Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب نے الخبر دھماکے کرنیوالوں کا تعاقب کس طرح کیا؟

محمد الساعد ۔ عکاظ
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عرب دنیا میں امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کا مشکوک کردار باراک اوبامہ کے وائٹ ہاﺅس پہنچنے پر شروع ہوا ،وہ غلطی پر ہیں۔ڈیموکریٹک پارٹی کا کردار اس سے کہیں زیادہ پرانا، گہرا اور خطرناک ہے۔ 
الخبر دھماکے بل کلنٹن کے عہد صدارت میں ہوئے۔ میں الخبر کے واقعہ کو ایک نمونے کے طور پر قارئین کے سامنے رکھنا چاہونگا۔ اس کے بعد جمی کارٹر اور باراک اوبامہ کے عہد صدارت کے حوالے دونگا۔ 
1996ءمیں سعودی شہر الخبر میں دہشتگردی کا زبردست واقعہ ہوا۔ دہشتگردوں نے جو سعودی شہری اور مشرقی ریجن میں ایرانی گروپ کے نمائندہ تھے ، الخبر دھماکے کرکے پوری دنیا میں تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ رکھنے والے علاقے کو ہدف بنایا تھا۔ 
عبدالکریم حسین الناصر ، احمد المغسل ، علی سعید الحوری، ابراہیم صالح الیعقوب اور لبنان کے ایک نامعلوم شہری پر مشتمل گروہ نے دھماکے کئے تھے۔ دھماکوں میں شدید شور برپا کرنیوالے ٹی این ٹی کا 10ہزار کلو مادہ استعمال کیا گیا تھا۔ 
مذکورہ گروہ نے دھماکے کیلئے ایک آئل ٹینکر خریدا تھا ۔ یہ لوگ آئل ٹینکر کو دھماکے میں استعمال کرنے کی تربیت تہران میںلے کر آئے تھے۔ انہوں نے کئی ماہ تک لبنانی علاقہ البقاع میں حزب اللہ کے خفیہ اڈے پر اس کی تربیت لی تھی۔ وہاں سے وہ مختلف راستوں سے سعودی عرب پہنچے، مشرقی ریجن میں جمع ہوئے ۔ حزب اللہ کے ماتحت ایک سیکیورٹی اہلکار نے جو جعلی طریقے سے مملکت پہنچا تھا اس پورے آپریشن کی نگرانی کی تھی ۔ 
جس رات دھماکہ کیا جانیوالا تھا ،گروہ کے 50فیصد افراد اور حزب اللہ کا اہلکار ایک دہشتگرد کی رفاقت میں الخبر ٹاورز کمپلیکس کیلئے روانہ ہوئے۔ٹرک کو ایک خاص مقام پر روکا گیا اور پھر ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا گیا۔ اس کے بعد گروہ کے افراد گاڑی پر سوار ہوکر جائے وقوعہ سے فرار ہوگئے اوربالآخر مملکت سے نکلنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ 
دھماکے کے بعد چند لمحوں کے اندر اندر 19امریکی فوجی ہلاک اور 400سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ الخبر ٹاورز کمپلیکس جزوی طور پر منہدم ہوگیا۔ 
سعودی حکام نے وسیع البنیاد تحقیقات کا آغاز کردیا۔ دھماکہ کرنیوالے گروہ نے کوشش کی کہ اس دھماکے کا ذمہ دار کسی طرح القاعدہ تنظیم کے انتہا پسندوں کو ٹھہرا دیا جائے کیونکہ انہوں نے ایک سال قبل ریاض میں امریکی ماہرین کے رہائشی مرکز پر حملہ کیا تھا تاہم ان کی یہ عیاری سعودی سراغرسانوں پر اثر انداز نہ ہوسکی۔ سعودی سراغ رسانوں نے الخبر ٹاورز کمپلیکس کے دھماکے کا گہرائی اور گیرائی سے معائنہ کیا تھا۔ انہیں اس دھماکے میں حزب اللہ کے رنگ ڈھنگ نظر آئے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا تھا کہ اس دھماکے میں جو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا وہ حج موسم کے دوران مکہ مکرمہ میں پاسداران انقلاب کے دہشگردانہ دھماکوں اور گزشتہ صدی کے آٹھویں عشرے کے دوران بیرو ت میں امریکی افواج کے کمپلیکس کے دھماکے میں استعمال کئے جانیوالے دھماکہ خیز مواد سے ملتا جلتا ہے۔
سعودی سراغرسانوں کے تجربات کی بناپر انہیں تحقیقات کے نتیجے میں پے درپے مفید معلومات ملتی چلی گئیں۔ امریکہ کا دباﺅ تھا کہ اسے بھی تحقیقاتی عمل میں شریک کیا جائے تاہم سعودی عرب نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ امریکہ کو اس کے مطلب کی معلومات وقت آنے پر مہیا کردی جائیں گی۔
سعودی حکومت نے تحقیقات کے نتائج اور شواہد پر مشتمل پوری فائل آخر کار امریکی حکومت کے حوالے کردی۔ اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ بل کلنٹن امریکہ کے صدر تھے۔ حیرتناک بات یہ ہوئی کہ امریکیوں نے الخبر دھماکے سے ہونیوالے فوجی نقصان پر اپنے استحقاق سے راہ فرار اختیارکرلی اور وہ حملہ کرانیوالی ریاست سے بدلہ لینے کے سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سے دامن بچانے لگی۔ سعودی عرب نے دہشتگردوں کے تعاقب اورانہیں یکے بعد دیگرے شکار کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور بالآخر اس سلسلے میں مثالی کامیابی حاصل کرلی۔
الشرق الاوسط نے ایک خبر چھاپی جس میں کہا گیا کہ امریکہ کو الخبر دھماکے کے ماسٹر مائنڈ المغسل کی گرفتاری کا علم سب سے آخر میں ہوا حالانکہ وہ ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر مطلوب تھا۔ ہانی الصایغ کو کینیڈا سے گرفتار کیا گیا ۔مصطفی القصاب کو لبنانی بینک کی ایک شاخ سے پکڑا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ایرانیوں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندوں کے درمیان کیا تعلق ہے جس کی بناءپر ڈیموکریٹک پارٹی کے امریکی رہنما نہ صرف یہ کہ ایران کو نظر انداز کرتے ہیں بلکہ اس کی پیٹھ بھی تھپتھپاتے ہیں ۔ اس کا جواب 1978ءکے یادگار واقعہ کی طرف لے جاتا ہے جب ایرانی انقلاب آیا تھا۔ اس وقت امریکی صدر جمی کارٹر نے نہ صرف یہ کہ خمینی کا ساتھ دیا تھا بلکہ امریکہ نے مخلص حلیف رضا شاہ پہلوی کے سامنے تعاون کے تمام راستے بند کردیئے۔ آخرمیں تمام رہی سہی کسر ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر اوبامہ نے پوری کردی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: