومتی اہلکار کیسے اپنے فرائض سے جو کتابوں میں درج ہے سے انکاری ہو سکتے ہیں۔یہ بحث بھی اب تک جاری ہے۔ دیکھیں کس کی جیت ہوتی ہے۔ 
 

شیئر: