Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدالتی فیصلے کے بعد !

احمد آزاد۔فیصل آباد
ایوان فیلڈ فلیٹس کی صدا 90  کی دہائی سے پاکستانی سیاست میں سنی جارہی ہے ۔پارک لین ،لندن میں موجودان فلیٹس کی مالیت اربوں ڈالر میں ہے ۔پاناما لیکس کے بعد جب نامی گرامی لوگوں کی آف شور کمپنیوں کا شوراٹھا تو اس میں میاںنواز شریف کا خاندان بھی تھا۔عوامی وسیاسی جماعتوںکے احتجاج کے بعد معاملہ سپریم کورٹ میں گیا ۔جولائی 2017ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں میاں نواز شریف کو نااہل کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی وزارت عظمیٰ کی کرسی بھی شریف خاندان کے ہاتھ سے نکل گئی ۔ستمبر 2017ء میں نیب نے سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف ،ان کے بچوں اور داماد کے خلاف عبوری ریفرنس دائر کیا ۔8نومبر کی پیشی کے موقع پر نوازشریف پر براہ راست فردجرم عائد کردی گئی ۔ سیاسی پارہ اتار چڑھائو کے درمیان آگے بڑھتا رہا ۔احتساب عدالت نے نواز شریف کو اس مقدمے میں10 سال قید بامشقت اور80لاکھ پونڈ جرمانے، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7سال قید بامشقت اور 20 لاکھ پونڈ جرمانے جبکہ داماد کیپٹن صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔ تینوں کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کردیا گیا تھا جہاں انہوں نے اپنی رہائی تک 63 دن کی سزا کاٹی۔ احتساب عدالت کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور ان کی سزائیں ختم کرنے کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ ہائیکورٹ کے 2رکنی بنچ نے، جو جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل تھا، نے درخواستوں کی سماعت کی۔ نیب کے پراسیکیوٹرز نے احتساب عدالت کے فیصلے کا دفاع کیا جبکہ درخواست دہندگان کے وکیل خواجہ حارث نے اس کے خلاف دلائل دیئے۔ طویل سماعت کے بعد عدالت نے 19ستمبر2018ء 3 بجے فیصلہ سناتے ہوئے درخواستیں منظور کر لیں اور ملزموں کو 5،5 لاکھ روپے کے مچلکے داخل کرنے کی صورت میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ عدالت نے سزائیں منسوخ نہیں کیں، بلکہ کیس کا حتمی فیصلہ ہونے تک معطل کی ہیں۔ 
نیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا عندیہ دے دیا ہے ۔مسلم لیگ ن اور ان کے کارکنان اگرچہ اس فیصلہ کو لے کر خوشی کا اظہارکررہے ہیں لیکن انہیں یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ سزا فی الوقت معطل کی گئی ہے اور تینوں افراد ضمانت پر باہر آئے ہیں ۔فیصلہ بیشترماہرین کی امیدوں کے مطابق ہوا ہے کہ میاں نواز شریف ،مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ریلیف مل جائیگا ۔فیصلہ غیر معمولی ہے تاہم غیر متوقع نہیں ۔یہ فیصلہ اک ایسے وقت میں آیا ہے جب وزیراعظم عمران خان اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب تھے ۔فیصلے کو لے کر چہ مگوئیاں جاری تھیں کہ سعودی عرب سے ڈیل ہوگئی ہے اور اک نیا این آر او ہوچکا لیکن ان سب افواہوں کو وزیراطلاعات فواد چوہدری کے اس بیان نے ختم کردیا ہے کہ ’’کوئی ڈیل ہوئی ہے اور نہ ہی ڈھیل ہوگی ‘‘۔اک اور عجیب بات… جب پاکستان میں 3بار وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف کو رہائی کا پروانہ مل رہا تھا انہی لمحات میں ملائیشیاکے سابق وزیراعظم نجیب رزاق کو اربوں ڈالر کرپشن کے سنگین الزامات میں گرفتار کیا جارہا تھا کیونکہ ان کی ساری ضمانتیں منسوخ ہوچکی تھیں ۔
بلاشبہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے مسلم لیگ ن کی قوتوں اور توانائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور سیاسی مخالفوں میں مایوسی سی پھیلی ہے لیکن کلین چٹ بالکل بھی نہیں ملی ،سزا کی تلوار لٹکتی رہے گی جب تک فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ نواز کے خلاف مزید 2 ریفرنس بھی موجود ہیں جبکہ مریم نواز کے خلاف ایوان فیلڈ والا ہی ریفرنس ہے ۔مریم نواز کو اگر اس میں سے کلین چٹ مل جاتی ہے تو مسلم لیگ ن کی باگ دوڑ شہباز شریف کے ہاتھ سے نکل کر مریم نواز کے ہاتھ میں آسکتی ہے لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہوگا۔مریم نواز فی الوقت پارلیمانی سیاست کرسکتی ہیں لیکن اپیلوں کی سماعت کی وجہ سے تلوار لٹکتی رہے گی ۔
مختلف افواہیں اس وقت میدان سیاست میں اور عوام میں پھیل چکی ہیں جن کا اظہار انہوں نے سوشل میڈیا پر بھی کیا ہے ۔ ان میں سے اک بات جو کہ اکثروبیشتر مسلم لیگ ن کے حمایتیوں کی طرف سے سننے کو ملی کہ میاں نواز،مریم اور صفدر کو سزائیں دینا انتخابی دنگل سے انہیں باہر رکھنے کے لیے تھا ۔اک بات یہ بھی ہے کہ نیب کی طرف سے کیس کمزور اور جعلی تھا ۔یہ اک سیاسی کیس تھا جس کی وجہ سے پہلے جج پر دبائو تھا جسے وہ برداشت نہ کرسکے اور انہوں نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دے دیا ۔اس سے ملتے جلتے اور بھی کئی بیانیے ،افواہیں اور خدشات ہیں جو دور کی کوڑیاں لاکر ثابت کرنے کی سعی کررہے ہیں کہ میاں نواز شریف مظلوم ، مجبور اور مقہور ہے۔اگر نیب کا کیس کمزور تھا ، جعلی تھا تو احتساب عدالت کے جج نے کیوں اور کیسے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دے دیا؟ ۔اگراحتساب عدالت کے جج پر دبائو تھا تو وہ دبائو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں پر کیوں نہیں آسکا؟احتساب عدالت کے جج کی طرف سے فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ نواز شریف پر کرپشن ثابت نہیں ہوسکی اور اسی کو بنیاد بناکر اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزا معطلی کا فیصلہ دیا ۔اگر ملکی اسٹیبلشمنٹ اس قدر مضبوط ہے کہ وہ احتساب عدالت سے شریف خاندان کیخلاف فیصلہ لے سکتی ہے تو کیا وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنا اثرورسوخ استعمال نہیں کرسکتی تھی؟بہرحال مختلف بیانیے ہیں جو اپنی اپنی جگہ پنپتے رہتے ہیں ۔ان سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ ساتھ ملتے جائیں گے ۔
اس وقت عدالتی فیصلے کی وجہ سے مسلم لیگ نواز فرنٹ فُٹ پر کھیلنے کے قابل ہوچکی ہے ۔نواز شریف بھی اڈیالہ جیل سے باہر آچکے ہیں اور اب وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ جماعت کے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں آچکے ہیں ۔اس وقت اگرچہ عمران خان کی حکومت مضبوط پوزیشن میں ہے اور ادارے ان کی مکمل حمایت کررہے ہیں لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ماضی میں اس ملک کی باگ دوڑ سنبھال چکی ہیں اور حکومتی اتار چڑھائو سے کماحقہ واقفیت رکھنے کے ساتھ نبض شناس بھی ہیں۔اس وقت دونوں سیاسی پارٹیاں اس تاک میں ہیں کہ حکمران جماعت کب کوئی غلط قدم اٹھاتی ہے اور وہ مضبوط اپوزیشن کی شکل میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو برقرار رکھ سکیں ۔حکمران جماعت نے انتخابات کی دھاندلی والا معاملہ اپوزیشن کی جھولی میں ڈال کر وقتی طور پر اپنے آپ کو محفوظ بنالیا ہے ۔
شہباز شریف اس سارے معاملے میں بیک فُٹ پر نظرآتے ہیں ۔شہبازشریف کو جو ٹاسک ملاتھا اپوزیشن کو متحد رکھنے کا وہ اس میں ناکام نظرآئے ۔وزیراعظم،قومی اسمبلی کے اسپیکروصدارتی انتخابات کے وقت شہباز شریف کی سیاست نے اپوزیشن کو متحد کرنے میں ناکام سعی کی ۔شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ نواز کی مخالفت اسمبلیوں تک محدود ہے اور منی بجٹ پر ردعمل بھی ایوان تک ہی محدود رہا ۔بہرحال نوازشریف اہلیہ کی وفات کے صدمے کے باعث شاید چند دن عوامی خطاب کرنے میں ناکام رہیں لیکن آنے والے وقت میں پنجاب کی حد تک تحریک انصاف کو مسلم لیگ کے جیالوں کی شکل میں اک سردرد کا سامنا کرناپڑسکتاہے ۔آنے والے چند ہفتوں میںتحریک انصاف بلدیاتی نظام میں تبدیلی کا اک بڑا فیصلہ کرنے جارہی ہے جس سے مقامی حکومتوں کے نظام میںتبدیلی ہوگی اور ایسے میں نواز شریف اورمریم نواز کی جیل سے باہر موجودگی سے مسلم لیگ ن کو اک ایسا پلس پوائنٹ مل سکتا ہے جومسلم لیگ ن کی گرتی ہوئی ساکھ کر بہتر کرسکتا ہے ۔
 

شیئر: