Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہمانوں کی آمد اور ان کی مدارات اچھی لگتی ہے ،فرحت شارق

 
زینت شکیل۔جدہ 
بدیع ا لسمٰوات والارض ،ہر انسان کے ظاہر اور باطن سے باخبر ہے۔ نیت ،کوشش اور دعا سے ہر کام آسان ہوجاتا ہے ۔ مہمانوں کی تواضع کرنا بے حد پسندیدہ عمل ہے، ثواب کا حامل ہے ۔اس سے میزبان کے مال میں برکت ہوتی ہے۔ دسترخوان پر موجود نعمتوں پر بھی اللہ کریم کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ مسافروں کی دیکھ بھال اور انکی ضرورتوںکو پورا کرنا بہترین اعمال میں شامل ہیں۔
ہوا کے دوش پر اس ہفتے ہماری گفتگو محترمہ فرحت شارق اور ان کے شوہر شارق احمد شاہ سے ہوئی چونکہ فرحت شارق اپنے احباب اور رشتہ داروں میں ایک بہترین متواضع شخصیت کے طور پر جانی پہچانی جاتی ہیں۔ موضوع گفتگو ان کے لئے خوشی کا باعث بنا کیونکہ وہ خود بہت مہمان نواز ہیں اور مہمانوں کی آمد کو اپنے لئے اعزاز سمجھتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ مہمان تو برکت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ وہ مہمانوں کابہت اکرام کرتی ہیں۔
سید واجد علی اور انکی اہلیہ کے گھر جب انکی صاحبزادی نے آنکھ کھولی تو انہوں نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا نام فرحت رکھا۔ انکی بیٹی جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی، والدین ہی کیا سب کی لاڈلی ہو گئی۔ گھر کے برابر رہنے والوں کے یہاں بھی ان کی خوب دوستی تھی۔ ہر تقریب میں آنا جانا ہوتا رہتا تھا۔ وقت گزرتا رہا اور تربیت بھی ہوتی رہی۔
جب انہوںنے ویمن کالج، کراچی سے بیچلرز کا پروگرام مکمل کیا تو برابر والے گھر میں انکی سہیلی کی شادی طے پاگئی۔ بہت دھوم دھام سے تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ اس گھر میں وہ ان گنت مرتبہ جاچکی ہوںگی اور شارق صاحب کے خاندان والے بھی بے شمار مرتبہ اپنے تایا جان کے گھر آئے ہوںگے لیکن یہ اتفاق ہی ہوا کہ اس شادی کے موقع پر دونوں خاندانوں کی ملاقات ہوئی اور اس شادی کی تقریب میں رشتہ دے گیا۔ اس طرح پڑوسی رشتہ دار بن گئے۔ 
شارق احمد شاہ نے مکینیکل انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور ایک معروف کمپنی میں اپنی خدمات انجام دینے لگے۔ایشیائی ماﺅں کی طرح انکی والدہ کی بھی خواہش تھی کہ جلد سے جلد انکی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوجائیں ۔قدرت نے راستہ کھول دیا پھر دونوں جانب سے شادی کی تیاری میں زیادہ وقت نہیں لیا گیا ۔
اسے بھی پڑھئے:اولین ذمہ داری گھر ، بچے اور شوہر ، باقی سب بعد میں، عائشہ منصور
اس موقع پر جب ان سے سوال کیا گیا کہ شادی کی رسومات دونوں خاندانوں میں ایک ہی جیسی تھیں یا کچھ مختلف ، اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رسومات تو زیادہ نہیں ہوئیں جو مایوں اور مہندی کی رسمیں اورجو بھی تقریب ہوئی وہ اپنے اپنے خاندانوں میں ہوئی یعنی سسرا ل میں اور میکے میں اپنے اپنے گھروں میں ہوئی۔ خوب خوشی منائی گئی لیکن آج کی طرح اس زمانے میں ایک ہی تقریب میں دولہا، دلہن موجود نہیں ہوتے تھے اس لئے ہمارے یہاں بھی یہی سلسلہ رہا۔شادی والے دن سادگی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ کوئی خاص رسم جیسے گیٹ پر دولہا کو روکنایعنی ڈولا رُکائی ، اسی طرح جوتا چھپائی اور اسٹیج پر مختلف رسموں میں پیسے کی فرمائش جیسی کوئی بات نہیں ہوئی ۔اس بارے میں فرحت شارق نے کہا کہ آپ نے خود دیکھا ہوگا کہ جن دو خاندانوںمیں لڑکے اور لڑکی کا رشتہ جڑتا ہے، ان خاندانوں کے لوگ ایک اہم ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں لیکن اس موقع پر دور دراز کے لوگ رسومات کی ادائیگی میں اتنا زیادہ بحث مباحثہ کرنے لگتے ہیں کہ یہ نئے رشتے میں منسلک ہونے والے دونوں خاندانوں کے لئے اکثر بدمزگی کا باعث بن جاتے ہیں ۔لوگوں کا تو کچھ نہیں بگڑتا۔ وہ آتے ہیں، مہندی، مایوں کی رسومات میں خوب دل کھول کر گانے گاتے ہیں، اپنی طرف سے دولہا ،دلہن کے رشتہ داروں کے نام لے لے کر جملے بناتے ہیں۔اس جملے بازی میں کس کا دل خراب ہوا ،کہاں کہاں لفظی جنگ کاسماں بنا، انجوائے کرنے والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ اپنی دانست میں اپنی ٹیم کو گانے کے مقابلے میں جتا کر اور رسومات میں دوسروں کو مات دے کر ایک پرلطف ڈنر انجوائے کر کے گھر روانہ ہوگئے اور یہ جانا ہی نہیں کہ انکی یہ انجوائے منٹ دونوں گھرانوں میں کتنے عرصے تک ناراضی کا سبب بنی رہی ۔ 
شادی کے بعد سعودی عرب آنا ہوا اور اس جگہ کی برکت ایسی ملی کہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ دیار غیر میں مہمانوں کی آمد بہت اچھی لگتی ہے۔جو احباب ہیں وہاں بھی اپنائیت ملتی ہے ۔پہلے اطہر احمد شاہ نے گھر میں اپنی آمد سے ہلچل پیدا کی اور پھر انکے ساتھی، دوست اور چھوٹے بھائی شعیب احمد شاہ نے رونق میں اضافہ کر دیا۔ دونوں میں دوستی بھی بہت ہے ۔ اسکول و کالج میں ایک جیسا ہی مضامین میں شوق رہا۔ جیسے بڑے صاحبزادے نے کامرس کے مضامین لئے ،وہی انکے بھائی نے بھی اپنے لئے منتخب کئے۔ بعد ازاں اب یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ایک نے کامرس میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد جاب کی شروعات کی تو دوسرے کی ڈگری مکمل ہوجانے کے بعد اسے بھی جاب مل گئی۔ والدین خوش ہیں کہ دونوں ایک ہی آفس میں جاب کرتے ہیں ۔آسانی ہی آسانی ہے۔ دور دور جاب ہوتی تو جتنی سہولت آج میسر ہے اتنی نہ ہوتی۔ ایک ساتھ جانا اور ایک ساتھ گھر آنا والدین کے لئے بے انتہاءخوشی کا باعث ہے۔ 
فرحت شارق صاحبہ نے اپنی والدہ کے بارے میں بتایا کہ امی جان کسی بھی مہمان کے آنے کا سنتیں تو فوراًباورچی خانے کا رخ کرتی تھیں ۔ ایک طرف پلاﺅ کے لئے یخنی کی تیاری کی تو دوسری طرف تیار شدہ کباب اور کوفتے فریزر سے نکال کر تل لئے۔ اسی طرح قورمہ ایک چولھے پر تیار کیاتو دوسرے پر کھڑے مسالحے کا گوشت تیار کر لیا۔ میٹھے بھی تیار کرلیتیں لیکن یہ بھی بات تھی کہ ایک مہمان کے لئے درجن بھر مختلف اقسام کی چیزیںوہ میز پر نہیںسجاتی تھیں بلکہ ایک کے بعد دوسرے مہمان کے لئے بھی دوسری چیزیں موجود ہوتی تھیں اور آج میری بھی بالکل یہی عادت ہے کہ جب کسی مہمان کی آمد کاسنتی ہوں تو سب سے پہلے کچن کی خبر لیتی ہوں کہ کیا کیا چیزیں فوری تیار کی جاسکتی ہیں اور کئی قسم کے کباب تیار کر کے فریز کر دیتی ہوں۔ اگر کسی مہمان کے پاس زیادہ وقت نہیں تو اسنیکس ، چائے کے ساتھ رکھتی ہوں۔
ایک استاذہ کی بات بھی یاد آئی کہ انہوں نے اپنے بچپن کی بات بتائی تھی کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو اپنے گھر میں لکڑی کے چولھے پر کھانا پکتے دیکھتی تھیں اور اپنی والدہ کو نوکر کویہ حکم دیتے سنتیں کہ گھر بھر کے کھانے کے بعدگھی کی ایک درجن نمکین روٹیاں تیار کر کے رکھ دیا کرو۔ نجانے کوئی محلے پڑوس سے کب آجائے یا کوئی ضرورت مند مانگ لے یا کسی مسافر کا گزر ہو جائے تو روٹی کیسے لکڑی کے چولھے 
 پر تیار ہوسکے گی، اس لئے بنا کر رکھ دیا کرو۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ روٹیاں رات میں ہی کسی نہ کسی ضرورت مند کے گھر چلی جاتیں۔ صبح تک ایک روٹی بھی باقی نہیں رہتی تھی۔ ہم نے بڑے ہو کر یہ جانا کہ یہ والدہ کی نیک نیتی تھی اور قدرت کی مہربانی کہ جتنا وہ سہولت سے انتطام کر سکتی تھیں مہمان نوازی کا ،اتنے نفوس انکے گھر کی بنی روٹی لینے کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتے تھے۔ 
شارق شاہ کا کہنا ہے کہ میری اہلیہ فرحت بہت مہمان نواز ہیں۔ مہمانوں کی آمد پر فورا ًتواضع کی چیزیں گھر پر ہی تیار کر لیتی ہیں۔ مہمانوں کی خاطر مدارات کر کے خوش ہوتی ہیں۔ کسی مہمان کی آمد پر انکے چہرے پر کبھی شکن نہیں پڑتی۔ خوشدلی سے کام کے درمیان گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے جو زیادہ تر ٹی وی ڈراموں پر جاری رہتا ہے۔
محترمہ فرحت نے بتایاکہ ان کے شوہر بہت سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ گھر پر وقت گزارنا انہیںاچھا لگتا ہے ۔لوگوں کی مدد کا جذبہ ان میں بے حد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دونوں صاحب زادوںکی شادیاں بہت خلوص سے کیں۔ دونوں بہوئیں ہماری بہوئیں نہیں بلکہ ہماری بیٹیاں ہیں۔ ہمارے ہاں بیٹی کی کمی تھی، ان بہوﺅں نے اس کمی کو دور کر دیا۔
ٹی وی کی بات چلی تو انہوںنے بتایا کہ وہ ڈرامے بہت شوق سے دیکھتی ہیں اور جہاں جہاں ڈرامے میں کہانی انجام کو پہنچتی ہے، اس پر خوب تبصرہ کیاجاتا ہے کہ فلاں نے غلط کام کیا تو اس کا انجام بھی غلط ہوا اور جس نے اچھا کام کیا ،اس کا انجام بھی مصنف نے اچھا دکھایا۔
فرحت صاحبہ نے بتایا کہ انہیں ہل اسٹیشن بہت پسند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستا ن اور سعودی عرب کے تمام پہاڑی علاقوں کی سیر کئی بار کر چکی ہیں۔ ہرے بھرے باغات آنکھوں کو بھاتے ہیں۔ ہریالی ویسے بھی آنکھوں کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔
 
 

شیئر: