Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

درست تلاوت، قرآن مجید کا حق

تلاوت کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر خوش الحانی سے تلاوت کی جائے، الفاظ کو ٹھیک طریقے سے ادا کیاجائے تاکہ سننے والا سمجھ سکے
 
* * * حافظ ساجد انور۔ لاہور* * *
    قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری الہامی کتاب ہے۔ ہر مسلمان کا قرآن کریم پر غیر متزلزل ایمان ہے۔ قرآن کریم کے ساتھ عقیدت اور وابستگی ہر مسلمان کا ایک دینی فریضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کیساتھ عقیدت کے مختلف مظاہر معاشرے میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔کہیں ختم قرآن کے ذریعے اس سے فیض حاصل کیا جاتا ہے تو کہیں قرآن کریم کو گھر اور کاروبار کی جگہ خیروبرکت کیلئے رکھا جاتا ہے   ۔ مختلف معاشرتی مسائل میں اس سے کسبِ فیض کے مختلف طریقے رائج ہیں ،مثلاً قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی جاتی ہے ۔
     الغرض اپنے اپنے ظرف اور حالات کے مطابق لوگ قرآن کریم کے ساتھ عقیدت ، محبت اور وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔قرآن کریم کیساتھ عقیدت ،      محبت  اور وابستگی  کا اظہار کرتے ہیں۔قرآن کریم کے ساتھ  عقیدت، ، محبت اور وا بستگی  کے یہ جذبات اپنی جگہ لیکن قرآن کریم کا نزول صرف ان امور کیلئے نہیں ہوابلکہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم کتاب کے اہم حقوق ہیں جو ہر مسلمان پر عائد ہوتے ہیں۔ ان حقوق میں قرآن کریم پر ایمان لانا، اس کی درست تلاوت کرنا ، قرآن میں غور و فکر کرنا، اللہ تعالیٰ کی اس عظیم کتاب کے احکام پر عمل پیرا ہونا ، قرآن کریم کی تبلیغ اور تنفیذ کیلئے کوشش کرنا شامل ہے۔
    یہاں قرآن کے صرف ایک حق، یعنی تلاوت قرآن کے حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں:
    اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں: 
     ’’اور قرآن کو خوب  ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔‘‘(المزمل 4)۔
     قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے سے دل میں سرور اور تازگی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دلوں کااطمینان اور سکون قرآن کی تلاوت میں رکھاہے۔ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا :
    ’’بنی آدم کے دلوں پر اس طرح زنگ لگ جاتاہے جس طرح پانی لگنے سے لوہے پر زنگ آجاتاہے۔ ‘‘
    صحابہ کرامؓنے پوچھا کہ دلوں کے اس زنگ کو دْور کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟آپنے ارشاد فرمایا:
    ’’موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا۔‘‘
    قرآن کریم کی تلاوت کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ  ٹھہر ٹھہر کر خوش الحانی سے  تلاوت کی جائے۔ الفاظ کو ٹھیک طریقے سے ادا کیاجائے تاکہ سننے والا بھی سمجھ سکے۔ نبی اکرم کی تلاوت کے بارے میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ آپکی تلاوت کاایک ایک حرف واضح ہوتاتھا۔
    سید مودودیؒ تلاوت کے آداب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’ قرآن کریم کوتیزتیز رواں دواں نہ پڑھو بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھہرو تاکہ ذہن پوری طرح کلام الٰہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کاذکر ہے تو اس کی عظمت وہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہوجائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کاحکم ہے یا کسی چیز سے منع کیاگیاہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیاہے اور کس چیز سے منع کیا گیاہے۔ غرض یہ کہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کیلئے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ ‘‘ (تفہیم القرآن)۔
    قرآن کریم کی تلاوت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایک حرف کے بدلے میں10,10 نیکیوں کا وعدہ کیاگیاہے۔   حضرت عبداللہ  بن مسعودؓ   سے مروی رسول اللہ  کا ارشاد ہے :
    ’’جو شخص کتاب اللہ کے ایک حرف کی تلاوت کرے اسے ہرحرف کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی،ہر نیکی10 نیکیو ں کے برابر ہوگی، میں ا لام کو ایک حرف نہیں کہتا بلکہ الف الگ حرف ہے لام الگ اور میم الگ حرف ہے۔ ‘‘ (ترمذی)۔
    احادیث مطہرہ میں نبی اکرم کی تلاوت کامعمول بیان کیاگیاہے۔ اس کے علاوہ نبی اکرم صحابہ کرامؓسے بھی قرآن کی تلاوت سنتے تھے۔ آپ نے درست تلفظ اور خوش الحانی کے ساتھ ٹھہرٹھہرکر تلاوت کرنے کا حکم دیا  لہٰذا ہرمسلمان کو اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کو معمول بنانا چاہیے۔ قرآن کریم کی تلاوت باعث اجر و ثواب بھی ہے اور روح کی غذا بھی۔ ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ قرآن کی تلاوت ترتیل و تجوید کے ساتھ کی جائے۔ اگر اس میں کوئی کمی اور کوتاہی ہو تو سیکھنے کی کوشش کی جائے۔ عمر کے کسی بھی حصے میں طلبِ علم کوئی معیوب بات نہیں  ۔
    حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم کی تلاوت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب میں ارشاد فرمایا:
     ’’رسول اللہ کی تلاوت شد و مد کے ساتھ ہوتی تھی(پھر انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھ کر سنایا اور اللہ اور الرحمن اور الرحیم سب کو مد کے ساتھ پڑھا)۔‘‘(بخاری)۔
    نبی اکرم سے جہاں صحیح تلفظ اور درست ادائیگی کے ساتھ تلاوت کرنا منقول ہے وہیں کئی مواقع پر آپ نے اس حوالے سے تصحیح کی تلقین بھی فرمائی  چنانچہ حضرت ابو الدردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے ایک شخص کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا۔ اس نے تلاوت میں کسی جگہ غلطی کی تو آپ نے ارشاد فرمایا:’’ اپنے بھائی کی رہنمائی کرو۔ ‘‘(مستدرک حاکم)۔
    قرآن کریم کی درست تلاوت کیلئے تجویدکے ضروری قواعد سے آگہی از حد ضروری ہے تاکہ کہیں حروف کی تبدیلی کی وجہ سے معانی و مفاہیم کی تبدیلی واقع نہ ہوجائے۔ اسی طرح معنی و مفہوم کی تبدیلی کبھی بے جا وقف کرنے یا بلاضرورت ملا کر پڑھنے کے نتیجے میں بھی واقع ہوتی ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ سورۃالمزمل ،آیت4کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
    ’’ لغت کی رْو سے ترتیل کے معنی ہیں واضح اور صاف پڑھنا اور شریعت میں ان چیزوں کی رعایت رکھنے کا نام ترتیل ہے۔‘‘
    ۰ ہر حرف کو اس کے مخرج سے ادا کیاجائے تاکہ حرف کی آواز دوسرے سے بالکل جدا ر ہے۔ اور ’’طا ‘‘کی جگہ’ ’تا‘‘  اور’ ’ضا‘‘  کی جگہ ’’ظا‘‘ ادا نہ ہو۔
    ۰ وقوف (تلاوتِ قرآن کے دوران رْک جانے اور ٹھہرنے)کی رعایت تاکہ وصل وقطع (حروف ایک دوسرے سے ملانے اور نہ ملانے کا عمل)بے موقع ہو کر کلام کے مطلب میں تبدیلی کا باعث نہ ہو۔
    ۰ آواز کو ذرا بلند کرنا تاکہ قرآن کے الفاظ زبان سے کان تک اوروہاں سے دل تک پہنچ کر دل میں شوق اور خوف کی کیفیت پیدا کریں  اس  لئے کہ تلاوت سے غرض یہی ہے۔
    ۰ اپنی آواز کو عمدہ بنانا تاکہ اس میں درد مندی پائی جائے اور دل پر جلدی اثر کرے۔
    ۰ تشدید و مد کا ان کے موقعوں پر پورا لحاظ رکھنا کیونکہ ان دونوں سے کلامِ الٰہی کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔
    ۰دوزخ کے اور عذاب کے خوف کی اور جنت اور اس کی نعمتوں کے شوق کی آیتیں پڑھے یا سنے تو وہاں ذرا ٹھہرے اور دوزخ سے پناہ مانگے اور جنت کا سوال کرے  اورجن آیتوں میں دعا کا یا ذکر کا حکم ہو تو کم ازکم ایک مرتبہ اس ذکر اور دعا کو زبان سے پڑھ لے، جیسے:     {رَبِّ زِد نی  عِلمًا}۔
    ’’ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما‘‘،آمین۔
     گویا قرآن صحیح پڑھنے کیلئے مقررہ اصولوں کے مطابق قرآن کی قرأت غو راور توجہ سے سنے اور اسی طرح قرآن کی تلاوت کرنے کی کوشش کرے۔
    الغرض قرآن کریم کی درست تلاوت نہ صرف باعث اجر و ثواب ہے بلکہ ہر مسلمان پر یہ فرض بھی عائد ہوتاہے کہ وہ قرآن کی درست تلاوت کے اصول سیکھے اور ان اصولوں کے مطابق قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنائے۔
مزید پڑھیں:- - - - -حضرت عمرؓ کے دور میں قانون سازی

شیئر: