Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اراضی پر غیر قانو نی قبضہ چھوڑ دیں، انصاف کا بول بالا کریں

 اس دنیا کے بعد بھی ایک لافانی جہاں ہے جہاں ہمیں جانا ہے ،اس کی تیاری آج ہی شروع کردیں تو اچھاہے
اُم مزمل۔جدہ
وہ ماہر معاشیات نہیں تھی۔وہ اس کے مشورے کو نظر انداز نہیں کرتا تھا۔ آج وہ اپنے انداز میں پھر اس بات کی طرف متوجہ کر رہی تھی کہ کوئی مدبر یا اسکالر تن تنہا کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ہر اجتماعی کوشش ثمرآور ہوتی ہے۔ 
کئی دن کے بعد اس کے باغ میں آج اس موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اس نکتے کی طرف توجہ نہیں دیتے کہ ہمارے مذہب میں کھانے پینے کی کس قدر اہمیت بیان فرمائی گئی ہے مثلاًکسی جگہ دو شخص ایک طرح کی مشکل مسافت طے کر کے پہنچے ہوں اور دونوں ہی کلمہ گو ہوں۔ دعائیں بھی خالص نیت سے اپنے مالک حقیقی سے مانگ رہے ہوں تو ایک تو قبولیت کے درجے پر پہنچ سکتا ہے لیکن دوسرے کی دعا سنی نہیں جائے گی اور اس کا سبب یہ فرمایا گیا ہے کہ رکن وہ امر جس پر دعا کے دعا ہونے ،نہ ہونے کا دار ومدار ہو کہیے’ دعا کی روح مثلاً” اخلاص“ کہ اس کے بغیر دعا،دعا ہی نہیں ہوتی۔ شرط وہ چیز جس پر دعا کی قبولیت موقوف ہو کہ اگر وہ نہ پائی جاے تو دعا قبول ہی نہ ہو اگرچہ کتنی ہی اخلاص سے مانگی جائے مثلاً” محرمات“حرام غذا،حرام لباس، حرام روزی سے بچنا کہ اگر یہ شرط نہ پائی جائے گی اور دعا کرنے والا ان محرمات سے اجتناب نہ کرے گا تو دعا قبول نہ ہوگی۔
اس نکتے پر کوئی غور نہیں کرتا کہ ہم جو چیزیں بیرون ملک سے درآمد کرتے ہیں وہ ہمارے لئے درست ہیں کہ نہیں اور ویسے بھی یہ کلیہ ہر طبیب بتاتا ہے کہ جس زمین پر انسان رہتا ہے، وہیں کی زمین کی اُگی ہوئی چیزیں اسے موافق آتی ہیں ۔اس لئے ہر ایک فرد یہ فیصلہ کر لے کہ میں اپنی زمین پر اُگائی جانے والی چیزوں سے ہی اپنی خوراک کی ضرورت پوری کروں گا تو اس طرح کین فوڈ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے خطرات سے بھی بچا جا سکے گا۔
وہ زیادہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لئے اپنی زمین پر مزید پیدا وار کیسے بڑھائی جاسکتی ہے، اس کے لئے اس نے مشاورت شروع کردی اور پھر اسے معلوم ہوا کہ اگر ہم پوری بستی کے لوگ اپنی زمین پر اآگائی ہوئی چیزیں استعمال کریں تو کھانے پینے کی اشیاء بیرون ملک سے منگوانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اس طرح ہمارا پڑوسی ہمیں زہر آلود دودھ ہمیں نہیں بھیج سکے گا کہ جس کے ذریعے تجارت میں فائدہ اس کا اورملک میں اموات ہمارے بچوں کی۔ یہ تو مہربانی قدرت کی ہوئی کہ یہ معاملہ جلد ہی کھل گیا۔ اس طرح نجانے کس کس ملک سے ہم کیا کیا الم غلم بھاری قیمت کی ادائیگی کر کے منگواتے ہیں۔ اس میں کیا کیا درست اور غلط ہیں، اس کا پتہ کیسے چلے گا ؟اچھا ہے کہ ہم اپنی خورا ک کی ضرورت خود پوری کریں۔
ڈھائی سال کے بعد اس علاقے میں ترقی نے ایسا رنگ بدلا تھا کہ لوگ حیران تھے۔ وہاں تازہ سبزیاں ،پھل ،اناج ہر ایک گھر میں میسر تھے۔ اپنی گائے بکریاں بھی پہلے کے مقابلے میںزیادہ تعداد میں پالی جارہی تھیں ۔جب ایک فیصلہ کر لیا تو اس میں جتنی مشکل آئے وہ خندہ پیشانی سے قبول کرنی ہے۔ 
اب ایک کام اور کرنا تھا کہ اپنے علاقے کے لوگوں کے لئے دینی اور مروجہ تعلیم کے حصول کوآسان بنا نا تھا اور اس کے لئے اپنے اور دوسرے گاﺅں کے لوگوں کو اس بات کا شعور دینا تھا کہ ہم کتنے دن اس دنیا میں جی سکتے ہیں ؟ بالآخر ہمیں لوٹ کر جانا ہی ہے تو کیوں نہ ایسے کام کر جائیں کہ آخرت سنور جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انصاف کا بول بالا کریں۔جہاں جہاں اراضی پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے اسے چھوڑ دیں۔ ہم اس طرح اپنے ساتھ اپنی نئی نسل کے لئے بھی ایک واضح پیغام دے سکیں گے کہ اس دنیا کے بعد بھی ایک لافانی جہاں ہے جہاں ہمیں جانا ہے ۔اس کی تیاری آج ہی شروع کردیں تو اچھاہے ۔
٭٭ جاننا چاہئے ،یہ دنیا دارالجزا نہیںبلکہ دار العمل ہے ۔
 

شیئر: