Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اللہ تعالیٰ کے ہاں مقامات عالیہ کے مستحق، شہداء

 بوقت ِ شہادت جو حلاوت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جو اکرام و شرف پایا ہوگا،اس کے پیش ِ نظر وہ دوبارہ شہادت کی خواہش کریں گے
 

اسلامی سال ِ نو اپنے ساتھ جو یادیں اور پیغامات لاتا ہے، انہی میں سے تاریخ ِاسلام کا ایک انتہائی اندوہناک واقعۂ شہادت ِ حضرت حسینؓ بھی ہے۔سر دست ہم اس واقعہ کی تفصیلات میں تو نہیں جارہے البتہ اسی مناسبت سے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں شہادت کے مقام و مرتبہ کی وضاحت قرآن و سنت کی روشنی میں کردی جائے ،چنانچہ قرآن ِ کریم کے ایک دو نہیں بکثرت مقامات پر جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت و عظمت اور مقام و مرتبۂ شہادت کی رفعت و منزلت بیان ہوئی ہے۔
    کہیں فرمایا ہے کہ فی سبیل اللہ شہادت پانے والے لوگوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس زندگی کا شعور نہیں ، کہیں انہیں رحمت ِ الٰہی کے امید وار فرمایا اور کہیں رحمت و بخشش کو اُن کا مقدر بتایا ہے۔ کہیں فرمایا ہے کہ انہیں اللہ کی طرف سے رزق دیا جائے گا ،وہ اللہ کے فضل و احسان اور نعمت و کرم پر خوش ہوں گے ، انہیں کوئی غم یا خوف نہیں ہوگا ، ان کے لئے اجر ِ عظیم اور بلند درجات ہیں ، انہیں ہمیشہ کے لئے رضائے الٰہی اور دائمی جنت کی نعمتیں حاصل ہوں گی ۔
    اِن قرآنی آیات کے علاوہ بے شمار احادیث میں بھی جہاد و مجاہدین اور شہادت و شہداء کی فضیلت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ابو ذر غفاری ؓنے پوچھا:
    ’’اے اللہ کے رسول ()!سب سے افضل عمل کونسا ہے ؟‘‘
    تو رسول اللہ نے فرمایا:
    ’’اللہ پر( غیر متزلزل) ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ ‘‘ ( بخاری) ۔
    بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ارشاد ِ نبوی ہے:
    ’’جنت میں ایک سو درجات ِ رفیعہ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لئے تیار کر رکھے ہیں۔ ‘‘
     مسلم شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓسے مروی ارشاد ِنبوی ہے :
    ’’اللہ تعالیٰ قرض کے سوا شہید کے تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔‘‘
    بخاری شریف میں ہے کہ غزوئہ بدر کے دوران شہادت پانے والے ایک صحابی حضرت حارثہ بن سراقہؓ کی والدہ نے حضرت نبی کریم سے پوچھا کہ میرا بیٹا حارثہ غزوئہ بدر میں شہید ہوا تھا ،اس کا انجام کیا ہوگا ؟ تو آپ نے انہیں خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:
    ’’تیرا بیٹا جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام کو پاگیا ہے۔‘‘
     بخاری شریف کی ایک طویل حدیث میں آپ   کافرمان ہے:
     ’’ مجھے2 آدمی اپنے ساتھ لے کر اوپر چڑھ گئے اور ایک ایسے گھر میں داخل کردیا کہ میں نے اس سے بڑھ کر خوبصورت کوئی گھر کبھی دیکھا ہی نہیں اور انہوں نے مجھے بتایا : یہ گھر شہداء کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ ‘‘
    شہداء کو اللہ تعالیٰ جنت میں بلند مقام اور قرب ِ خاص سے نوازے گااو رپوچھے گا :
    ’’کیا تمہیں کسی اور نعمت کی تمناہے۔ ؟‘‘
     وہ کہیں گے :
    ’’ اے اللہ ! ہمیں جو نعمتیں میسر ہیں ، ان سے بڑھ کر اور کیا طلب کریں ؟ ہاں اگر ممکن ہو تو ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تا کہ ہم دوبارہ تیری راہ میں شہید ہوں۔‘‘ ( بخاری) ۔
     شہید کے سوا ایسی تمنا کوئی دوسرا نہیں کرے گا ۔حدیث میں ہے کہ ان کی یہ تمنا صرف اس وجہ سے ہوگی کہ انہوں نے بوقت ِ شہادت جو حلاوت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جو اکرام و شرف پایا ہوگا،اسی کے پیش ِ نظر وہ دوبارہ شہادت کی خواہش کریں گے ۔
     بخاری و مسلم میںہی ارشاد ِ نبوی ہے:
    ’’جہاد فی سبیل میں زخمی ہونے والا قیامت کے دن اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کے زخموں سے ایک ایسا رنگین مادہ بہہ رہا ہوگا جس کا رنگ خون کا اور خوشبو کستوری کی ہوگی۔ ‘‘

مزید پڑھیں:- - -  - - -امام حسینؓ ، ریحانۂ مصطفیٰ

شیئر: