Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امن کا راستہ

***محمد مبشر انوار***
اس وقت دنیا کی تقریباً نصف آبادی برصغیر و چین میں آباد ہے اور بد قسمتی سے یہی وہ خطہ ہے جو سب سے زیادہ بد امنی کا شکار ہے۔ بد امنی کے ساتھ ساتھ اس خطے میں موجود ہندوستانی ریاست وہ واحد ریاست ہے جو ابھی تک اس حقیقت کااعتراف کرنے کے لئے تیا ر نہیں کہ واقعتابر صغیر تقسیم ہو چکا ہے اور اس خطے میں اب اکھنڈ بھارت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے،ہندوستان کی ہند توائی اس کے مزید حصے بخرے کرنے کا باعث بنے ۔ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک اس وقت روا رکھا گیا ہے اور جس طرح بی جے پی کی حکومت اپنے انتہا پسندوں کی ریاستی پشت پناہی کرتی ہوئی نظر آتی ہے،اس سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ ہندوستان کا یہ انتہا پسندانہ رویہ اقلیتوں کو مرکز سے مزید دور کرے گا اور اس نا انصافی کے خلاف بالآخر غیر مطمئن اقلیتیں آزادی کے منطقی انجام سے کم پر کسی صورت بات نہیں کریں گی۔ مودی سرکار نے یقینااپنے ووٹرز کی توقعات کے مطابق ہی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ عالمی برادری (جو اپنے ممالک میں تو جانوروں تک کے حقوق کا خیال رکھتی ہے) لیکن خون مسلم ان کی نظر میں جانوروں سے بھی کم تر ہے،مجرمانہ غفلت کاشکار ہے اور بوجوہ اس ریاستی دہشت گردی سے صرف نظر کر رہی ہے۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے جبکہ دوسرا رخ یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام غیر مسلم ممالک کی یہ شدید ترین خواہش ہے کہ مسلم ممالک باہمی اتفاق و اتحاد سے کوسوں دور رہیں اور اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ اپنی مقدور بھر سے زائد کوششوں میں ہمہ وقت مصروف عمل ہیں ۔ 
پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی وزیراعظم عمران خان نے ہندوستان کو جو خیر سگالی کا پیغام دیا اور اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے سیاسی قیادت کے رابطے بھی ہوئے ،اقوام متحدہ میں وزرائے خارجہ کی ملاقات کا عندیہ بھی ملا مگر یہ خواہش ایک بار پھر ہندوستان کے روئیے کی وجہ سے ناتمام رہنے والی ہے۔ ہندوستان نے فقط ایک ماہ میں ہی وزیراعظم عمران خان کو ہدف بنا کر ،ان پر کیچڑ اچھال کر اس ملاقات سے انکار کر دیا ہے۔ اس انکار کے پیچھے کیا وجوہ ہو سکتی ہیں؟بادی النظر میں یہ واضح ہے کہ روس کی شکست و ریخت کے بعد(بلکہ سرد جنگ کے دوران بھی ہندوستان امریکہ سے اپنے مفادات کشید کرتا رہا ہے)براہ راست امریکہ بہادر کے ساتھ اپنے مستقبل کو پیوستہ کر چکاہے اور اپنے تئیں جنوبی ایشیا میں امریکی چوکیداری کا منصب سنبھال کر ، چین کی گوشمالی میں ایک بڑا فریق بن کر سامنے آیا تھامگر افسوس کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے چین عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو منواتے ہوئے مسلسل طاقت حاصل کر رہا ہے اور غیر اعلانیہ طور پر امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ جاری ہے۔ امریکی حکومت کے اس جنگ میں چٹختے تڑختے ہوئے اعصاب ساری دنیاپر واضح ہو رہے ہیں کہ کس بے تکے اور غیر مساویانہ طریقے سے امریکہ اقتصادی طور پر اپنے مخالفین پر پابندیاں عائد کر رہاہے مگر سب بے سود کہ ہوس دنیا گری میں مبتلا امریکہ اس حقیت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس دنیا کی ہر حیثیت فانی ہے۔ امریکہ اکلوتی عالمی طاقت کے زعم میں،ہر جگہ اپنے سینگ سمائے الٹے سیدھے فیصلے کررہا ہے اور اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ،من مرضی اور نا انصافی پر مبنی جو فیصلے کرچکا یا کر رہا ہے،اس کا حساب (سزا و جزا) قریب ہے۔ ماضیٔ قریب کی عالمی طاقت،جسے پاکستان کی خفیہ سروس نے افغانستان میں رسوا کیا،دوبارہ اپنی عالمی حیثیت حاصل کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ گو کہ ابھی اسے ماضی والی حیثیت نہیں ملی مگر چین کے ساتھ قرابت نے ایک حد تک اسے امریکہ کی من مانیوں کے سامنے کھڑا ہونے کے قابل کر دیا ہے۔علاوہ ازیں دیگر ممالک جو امریکی ناانصافیوں اور امتیازی سلوک کا شکار رہے اور ہو رہے ہیں،وہ بھی اپنی پالیسیوںپر نظر ثانی کرتے ہوئے،اس نئے ابھرتے ہوئے اتحاد کی جانب دیکھ رہے ہیں اور بتدریج اس کا حصہ بن کر امریکی متعصبانہ پالیسیوں کیخلاف صف آرا ہوں گے۔ امریکہ جنو بی ایشیا میں ہندوستان سے جس کردار کا متمنی ہے،وہ پورا ہوتا نظر نہیں آتا کہ نہ توچین کا سی پیک منصوبہ کسی خلل کا شکار نظر آتا ہے اور نہ ہی اس کے باقی ماندہ منصوبے،جن کا بلیو پرنٹ تیار ہے اور سی پیک منصوبے کے روبہ عمل ہوتے ہی،چین کی توجہ اپنے باقی منصوبوں کو مکمل کرنے پر ہو گی۔ مزید برآں سی پیک منصوبے پر سعودی عرب کی بھاری سرمایہ کاری (بقول وزیر اطلاعات پاکستان)نہ صرف اس منصوبے کو مزید تقویت بخشے گی بلکہ پاکستان کو اقتصادی مشکلات سے نکالنے کا سبب بھی بنے گی۔ سعودی عرب سی پیک میں جس منصوبے پر سرمایہ کاری کرنے کاخواہشمند ہے،اس کا براہ راست اثر ملکی معیشت کے استحکام کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں نوکریوں کی شکل میںبھی سامنے آئیگا کہ یہ سرمایہ کاری صرف راہداری تک محدود نہیں اور نہ ہی کسی طرح یہ سرمایہ کاری وقتی ہے بلکہ یہ سرمایہ کاری مستقل بنیادوں پر ہو رہی ہے۔
علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی ہمیشہ کی طرح عیاںہے کہ جیسے جیسے ہندوستان میں انتخابات کا وقت قریب آتا جائیگا ،ہندوستان میں موجود حکومت اپنے ووٹرز کو پاکستان کے ہوّے سے ڈراکر اپنی سیاسی حیثیت مضبوط کرنے کے کوششیں جاری رکھے گی۔ کل تک صورتحال یہ رہی ہے کہ امن کی راہ میں رکاوٹ یا جنگ میں پہل کا الزام ہمیشہ پاکستان یا افواج پاکستان پر دھرا جاتا رہا جبکہ اس مرتبہ الٹ ہو رہا ہے۔ آج پاکستان کی سیاسی قیادت اورافواج پاکستان کے سپہ سالار امن کی خاطر دو قدم آگے جانے کیلئے تیار ہیںمگر دوسری طرف ہندوستان کی سیاسی قیادت اور فوج کا مؤقف اس کے بر عکس ہے۔ ہندوستانی فوج کے سپہ سالار پاکستان سے جنگ کی دھمکی دیکر اپنے عزائم کو بے نقاب کر چکے ہیں کہ در حقیقت یہ ہندوستان ہی ہے جو اکھنڈ بھارت کا سودا دماغ میں سمائے امن کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔خطے میں امریکی چوکیدار بنا ہندوستان بلکہ امریکہ بھی شدید پریشانی کے عالم میںہیں کہ کس طرح اپنی حیثیت کو برقرار رکھے اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے ساتھ ساتھ اس کی اقتصادی یلغار کے سامنے بند باندھا جائے؟اپنے اس ہدف میں امریکہ و ہندوستان دونوں بے بس نظر آتے ہیں اور اس بے بسی اور جھنجھلاہٹ میں ان سے کسی بھی جارحیت کے امکان کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن کیایہ جارحیت روایتی ہوگی یا غیر روایتی؟یہ حقیقت ساری دنیا جانتی ہے کہ دونوں ملک غیر روایتی اسلحہ سے لیس ہیں اور کسی بھی ممکنہ جارحیت کے نتیجے میں پہل کرنیوالا ملک ہی بچ پائے گاتو پہل کون کرے گا؟علاوہ ازیں غیر روایتی ہتھیار استعمال کرنے سے قبل کون سا ملک ایسی ٹیکنالوجی یا بہترپوزیشن رکھتا ہے کہ غیر روایتی ہتھیاروں کی بجائے اپنی پوزیشن کااستعمال کرتے ہوئے دوسرے ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے؟کیا پاکستان نشیب میں ہونے کی وجہ سے ہند کے ان آبی ذخیروں سے تباہی کاشکار ہو سکتا ،جہاں ہندنے پاکستان کاہی پانی جمع کر رکھا ہے؟یا دوسری صورت ’’ہارپ‘‘ فوری اور بے وقت موسمی تغیرات کے سبب، پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتاہے؟جواب میں پاکستان اپنی ایٹمی طاقت استعمال کر کے  ہند کانقشہ بگاڑنے کی اہلیت رکھتا ہے؟ہر دو صورتوں میںامن اپنی موت آپ مر جائے گا اور فائدہ ان ممالک سے دور رہنے والے اٹھائیں گے۔ دونوں حکومتوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ امن کا راستہ صرف مذاکرات میں مضمر ہے۔
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں