Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”بہت بولنے لگی ہو“ثانیہ کے جواب پر رضاغرایا

برخوردار۔۔۔! یہ پول استانی کے لئے نہیں تمھارے بچوں کے لئے بنایا گیا ہے، دادو نے رضا کو حیرت میں مبتلا کردیا،ثانیہ دادو کی موجودگی میں شیرنی ہوچکی تھی
ناہید طاہر ۔ ریاض
قسط 21
عالی شان بنگلہ جسکا وسیع لان جو کئی خوشنما پودوں اورخوبصورت پھولوں سے آباد تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سارے پھول اپنی خوش نمائی سمائے ہوئے، خرامِ ناز کے استقبال میں پے در پے ا±ٹھ ا±ٹھ کر اپنی خوبصورتی اور ہونے کاثبوت دے رہے ہوں۔خوبصورت پھولوں کی تو وہ پہلے سے گرویدہ تھی ، خوشی سے اچھل پڑی اور ہر پھول کے قریب پہنچ کر اسے چھوتی ہوئی انھیں نہارنے لگی۔
رضا نظریں بچا کر اس کی جانب دیکھ لیتا۔۔۔۔ اس کے جنون اور خوشی کو محسوس کر کے سخت دل بھی موم کی طرح پگھلتا چلا جاتا اوردل کی سنگلاخ چٹانوں پرصبح صادق کی شبنمی پھوار برستی محسوس ہونے لگتی اور یہ شبنم کی پھواردل کو گدگدا رہی تھی۔وہ کافر حسنِ بے پرواہ ایک نگاہ غلط بھی رضا کی جانب ڈالنا گوارا نہیں کررہی تھی، بے رحم پتھرنما دل پر رضا کو ہلکی سی چوٹ کا احساس جاگا۔
مغرور لڑکی۔۔۔!!! اس نے ہونٹوں کو دانتوں تلے بھینچ لیا۔
جب وسیع لان ختم ہوا تو شیشوں کی جدید ڈیزائین سے تیار کی گئی خوبصورت راہداری نظر آئی وہ لپک کر دادو کے پیچھے اس راہداری سے گزرنے لگی۔۔۔۔رضا بھی پیچھے پیچھے چلاآیا۔اس راہداری کے اختتام پر ایک اور بڑاسا ہال تھا جس کی چھت سبز شیشوں سے آراستہ تھی۔وہاں بہت بڑا سوئمنگ پول نظر آیا ۔ثانیہ دوڑ کر پول کے قریب آئی۔پول کا صاف و شفاف پانی منجمد تھا ۔ثانیہ کے خوبصورت عکس کو چھوتا ہوا سرشار دکھائی دیا۔پیچھے سے رضا بھی ثانیہ کے قریب بڑھ کر اپنا عکس پانی میں دیکھنے لگا۔بہت خوبصورت جوڑی ہے۔۔۔دادو نے ہلکے سے کنکر پھینک کر پانی کو متحرک کیا تو دونوں کے عکس گڈمڈ ہونے لگے۔ پھرعکس جیسے تحلیل ہونے لگے۔
ایسا ظلم تو نہ کریں۔۔۔۔۔رضا نے بے چین ہوکر دادو کے کنکر مارنے پر اعتراض ظاہر کیاتو ثانیہ بے اختیار رضا کی آنکھوں میں جھانکنے لگی۔وہ گردن گھما کر نظریں چرارہا تھا۔
اتنا بڑا سوئمنگ پول۔۔۔۔؟ ثانیہ حیرت سے کہتی ہوئی بات کو بدلنے کی کوشش کرنے لگی۔
"محترمہ۔۔۔! یہ بھی تمھارے لئے آراستہ کیا گیا ہے۔۔۔۔۔!"
"ویسے تیراکی کس چڑیا کا نام ہے، یہ پتا ہے یا نہیں؟"
"برخوردار۔۔۔! یہ پول استانی کے لئے نہیں تمھارے بچوں کے لئے بنایا گیا ہے۔
"اچھا وہ کہاں ہیں۔۔۔۔؟"رضا پتا نہیں کس خیال میں تھاجو احمقانہ سوال کر بیٹھا لیکن دوسرے ہی پل بات کی گہرائی کا احساس کرتا ہوا سٹپٹاکر ثانیہ کی جانب دیکھا۔۔۔وہ اس کی بے وقوفیوں پر لطف اندوز ہورہی تھی۔ دادو کی موجودگی پر شیرنی بن چکی تھی۔
بدھو ہو۔۔۔۔۔تمھارا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔!!!دادو نے قہقہہ لگا کر رضا کے بالوں کو بکھیردیا۔
"دادو پلیز۔۔۔۔۔" وہ بڑی بے بسی سے دادو کو ثانیہ کی موجودگی کا احساس دلانے لگا۔ 
" ثانیہ اب غیر نہیں۔۔۔۔۔!"
جواب میں اس نے ناراض ہو تے ہوئے گردن کو خفیف جھٹکادیا اورآگے بڑھ گیا۔
ثانیہ اب اندر چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔دادو شاید تھک چکے تھے۔
جی دادو۔۔۔۔۔۔۔وہ دادو کا ہاتھ تھام کر آہنی دروازے کی جانب پلٹ گئی۔۔۔دروازہ دھیرے سے کھولا دوسرے ہی پل اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ روشن جھومر اور درودیوار کی خوبصورت پینٹنگ کے ساتھ انٹیریرڈیزائن اتنااعلیٰ اور عمدہ تھا کہ ثانیہ کو کسی محل کا گماں ہونے لگا۔ دبیز قالین پر پیر رکھتے ہی روح تک سر شار ہوگئی۔پورے گھرمیں شاید سنڑلائز اے سی کا انتظام تھا۔ جس کی وجہ سے فضا میں راحت بخش ٹھنڈک وجود کو سکون بخش رہی تھی۔اس گھر میں کئی خواب گاہ تھیں ہر خواب گاہ کو بہترین انٹیریرڈیزائنرسے سجایا گیاتھا۔وہ تھک کر ایک صوفے پر بیٹھ گئی۔
"کیوں تھک گئی کیا۔۔۔۔؟ "دادو فون پر کسی سے بات کررہے تھے درمیان میں پوچھنے لگے۔
"ہاں کچھ کچھ۔۔۔۔"اس نے مسکراہٹ کے درمیان جواب دیا۔۔
"ایک بیڈروم میں گزارا کرنے والی محترمہ۔۔۔۔۔!"
 اس نے دھیرے سے چوٹ کی۔۔
"اللہ جسے چاہتے ہیں بلندیاں عطاءکرتے ہیں۔
اور جس کو چاہتے ہیں پستی ،بالکل میری طرح۔۔۔۔۔۔۔!
رضا نے ثانیہ کی جانب تیز نگاہوں سے دیکھتا ہوئے چوٹ کیا۔جواب میں۔۔
ثانیہ بے تکلفی کے ساتھ مسکرائی۔
"صاحب یہ تو اپنے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔۔۔!"
"اچھا۔۔۔۔۔! " رضا خار کھانے لگا۔
دوسروں کی عزت سے کھیلنا آپ کا شوق تو اچھا ہے لیکن جوابی حملہ سہنے کی طاقت نہیں رکھتے ہو۔۔۔! "
"بہت بولنے لگی ہو۔۔۔!"جواب میں وہ غرایا۔
"دادو کا ساتھ ہوتا ہے تو حوصلوں کو پرواز مل جاتی ہے۔۔۔۔۔!!! "وہ کہتی ہوئی اٹھ کر دادو سے لپٹ گئی۔
ہمیں اب چلنا چاہئے مجھے کالج بھی جانا ہے دادو۔۔۔۔۔رضا نے اکتا کر کہا۔
"کالج میں اطلاع پہنچا دی گئی ہے کہ تم دونوں چھٹی پر ہو۔۔۔۔۔!"
دادو کے اس انکشاف پر دونوں حیرت زدہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔۔فرار کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔
"محترمہ اب آپ۔۔ آرام سے یہاں بیٹھ جائیں اور دادو کو اپنے خوشگوار مستقبل کے منصوبوں سے آگاہ کردیں۔۔۔۔۔"رضا نے جھلا کر صوفہ پر خود کو گرادیا۔
ثانیہ بے اختیاررضا کو دیکھنے لگی۔
"کون سے منصوبے۔۔۔۔؟"دادو موبائل بند کر تے ہوئے پوچھنے لگے۔ثانیہ جواب میں ہراساں دادو کو دیکھنے لگی تب ہی سفید یونیفارم میں ملبوس ایک شخص اندر آیا اور جھک کرسلام کے بعد کھانا لگنے کی اطلاع دی۔ ثانیہ نے راحت بخش سانس لی۔
یہاں ہم اکیلے نہیں۔۔۔۔؟ رضا چونک گیا
"برخوردار چند خادم بھی ہیں۔۔۔۔۔"
پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ تینوں نے ڈائننگ ہال کا رخ کیا جہاں ڈائننگ ٹیبل پر گرماگرم بریانی،مرچوں کا سالن،مرغ مسلم،کباب،فش اپولو اور بٹر نان سجی تھی اس کے علاوہ کئی قسم کے مشروبات اور میٹھے بھی موجود تھے۔
"دادو گریٹ۔۔۔۔۔۔آپ نے تو ہر چیز کا انتظام کر رکھا۔"رضا خوشی سے کہتا ہوا کرسی پر براجمان ہوا اور کھانے پر جیسے ٹوٹ پڑا۔ثانیہ بھی بھوک محسوس کررہی تھی۔رضا کے پہلو میں آکر بیٹھ گئی، رضا کے ماتھے پر ایک سکنڈ کے لئے شکنیں ابھر آئیں۔ثانیہ نے توجہ نہیں دی۔
ثانیہ بیٹی اب تم مستقل طور پر یہاں شفٹ ہوجا ﺅ۔۔۔۔۔۔ہمارے صاحبزادے باہر کا کھانا کھاکر تھک چکے ہیں۔
یہ میں نے کب کہا دادو؟دادو کے اس اعلان پر رضا نے بے چینی سے پہلو بدلتا ہو ئے بڑی بے بسی سے پوچھا۔دادو کے اس اعلان پرثانیہ کے حلق میں لقمہ بری طرح پھنس گیا۔۔۔۔وہ زور سے کھانسنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کے اختتام پر دادو آرام کرنے کی نیت سے اپنی خواب گاہ میں چلے گئے تو ثانیہ ہونقوں کی مانند صوفے پر بیٹھی ٹی وی دیکھتی رہی۔۔۔۔۔رضا صوفے پر دراز خراٹے بھرنے لگا تھا۔ٹی وی دیکھتے ہوئے اس کی نظریں ٹی وی سے ہٹ کر بے اختیار اس لا ا±بالی شخص کا طواف کرنے لگیں اور دل پوری قوت سے دھڑکتاچلاگیا، اسی شور میں آنکھیں بوجھل ہو ئیں اور پتا نہیں کب اس کی آنکھوں میں نیند نے اپنا ڈیرہ جما لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
باقی آئندہ ان شاءاللہ
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: