Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عربی سیکھنے کیلئے آسان اسباق پر مشتمل سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جو اردو داں طبقے کیلئے معاون د ثابت ہوگا

گزشتہ درس میں ہم نے مشق کیلئے خود اسماء اور ان کی صفات الگ الگ املاء کرائی تھیں۔اب ان کی صحیح ترکیبیں بتائیں گے۔

رجلٌ شریفٌ،إمرأۃٌ کریمۃٌ، ولدٌ نظیفٌ، بِنْتٌ ذکیۃٌ، قلم جمیلُ، طفلٌ نشیطٌ، ثمرۃٌ لذیذۃٌ، نخْلَۃٌ عالیۃٌ کھجورکا اونچا درخت، طالبٌ ناجحٌ، طالبۃٌ نبِھۃٌ ، حمامۃٌ جمیلۃٌ خوبصورت کبوتر، روضۃٌ کبیرۃٌ ایک بڑا باغ۔

ان الفاظ کے معانی پہلے بتاچکے ہیں اس لئے صرف نئے الفاظ کے معنی بتانے پر اکتفا کیا گیا۔ المسجدُ الجمیلُ، المدرسُ الماہر، الفتاۃُ الذکیۃُ، القلمُ الثمینُ (قیمتی قلم) ، المدینۃُ العظیمۃُ، الأمْ الحنونُ، البنتُ النظیفۃُ، الرجَلُ الکریمُ، الصومعۃُ الکبیرۃ ، الحاکم العادل منصف حکمران، الطفّلُ النبیہُ ہونہار بچہ۔ موصوف اور صفت کی ترکیب یعنی ترکیب توصیفی کی نئی مشق آپ سے کرادی گئی ہے کہ بعد میں جب اس طرح کی ترکیب جملوں میں آئے گی تو آپ حضرات اس کو فوراً پہچان لیں گے۔ یاد رکھئے کہ یہ ترکیب اگرچہ دو لفظوں (اسموں) پر مشتمل ہوتی ہے لیکن حکم میں ایک ہی لفظ یعنی مفرد کے ہوتی ہے اور یہ ترکیب ناتمام ہی ہے ۔ یعنی اس سے مکمل بات یا جملہ کا مفہوم نہیں نکلتا۔ بالکل اسی طرح کی ایک اور ترکیب ہے جو مرکب ہونے کے باوجود مفرد یعنی واحد ہی کے معنی میں بولی جاتی ہے ۔

اس کا نام ہے ترکیب اضافی۔ ترکیب توصیفی میں اسم کی صفت بیان کیجاتی ہے چاہے، صفت اچھی ہو یا بری جیسا کہ آپ نے سابقہ درسوں میں سنا۔ لیکن ترکیب اضافی میں کسی چیز کی ملکیت یا نسبت بیان کیجاتی ہے ۔

یعنی اس میں بھی دو اسم ہوتے ہیں۔ پہلے کو مضاف اور دوسرے کو مضاف الیہ کہتے ہیں۔ مضاف ، مضاف الیہ کی یا تو ملکیت ہوتا ہے یااس کی طرف نسبت رکھتاہے۔ مثالوں سے سمجھئے :

کتابُ زیدٍ زید کی کتاب ، قلم خالدٍ خالد کا قلم، حقیبۃُ نبیلٍ نبیل کا بیگ، ساعۃُ محمودٍ محمود کی گھڑی، سیارۃُ علیٍّ علی کی کار، مزرعۃُ حسنٍ حسن کا فارم ، کھیت، حدیقہُ حامدٍ حامد کا باغ، دارُ زیادٍ زیاد کا گھر، جذائُ رشیدٍ، رشید کا جوتا، نظارۃُ عادلٍ عادل کی عینک، قمیصُ حُسینٍ حسین کی قمیص، نقودُ سعدٍ سعد کے پیسے۔ ان تمام مثالوں میں آپ نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ مضاف ، ترکیب کا پہلا حصہ مضاف الیہ ، ترکیب کے دوسرے حصہ یا آخری حصے کی ملکیت ہے۔ لیکن کبھی مضاف ، مضاف الیہ کی ملکیت نہیں ہوتا بلکہ اس سے نسبت رکھتا ہے۔مثالوں سے سمجھئے

دینٌ زیدٍ زید کا مذہب یعنی زید کس مذہب سے نسبت رکھتا ہے ۔

مذہبُ خالدٍ خالد کا مسلک،

بلدُ محمودٍ محمود کا ملک،

جنسیۃُ انس انس کی شہریت

حدیقۃُ ورْدٍ گلاب کے پھول کا باغ (ورْد گلاب کے پھول کو کہتے ہیں)

کلیۃُ علَّیٍ علی کا کالج

اِبریق فضہٍ چاندی کا جگ،

ثوب صوف اون کا کپڑا،

شعب المملکۃِ مملکت کے عوام،

جامعۃُ الریاضٍ ریاض کی یونیورسٹی، یا ریاض یونیورسٹی۔

ابھی آپ نے جو مثالیں سنیں ان میں مضاف ، مضاف الیہ کی ملکیت نہیں ہے۔ مضاف الیہ سے نسبت اور تعلق رکھتاہے۔ عرب میں اضافت کے اور بہت سے معنی ہیں لیکن آپ کے معیار کو پیش نظر رکھتے ہوئے صرف دو اہم معنوں کو ہم نے بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ ترکیب توصیفی میں آپ نے یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ موصوف اور صفت میں چند باتیں مشترک تھیں ۔

مثلاً دونوں کا اعراب ایک تھا۔ اعراب لفظ کے آخری حرف کی حرکت کو کہتے ہیں۔ اگر موصوف اسم نکرہ تھا تو صفت بھی اسم نکرہ تھی، اگر موصوف اسم معرفہ تھا تو صفت بھی اسم معرفہ تھی، اگر حرف مذکر تھا تو صفت بھی مذکر تھی اور اگر موصوف مؤنث تھا تو صفت بھی مؤنث تھی۔

اضافت میں مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان اس طرح کی مطابقت ضروری نہیں ہے ، البتہ دو اہم باتیں غور سے سنکر ان کو یاد رکھنے کی کوشش کیجئے۔

پہلی بات یہ کہ مضاف کے آخری حرف پر جو حرکت بھی ہو اس پر تنوین کبھی نہیںآتی یعنی دو فتحہ(زبر)، دو کسرۃ(زیر) اور دو ضمہ(پیش) کسی بھی حال میں نہیں لگتے۔ دوسری بات یہ کہ مضاف الیہ ہمیشہ ’’ مجرور‘‘ ہوگا۔ مجرور اس حالت کو کہتے ہیں جس میں لفظ کے آخری حرف پر کسرۃ(زیر) آئے اگر مضاف الیہ الف لام سے خالی ہوگا تو دو کسرہ یعنی دو زیر ہونگے، جس کو تنوین کہتے ہیں۔ جیسے کِتْابُ زیدٍ، قَلَمُ خَالدٍ اور اگر مضاف الیہ پر الف لام ہوگا تو صرف ایک کسرہ یعنی ایک زیر ہوگا جیسے جامعۃ الریاضِ، حب الوطنِ طن کی محبت۔

آج کے درس میں انہی باتوں پر اکتفا یا جائے۔

شیئر: