Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک ہفتہ آذربائیجان میں

***خلیل احمد نینی تال والا***
پاکستان میں گزشتہ کئی ماہ سے چھٹیوں کی یلغار ہے۔ پہلے عید کی چھٹیاں ہوئیں پھر الیکشن میں یار لوگ لگ گئے ۔الیکشن سے نجات ملی تو محرم کی چھٹیاں ہوگئیں ۔گزشتہ ایک سال سے سیرو تفریخ کیلئے آذربائیجان کے شہر باکو کانام سامنے آرہا تھا۔ بہت خوبصورت شہر، خوبصورت لوگ،سستا اور رنگ برنگا ملک ،بہترین تفریح گاہیں ،آبشار اور باغات کی بھرمار کا ذکر دوستوں سے سُنا تھا جو باکو کئی بار گھوم آئے تھے ۔سوچا کہ فیملی کے ساتھ گھوم لیا جائے اور ایک نئے ملک کی سیر بھی ہوجائیگی اور پاکستانی عوام کو بھی اس ملک کا تعارف کروادیا جائیگا۔ 
کراچی سے تو براہ راست کوئی فلائٹ نہیں جاتی البتہ اس کیلئے دبئی سے ٹرانزٹ فلائٹ لی ۔تقریباً 4گھنٹے کی پرواز سے آذربائیجان کے دارلخلافہ باکو کے حیدرعلی ایئر پورٹ پہنچے ۔بہت خوبصورت ڈیزائن سے بھر پور ہمارے کراچی ایئر پورٹ کے برابر تھا۔ آذربائیجان کیلئے پاکستانی بآسانی ویزہ لے سکتے ہیں ۔وہ آن لائن 40ڈالر فی کس فیس ادا کرکے لیا جاسکتا ہے ۔ ٹریول ایجنٹس حضرات کی معرفت حاصل کرکے جانا ضروری ہے البتہ جن پاکستانی پاسپورٹ پر دبئی ،یواے ای ،سعودی عرب کا اقامہ لگا ہوان کو باکو پہنچنے پر آن آرائیول ویزہ مل جاتا ہے مگر اُس میں ایک گھنٹہ سے زیادہ  وقت کارروائی میں لگ جاتا ہے ۔بہتر یہی ہے کہ ایڈونس آن لائن ویزہ الیکٹرونک لے کر جانا ہی بہتر ہے ۔
ایئر پورٹ کے امیگریشن کائونٹر پر خواتین کی تعداد زیادہ تھی ۔ہمارے پاس آن لائن ویزے تھے، اُس کیلئے الگ کائونٹر تھا۔ چند منٹوں میں فارغ ہوکر گرین چینل سے ایئر پورٹ سے باہر آئے۔میرے صاحبزادے خرم خلیل اور جنید خلیل نے2الگ الگ رینٹ اے کار بُک کروائی تھیں۔ وہ باہر نکلتے ہی مل گئیں۔ہمارا ہوٹل اندرون شہر سے چند میل کے فاصلے پر تھا۔ خوبصورت اپارٹمنٹ ہوٹل جس میں 4کمرے تھے۔ ٹی وی لائونج،کچن،فریج، کٹلری کھانے پکانے کی بہترین سب دھلے دھلائی رکھے تھے ۔بہت خوبصورت ہوٹل کے واک وے درختوں ،باغات سے بھرے تھے ۔پورے اپارٹمنٹ کا کرایہ 225ڈالر یومیہ تھا ۔وہ بھی آن لائن بکنگ کروائی تھی ۔ایئر پورٹ سے تقریباً 40منٹ میں ہوٹل پہنچ گئے ۔راستے میں ہم ڈائون ٹائون (اندرون شہر ) سے گزرے ۔خوبصورت ہوٹلوں کی بھرمار ،شاپنگ مال ،سپر مارکیٹس اور لاتعدادریستوران تھے جن میں عربی ،ترکی ،لبنانی کھانوں کی بھرمار تھی ۔باربی کیو اور تندوری روٹیاں ،پنیر ،زیتون لازمی ڈشزتھیں ۔98فیصد پڑھے لکھے آذربائیجان کے عوام مسلمان ہیں ۔زیادہ آبادی کا تعلق اہل تشیع سے ہے ۔محرم کے دن تھے مگر سڑکوں پر کوئی ماتم نہیں دیکھا ۔صرف انکی مساجد میں اندر ہی ماتم ہوتا ہے۔بہت مہذب اور مہمانوں سے خوش دلی سے پیش آتے ہیں مگرانگریزی میں بہت کمزور ہیں ۔آذربائیجان کے عوام آذری اور ترکی ملی جلی زبان بولتے ہیں۔  پاکستانیوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں ۔کل ایک کروڑ کی آبادی ہے جس کے 59صوبے ہیں ۔رشیا ( USSR)سے آزاد ہوئے ہیں مگر روس کو پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے بہت ظلم کیا تھا ۔جنگیں بھی لڑیں، قدرتی گیس اور پٹرول سے یہ ملک مالامال ہیں ۔خود شہر کی سڑکوں کے ساتھ پٹرول نکالنے کی مشینیں لگی ہوئے ہیں ۔جیسے ہمارے گائوں میں کنویں سے پانی نکالنے کے پمپ ہوتے ہیں ایسے ہی پمپ جگہ جگہ آپ کو لگے ہوئے ملتے ہیں۔جو سب کے سب سرکاری ملکیت ہیں ۔عوام کی اکثریت شام کو سیر وتفریخ کیلئے باہر نکلتی ہے۔ ہر علاقے میں باغات ہیں ۔بچوں کیلئے جھولے اور دوسری چیزیں مفت موجود ہیں ۔خوبصورت نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آزادانہ گھومتی پھرتی ہیں؎۔پردے کا کوئی رواج نہیں ۔ بہت کم مساجد دیکھنے کو ملیں البتہ ایک بہت بڑی تاریخی مسجدبی بی حبات دیکھنے کو ملی مگر اکثر سرراہ گزرتے ہوئے دیکھا ،بہت کم ہی لوگ آتے جاتے نظر آئے البتہ صرف 10محرم کو  اُس مسجد کے باہر لاتعداد گاڑیوں کی قطاریں نظر آئیں ۔ ساحل سمندر تفریحی جگہیں ،کشتی رانی ،فشنگ لانچیں ٹورسٹ کیلئے اٹریکشن ہیں ۔لاتعداد پاکستانی فیملیاں بھی ملیں۔ ہمارے جہاز میں 90فیصد پاکستانی فیملیاں تھیں جو تفریح کیلئے باکو شہر آرہی تھیں ۔یہاں کے سکہ کا نام منات(Manat)ہے۔ 100ڈالر میں 175منات ملتے ہیں۔ لوگ بتاتے ہیں کہ 2سال پہلے تک تمام اشیاء بہت سستی تھیں مگر اب سیاحوں کی آمدورفت کی وجہ سے مہنگائی بہت بڑھ چکی ہے۔ جو ہوٹل 75ڈالر کا ملتا تھا اب 150سے 200ڈالر فی کمرہ ہوگیا ہے۔باکو شہر کے چاروں طرف سمندر اور پہاڑیاں کثرت سے ہیں ۔رات کو پورا شہر جگمگاتا نظر آتا ہے ۔ہوٹلوں سے بھی نظارہ کیاجاسکتا ہے ۔اندرون شہر میں تو پوری گلیاں کھانے پینے اور شاپنگ کی دکانوں سے بھری پڑی ہیں ۔جگہ جگہ پیدل چلنے والوں کیلئے وقف ہیں  ۔ گاڑیوں کو باہر پارکنگ لاٹ میں کھڑی کرکے ہی آپ ان بازاروں میں جاسکتے ہیں۔ 
ایک پہاڑی پر گئے، وہاں خوبصورت پارک کے ساتھ ایک قطار میں آگ لگی ہوئی  تھی جس کی وجہ اندر اُس کے پٹرول اور گیس کا ذخیرہ بتا یا جاتا ہے ۔اُس پر جانے کے لئے ایک ڈالر کا ٹکٹ تھا ۔حضرت آدم  ؑکے زمانے سے ہی یہاں قدرتی طور پر آگ لگی رہتی ہے حتیٰ کہ بارش اور برف باری میں بھی اسی طرح لگی رہتی ہے ۔سرد موسم تھا تو آگ کی گرمائش بھلی لگی ۔ بہت  سی  فیملیاں اس آگ کا مزے لے رہی تھیں اور چند تو اردگرد چٹائیاں بچھاکر کھانے اور گپیں لگانے میں مصروف تھیں ۔باکو سے تقریباً 300کلومیٹر ہائی وے سے ہم ایک تاریخی شہر گنالاتقریباً 5گھنٹوں کی مسافت طے کرکے پہنچے ۔یہاں ایک تاریخی آبشار ہے جس کو دیکھنے دُور دور سے لوگ آتے ہیں ۔ آبشار کا پانی اُس پہاڑی سے نیچے تیزی سے آرہا تھا۔رات بھی ہوچکی تھیj بجلی کا بھی خاص انتظام نہیں تھا ۔صرف ایک آدھ بلب روشن تھا ۔آدھے راستے سے واپس آنے میں غنیمت جانی اور واپسی کا راستہ لیا تو رات کی وجہ سے صرف3 گھنٹوں میں واپس باکو پہنچ گئے ۔ اس ڈھائی سو، 300کلومیٹر ہائی وے پر چند ایک چھوٹے چھوٹے ہی شہر نظر آئے ۔ٹریفک بھی بہت معمولی تھی۔ گاڑیوں کی 90کلومیٹر فی گھنٹہ حد تھی اور ہر5 کلومیٹر کے بعد ٹریفک چیک کرنے کیلئے ریڈار لگے ہوئے تھے جو سولرپینل سے کام کررہے تھے۔ کئی جگہ پولیس کی گاڑیاں بھی چیکنگ کرتے ملیں۔ کم رفتاری کی وجہ سے ہائی وے پر حادثات نہیں دیکھے اور نہ کسی کو تیز چلاتے دیکھا ۔ایک ہفتہ آذربائیجان گھومنے پھرنے کے بعد ہم خوشگوار یادیں لے کر واپس پاکستان آئے تو دوبارہ بھی جانے کی تمنا ہے۔ یہاں کے لوگ حکمران حیدر علی (مرحوم) کی  قیادت سے اتنے خوش ؒتھے کہ ان کے انتقال کے بعد ا ب اُن کے صاحبزادے آذربائیجان کی قیادت کررہے ہیں ۔کوئی کرپشن نہیں ،کوئی مذہبی فسادات نہیں ۔یہ ملک کسی کامقروض نہیں۔ اس کی برآمدات درآمدات سے دُگنی تگنی ہیں ۔غربت نہیں ہے۔ فی کس آمدنی 9ہزار ڈالر ہے ۔شہر میں ایک تنکا بھی سڑک پر نظر نہیں آئے گا ۔کب یہ شہر کو صاف کرتے ہیں یہ بھی نظر نہیں آیا ۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں