Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زندگی خوشگوار بنانے کیلئے درگزر کرنا سیکھ لیجئے، افشین خالد

 لڑکیوں کو سسرال کی باتیں میکے میں نہیں کرنی چاہئیں، میکے کی آسائش کا ذکر بھی سسرال میں نہیں کرنا چاہئے ، ہوا کے دوش پر گفتگو
عنبرین فیض احمد۔ ینبع
عورت ہی کی ذات ہے جو گھر کو اپنے وجود سے پررونق بنادیتی ہے۔ وفاداری، محنت، لگن، نیک نیتی سے ہی گھر پرسکون بنتا ہے۔ عورت کا ہر روپ کائنات کے وقار، خوبصورتی کاضامن ہوتاہے۔ عورت نہ ہوتی تو دنیا پھیکی ہوتی، بے رونق کاغذی پھول جیسی۔ عورت اپنے بچوں اور شوہر پر سب کچھ قربان کردیتی ہے، مگر گھر پر آنچ نہیں آنے دیتی۔ سخت ترین حالات کا مقابلہ کرکے گھریلو معاملات بحسن و خوبی نبھاتی ہے۔ وقت پڑنے پر شوہر کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجاتی ہے۔ گھر کے لئے خاندان میں خود سے منسلک ہر رشتے کو خوبصورتی سے نبھاتی چلی جاتی ہے۔ سچ ہی کہاگیا ہے کہ :
”وجودِ زن سے تصویر کائنات میں رنگ“
عورت نہ ہوتی تو دنیا میں سب کچھ ہوتا مگر رنگینی، رونق، چہل پہل اور حسن بہرحال دکھائی نہیں دیتا۔رواں ہفتے ہوا کے دوش پر اردو نیوز کی مہمان ایک ایسی ہستی ہیں جو ہمہ صفت و ہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں۔ وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ نہ صرف اپنے پیشے کی ذمہ داریاں نہایت خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہیں بلکہ گھریلو ذمہ داریوں کو بھی احسن انداز میں ادا کرتی ہیں۔ آج کل ریاض کے معروف اسکول کی ہیڈ مسٹریس کے طور پر فرائض انجام دے رہی ہیں۔
آپ کی ملاقات ہم افشین خالد سے کراتے ہیں۔ افشین کی شخصیت سحرانگیز ہے ،ان کی باتوں میں مٹھاس ہے اور مٹھاس بھی ایسی کہ سماعتوں کو اپنائیت کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ محترمہ افشین کا تعلق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے ہے۔ افشین کہتی ہیں کہ میں نے ابتدائی تعلیم منڈی بہاءالدین سے حاصل کی۔ لاہور یونیورسٹی سے بی اے اور قائداعظم اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا۔ تعلیمی کریئر شاندار رہا۔ انٹرمیڈیٹ میں نمایاں کامیابی پر حکومت کی جانب سے گولڈ میڈل ملا تھا۔ 
افشین نے کہا کہ ہم 5 بہنیں ہیں۔ سب کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ دوبہنیں لندن میں ہیںاور ایک امریکہ میں مقیم ہیں۔ بھائی ایک ہی ہے جو ہم سب بہنوں اور والدین کا لاڈلا ہے۔ اس نے ابھی ایم بی اے مکمل کیا ہے۔ میرا بہنوں میں تیسرا نمبر ہے۔والدین نے ہمیشہ تعلیم کو بڑی اہمیت دی ۔اس لئے یہی وجہ ہے کہ سب بہنوں اور بھائی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ گو کہ والد کاروباری شخصیت ہیں ، ان کا ذاتی کاروبار ہے۔ گھر میں پیسے کی فراوانی ہے ، کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی ۔ اللہ کریم کا احسان ہے کہ گھر میں کافی برکت ہے۔
اسے بھی پڑھئے:ازدواجی زندگی میں امید و یاس ساتھ چلتے ہیں، ڈاکٹر بلقیس
یوں تو بیٹیاں والد سے کافی قریب ہوتی ہیں لیکن میں بابا کے کچھ زیادہ ہی قریب ہوں، ان کی بہت لاڈلی ہوں۔ بچپن بڑا بھرپور انداز میں گزارا۔ اب بھی کبھی کبھی سوچتی ہوں تو شادی سے پہلے کی زندگی خواب سی معلوم ہوتی ہے۔ وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے، احساس ہی نہیں ہوپاتا۔ اسکول ،کالج کے زمانے میں اپنی شرارتوں کی وجہ سے کافی مشہور تھی۔ بہنوں اور بھائی سے بنتی نہیں تھی۔ ہر وقت سب کو تنگ کرتی تھی یعنی لڑنا جھگڑنا، شور شرابہ، مذاق کرنا سب کچھ طبیعت میں شامل تھا۔ امی کو یہ فکر ہر دم کھائے جاتی تھی کہ سسرال میں جاکر کس طرح سمجھوتہ کرپاﺅںگی،وہ کہتی تھیں کہ یہ لڑکی تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی مگر شادی کے بعد زندگی میں بہت تبدیلیاں آئیں۔ سچ بات یہی ہے کہ شادی کے بعد انسان کی زندگی میں، اس کے رویوں میں، عادت و اطوار میں زمین و آسمان کا فرق آجاتا ہے۔ شادی سے پہلے کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی ، اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں لیکن اب سوچتی ہوں یقینا شادی سے پہلے کی زندگی ہر لڑکی کیلئے خواب بن جاتی ہے۔ 
آج ہماری شادی کو ماشاءاللہ 16 برس بیت چکے تھے۔ کسی کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ والدین سے شکایت بھی کبھی نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو کبھی سسرال کی باتیں میکے میں نہیں کرنی چاہئیں۔ اسی طرح میکے کے آرام و آسائش کا ذکر بھی سسرال میں نہیں کرنا چاہئے۔ اس طرح کی حرکتوں سے دونوں گھرانوں کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات میں بھی کشیدگی آجاتی ہے۔ لڑکیوں کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ 
شادی کے بعد زندگی یکسر تبدیل ہوجاتی ہے۔ پہلے میں بے حد بولتی تھی، شرارتیں کرتی تھی مگر شادی کے بعد اتنی ہی سنجیدہ اور خاموش طبع ہوگئی ہوں۔ یہی شادی کی کامیابی کا راز سمجھ لیں۔ سسرال میں جگہ بنانے کیلئے کافی صبر کرنا پڑتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرنا سیکھنا چاہئے۔ طبیعت میں تحمل اور برداشت ہو تو گھر تباہی سے بچ جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر رشتوں کا احترام کرنا چاہئے۔ کسی کی برائی کرنی چاہئے ، نہ ہی سننی چاہئے۔
سسرال میں ہر قسم کی باتیں ہوسکتی ہیں، زندگی خوشگوار بنانا چاہتی ہیں تو درگزرکرنا سیکھ لیجئے ،زندگی آسان ہوجائے گی۔ ویسے کوئی بھی مشکل دائمی نہیں ہوتی۔ وقت گزر ہی جاتا ہے۔ خود کو ضائع کرنے کی بجائے مثبت چیزوں کی طرف توجہ دی جائے۔ زندگی بہت ہی مختصر ہے، کامیابیاں یک لخت حاصل نہیں ہوجاتیں۔ محنت سے ہی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔مسلسل محنت کا نام زندگی ہے۔ محنت کرنی چاہئے۔ جو کام پسند ہواس کو اہمیت دی جائے۔
محترمہ افشین خالد نے کہا کہ میں تقریباً 12 سال سے تعلیمی شعبوں سے وابستہ ہوں۔ ڈھائی سال عرب اوپن یونیوسٹی میں بی بی اے کی لیکچرر رہی ۔ 7 سال ایک معروف انٹرنیشنل اسکول میں اکیڈیمک سپروائزر کے طور پر کام کیا اور پھر 4 سال ایک اور اسکول میں اکیڈیمک کنسلٹنٹ رہی۔ افشین نے کہا کہ ازدواجی زندگی کی اہم کنجی یہ ہے کہ کسی بات کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔ ہمیشہ کچھ گنجائش ضرور رکھنی چاہئے۔ منفی سوچ کو ذہن میں قطعی جگہ نہ دی جائے۔ جب رشتوں میں پیار اور احترام ہو تو رشتے نبھ جاتے ہیں ۔ زندگی کا سفر آسان اور سہل ہوجاتا ہے۔ اتار چڑھا¶ میں ہمیشہ شریک سفر کا ساتھ دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میری شادی رشتہ داروں میں ہوئی۔ ارینجڈ میرج تھی۔ ماسٹرز بھی نہیں کیا تھا کہ شادی ہوگئی۔ ڈیڑھ سال ہاسٹل میں رہ کر تعلیم مکمل کی۔ اس دوران شوہر سعودی عرب میں مقیم تھے۔ ساس سسر 26 سال سے مملکت میں ہی مقیم ہیں۔
میں2003ءمیں سعودی عرب آگئی۔ میرے شوہر خالد جمال نے تعلیم لاہور سے مکمل کی ۔ اب وہ اپنا کاروبار کررہے ہیں۔ اللہ کریم نے 2 بیٹیاں اور 2 بیٹوں سے نوازا ہے۔ بیٹیاں ہدیٰ خالد اور چھوٹی بیٹی طہور خالد دونوں میٹرک میں ہیں اور دونوں بیٹے چھوٹی کلاسوں میں ہیں۔ میری شادی کے سال بعد ہی ھدیٰ اور اس کے ایک سال بعد طہور نے دنیا میں قدم رکھا۔ اسی دوران میں نے ملازمت شروع کردی جو اب بھی جاری ہے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ ملازمت کرنا آسان نہیں ہوتا مگر جب کسی چیز کا ارادہ کرلیا جائے تو وہ کام آسان ہوجاتا ہے۔ بچے بھی ما شاءاللہ کافی ذہین ہیں، بچیوں کو ڈاکٹر بننے کا شوق ہے ۔ بڑے بیٹے حیان خالد سائنسداں اور چھوٹے کو بیٹے محمد احمد خالد پائلٹ بننا چاہتے ہیں۔ ذہین ہونے کے ساتھ بچے تخلیقی صلاحیتوں کے بھی مالک ہیں۔ بچوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دیتی ہوں، ان کی تربیت پر کڑی نگاہ رکھتی ہوں۔ 
تعلیم کا مقصد صرف کتابی کیڑا بننا نہیں ہوتابلکہ تعلیم سے عملی طور پر بھی فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ دور حاضر کے بچوں اور گئے وقتوں کے بچوں میں زمین آسان کا فرق ہے۔ پہلے دور میں بنیادی فرق تو یہ ہوتا تھا کہ استاد کی عزت کرنا سکھائی جاتی تھی مگر افسوس آج بچوں کے نخرے کچھ زیادہ ہی ہیں۔ تعلیمی معیار پر توجہ نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ بچے استاد کی عزت کرتے ہیں نہ تعلیم کی وہ اہمیت باقی رہی جو پہلے کے دور میں ہمیں سکھائی جاتی تھی۔
افشین خالد نے کہا کہ میں نے زندگی میں جو بھی ملازمت کی ،بہت محنت اور لگن سے کی۔اگر آپ میں کوئی تخلیقی صلاحیت موجود ہے تو اسے بروئے کار لاتے ہوئے اپنی صلاحیتوں پر یقین کامل رکھیں، نیک نیتی سے کام کریں تو ان شاءاللہ، ترقی میں حائل رکاوٹیں دور ہوتی چلی جائیں گی، منزل کاحصول آسان ہوجائے گا۔ 
ایک سوال پرمحترمہ افشین نے کہاکہ میری ساس بہت ہی نفیس خاتون ہیں۔ گھر میں بڑی بہو ہونے کے ناتے میرا سسرال میں بہت مان رکھا جاتا ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ سسرال کی طرف سے بھی مجھے محبتوں کی بوچھار ملتی ہے۔ بچوں پر ساس سسر دونوں ہی جان نچھاور کرتے ہیں۔ دو دیور ہیں، ایک پاکستان اور ایک لندن میں رہتے ہیں۔ دو نندیں ہیں، شادی شدہ ہیں اور پاکستان میں ہی مقیم ہیں۔ ساس سسر میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔میں نے انہیں کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ ا فشین نے کہا کہ شادی کے ابتدائی سالوں میں کی گئی محنت اور صبر کا پھل یقینا میٹھاہوتا ہے، یہ مٹھاس ساری زندگی برقرار رہتی ہے۔ میری والدہ قابل تعریف گرہستن ہیں۔ سب بہنوں کو کوئی خاص گھرداری پر زور نہیں دیا ، خود کام کرتے وقت وہ ہمیں کچن میں اپنے ساتھ رکھتیں یوں ہم نے ہر کام کرنا سیکھ ہی لیا۔ 
گفتگو جاری تھی کہ خالد جمال بھی آگئے۔ انہوں نے باتوں میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ زندگی کو خوش اسلوبی سے گزارنا بھی فن ہے جو ہر کسی کو نہیں آتا ۔ میری بیگم اس فن سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ نہ صرف سمجھدار اور سلجھی ہوئی خاتون ہیں بلکہ ہررشتے کو اہمیت دیتی ہیں اور ساتھ لے کر چلتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کریم نے میری شریک سفر میں ہر وہ خوبی عطافرمائی ہے جو سمجھدار بیوی میں ہونی چاہئے۔ افشین نہ صرف ایک اچھی بیوی اور بہت اچھی بہو ہیں بلکہ اپنے بچوں کیلئے مثالی ماں ہیں ۔ میںخود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ اللہ کریم نے مجھے ایسی شریک سفر سے نوازا جس نے میرے گھرکو لاکھوں میں ایک بنا دیا۔ افیشن کے گھر کی سجاوٹ اور دیگر لوازمات ان کے شوہر کی زبان سے ادا ہونے والے ایک ایک لفظ کی تائید کررہی تھیں۔
آخر میں افیشن سے ادب کے بارے میں سوال کیاگیا تو انہوں نے کہا کہ اب تو وقت ہی نہیں ملتا مگر پھر بھی میں کالج اور اسکول کے زمانے میں کافی شعرو شاعری کا شوق رکھتی تھی۔ اب بھی شوق تو ہے مگر وقت اجازت نہیں دیتا لیکن جب وقت ملتا ہے تو اکثر مختلف شعراءکے کلام کا مطالعہ کرتی ہوں۔ یوں توبہت سارے شاعروں کے کلام پسند ہیں مثلاً پروین شاکر، احمد فراز، فیض احمد فیض، علامہ اقبال وغیرہ لیکن یہاں افتخار عارف کی ایک غزل قارئین اردو نیوز کی نذر کرنا چاہونگی:
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
ڈوب جاﺅں تو کوئی موج نشاں تک نہ بتائے
ایسی ندی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
کبھی مل جائے تو رستے کی تھکن جاگ پڑے
ایسی منزل سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
وہی پیماں جو کبھی جی کو خوش آیا تھا بہت 
اسی پیماں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے 
 
 

شیئر: