Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب نے سلامتی کونسل کو اس کے فرائض کا آئینہ دکھا دیا

ہادی الیامی ۔ الوطن
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے آبنائے باب المندب میں عالمی جہاز رانی کی سلامتی کو خطرات پیدا کرنےوالے حوثیوں کے خطرات سے نمٹنے کیلئے کیا اقدام کیا؟سلامتی کونسل نے آئل ٹینکر پر حوثیوں کے حملے رکوانے کیلئے کیا انتظام کیا؟جواب واضح ہے، کچھ نہیں کیا۔ سلامتی کونسل نے بے معنی قسم کا غیر موثر بیان جاری کرنے پر اکتفا کیا، اس کے سوا کچھ نہیں کیا۔
سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نام دوٹوک پیغام جاری کرکے اسکے سامنے اسکے فرائض کا آئینہ رکھ دیا۔سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی کہ اسے عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کے سلسلے میں اپنے فرائض ادا کرنے کیلئے تمام فریقوں سے اپنا وقار منوانا ہوگا۔ ہر ایک فریق پر اپنی ہیبت قائم کرنی ہوگی۔ اگرایسا نہ ہوا تو اس کی تمام قراردادیں سادہ کاغذ پر روشنائی سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھیں گی۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں یادگاری تصاویر کا معمہ بن کر رہ جائیں گی۔
سعودی عرب نے یمنی بحران کے حوالے سے جاری ہونیوالی قراردادوں پر عملدرآمد نہ کرانے کے سلسلے میں سلامتی کونسل کے رویے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ سلامتی کونسل نے حوثی باغیوں کے تصرفات کے خلاف مذمتی بیان جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ عملی اقدامات کرکے حوثیوں سے بین الاقوامی قراردادیں نافذ کرائی جاتیں ۔ آبنائے باب المندب اور بحراحمر میں عالمی جہاز رانی کو مامون و محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ یمن میں آئینی صدر عبدربہ منصور ہادی کی زیر قیادت بحالی امن کی کوششوں کا ساتھ دیا جائے۔ سعودی عرب نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ یمن کیلئے اقوام متحدہ کے ایلچیوں نے مبہم رویوں اور غیر واضح بیان بازیوں کے ذریعے یمنی بحران کی گتھیاں سلجھانے کے بجائے اسے مزید الجھا دیا۔ 
اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216کے حوالے سے جس تردداور تذبذب کا اظہار کیا وہ اس کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے۔ یہ قراردادسلامتی کونسل نے بہ اتفاق آراءمنظور کی تھی۔ کونسل کے تمام دائمی رکن ممالک نے اس کے حق میںووٹ دیا تھا مگرآج تک اس پر عملدرآمد کا کوئی طریقہ کار متعین نہیں ہوا۔ یہ قرارداد اقوام متحدہ کی اس ساتویں شق کے تحت جاری کی گئی تھی جو عالمی برادری کو چیلنج جاری رکھنے کی صورت میں حوثیوں کیخلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دیتی ہے۔ اسکے باوجود سلامتی کونسل نے اس قراردادپر عملدرآمد کیلئے کچھ نہیں کیا۔ قراردادنمبر 2216میں صاف طور پر تحریر ہے کہ یمن کی قانونی حکومت کو بحال کیا جائے۔ اس میں یہ بھی تحریر ہے کہ باغی صنعا پر لشکر کشی سے قبل کی پوزیشنوں پر واپس چلے جائیں ۔ سرکاری فوج کے گوداموں سے حاصل کئے جانے والے بھاری ہتھیار حکو مت کے حوالے کریں اور ایک سیاسی تحریک کے طور پر ملک کی خدمت میں لگ جائیں۔
قرارداد مذکور کی تمام شقوں پر عملدرآمد سے یمن کا بحران حتمی طور پرحل ہوجاتا ۔ اس قرارداد میں ایک طرف تو آئینی حکومت کی بحالی کا فیصلہ موجود ہے اور دوسری جانب حوثیوں کو سیاسی عمل میں حصہ لینے کا بھی حق دیا گیا ہے مگر عجیب بات یہ ہے کہ سلامتی کونسل بہت جلد اپنی اس تاریخی قرارداد کو فراموش کربیٹھی۔سلامتی کونسل نے نہ صرف یہ کہ باغیوں سے اس پر عملدرآمد کا مطالبہ ترک کردیا بلکہ اس نے ایسے بیانات بھی جاری کئے جو مذکورہ قرارداد میں مذکورمضامین کے منافی تھے۔ 
اس صورتحال نے طویل ناکامیوں کا ایک ایسا سلسلہ پیدا کردیا جس کی آخری حد نظر نہیںآرہی۔اس کے اثرات علاقے کے دیگر بحرانوں پر بھی منفی شکل میں نمود ار ہونے لگے ہیں۔شامی بحران ابھی تک آتش فشاں کی شکل میں بھڑکا ہوا ہے جہاں دسیوں بچے روزانہ کی بنیاد پر جان سے ہاتھ دھور ہے ہیں۔ لیبیاکا مسئلہ دہشتگرد تنظیموں کے باعث اپنی جگہ جوں کا توں قائم ہے۔ اسرائیل ارض فلسطین میں نہتے شہریوں کی جانیں لے رہا ہے اور سلامتی کونسل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ حزب اللہ لبنانی حکومت کی تشکیل میں روڑے اٹکا رہی ہے اور سلامتی کونسل تماشہ دیکھ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران سلامتی کونسل غیر موثر ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ بشار الاسد نے پوری دنیا کو چیلنج کیا، انسانی اقدارکامذاق اڑایاکسی نے اسے لگام لگانے کی جرا¿ت نہیں کی۔ اس کے اتحادی روس نے اسے بچانے کیلئے8مرتبہ ویٹو استعمال کیا۔ حوثی باغیوں کے خطرات کے حوالے سے بہت سارے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں ان میں سے کسی کا جواب نہیں مل رہا۔جب تک سوالات کے جواب نہیں آئیں گے ، تب تک سعودی عرب خطے کے قافلہ سالار ملک ، مسلم و عرب ممالک کے قائد کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: