Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچھڑنا بھی ضروری تھا، آصف نے جلد ہی فون بند کردیا

چچی کا غصہ اور حقارت  بھی سراسمیگی میں بدل چکی تھی، وہ باری باری سب کو دیکھ رہی تھیں ، سائرہ مہمان نوازی والے طنز پر کٹ کر رہ گئی 
مسز زاہدہ قمر۔ جدہ
(گزشتہ سے پیوستہ)
’’چچا جان ! آپ کو ابو نے نہیں بتایا کہ انہوں نے 3 ماہ پہلے فیکٹری اور آفس کے اوریجنل کاغذات بینک میں رکھوا کر بینک سے چار کروڑ کا  لون (قرضہ)لیا تھا۔ اگلے ہفتے سے اس کی اقساط شروع ہونگی۔ اسی لئے ابو نے آپ کو مختارِ کل بنایا تاکہ آپ کی سر پرستی میں ہم یہ کام کر سکیں‘‘۔ وہ بڑے آرام سے تفصیلات بتا رہا تھا۔’’یہ کیا دھوکہ بازی ہے؟؟ بھائی جان نے سب کچھ میرے نام کیا ہے پھر وہ میری اجازت کے بغیر قرضہ کیسے لے سکتے ہیں تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔۔‘‘ ۔ چچا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح اپنے خیالات کو گویائی دیں ’’چچا جان!! قرضہ تین مہینے پہلے لیا تھاجب ابو نے آپ کے نام کچھ نہیں کیا تھا، آپ کے پاس اسٹیمپ کئے ہوئے حلف نامے ہیں مگر ابو کے پاس تو اوریجنل ڈاکیومنٹس تھے، بس وہی دے کر قرضہ لیا تھا اسی لئے آپ کو مختار کل بنایا ہے ابو نے ۔۔۔ تاکہ قرضہ ادا ہو سکے۔ مجھے ابو نے بتایا تھا کہ کاروبار خسارے میں جا رہا ہے تبھی وہ چچا کے نام کر کے ان سے مدد لیں گے وہ بتا رہے تھے کہ آپ نے انہیں بہت منع کیا مگر انہوں  نے آپ پر بھر پور اعتماد کر کے یہ کام کیا ہے‘‘۔ اس نے جلتی پر تیل پھینکا۔۔۔۔’’کیا بکواس ہے، بھائی جان نے یہ سب کہا کہ انہوں نے مجھ سے اقرار کر کے سب میرے نام کیا ہے، تم بکواس کر رہے ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ سب سازش ہے ‘‘۔ چچا پوری طرح بوکھلا گئے تھے۔
’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بھائی جان یہ کہیں کاروبار تو میں نے دھوکے سے ان کے علم میں لائے بغیر اپنے نام کیا ہے‘‘۔ انہوں نے سوچا،’’ چچا جان !! آپ ابو کو فون کر لیں وہ خود آپ کو سب کچھ بتا دیں گے کہ قرضہ کیوں لیا ؟ کب لیا؟ کس بینک سے لیا ۔ میرے پاس کاغذات ہیں لون کے ، آپ کہیں تو میں ابھی دکھا دونگا‘‘ ۔ وہ انہیں وضاحت دے رہا تھا مگر چچا جان تو جیسے کچھ سُن ہی نہیں رہے تھے۔ انہوں نے فوری طور پر یوسف صاحب کو کال ملائی ۔ دوسری طرف عالم آراء تھیں ، پہلی بار تھا کہ انہوں  نے بھابھی سے رسمی سلام دُعا تک نہیں کی اور فوری طور پر بھائی سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ آنِ واحد میں یوسف صاحب نے فون لے لیا’’میں کیا سُن رہا ہوں بھائی صاحب !! وہ وضاحت طلب کر رہے تھے بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے مگر دوسری طرف جس اطمینان اور یقین کے ساتھ یوسف صاحب نے انہیں جواب دینا شروع کیا ان کی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔’’ویسے تو میں خود کو اس بات کا پابند نہیں سمجھتا کہ تمھارے سوال کا جواب دوں مگر اخلاقی طور پر تمھیں بتا دیتا ہوں کہ آفس کے ساتھ والے بینک کی برانچ میں قرضہ کی فائل اور تفصیلات تمھیں بینک منیجر صاحب دے دیں گے ، قرضہ کیوں لیا؟ یہ میں نہیں بتا سکتا تمھیں کاروبار کا مختار کُل اس لئے بنایا کہ تم قرضہ ادا کر سکو۔ تم کو تو یاد ہو گا کہ جب میں آخری دِن آفس گیا تھاتو میں نے کتنے اصرار سے تمھیں سادہ کاغذات پر دستخط کر کے دیئے تھے تاکہ تم وصیت بنواسکو اور میری فیکٹری وغیرہ اپنے نام کر لو‘‘۔ وہ بہت مضبوط لہجے میں طنز کر رہے تھے۔ آصف چچا کچھ بول ہی نہیں پا رہے تھے۔
’’وہ۔۔۔وہ۔۔۔بھائی جان! آپ نے اصرار کر کے سادہ کاغذات پر دستخط کئے تھے ہم ہم مگر۔۔۔‘‘۔ وہ کچھ بول نہیں پا رہے تھے کہ کیا کہیں ، بھائی کا لہجہ اسقدر سنگین تھا کہ ان کے وجود میں خوف کی سرد لہر دوڑ گئی ’’ہاں !! یاد نہیں تمھیں !ً میں نے کتنا  اصرار کیا تھا؟؟ اور تم کس قدر منع کر رہے تھے؟ مجھے سمجھا رہے تھے کہ تمھیں کچھ نہیں چاہیے، وصیت کیوں بنوائوں، آپ کا سایہ سر پر سلامت رہے، کتنے پیار سے تم نے مجھے باز رکھنے کی کوشش کی تھی، بھول گئے کیا بیٹے!!! ‘‘۔ انہوں نے دردسے ڈوبی ہوئی دل کی دھڑکنوں کو سنبھال کر بھائی کے دل پر طنز کا تیر چلایا۔ ’’اور ہاں !!ایک بات اور ۔۔۔۔ میں نے وصیت بدل دی۔ تم پر اتنا بوجھ کیوں ڈالتا کہ کاروبار بھی چلائو اور قرضہ بھی ادا کرو ۔ میں نے دونوں فرائض سے تمھیں آزاد کر کے ان لڑکوں کو ذمہ دار بنا دیا ہے ۔ آج وکیل صاحب نے ساری عدالتی کاروائی کر لی ہے اسپتال آ کر وہ جانے اور کیا کہہ رہے تھے، آصف چچا نے جلدی سے فون بند کر دیا۔ ان کا ذہن سائیں سائیں کر رہا تھا۔ صارف نے ایک خوبصورت مُسکراہٹ کے ساتھ انہیں دیکھا۔ ’’اوکے چچا جان !! اب ہم چلتے ہیں ۔ اب تو یقینا آپ کو تمام بات پتہ چل گئی ہو گی۔ دُعا کیجئے اسپتال کے اخراجات ارینج ہو جائیں اب تو فیکٹری میں بھی مال نہیں ہے کہ اسے بیچ کر کام چلایا جا سکے ، آج میں نے تمام ورکرز کو ایک ماہ کی چُھٹی پر بھیج دیا ہے ، کوئی کام ہی نہیں ہے تو ورکرز کو روز روز بُلا کر خوار کیوں کیا جائے‘‘۔ اس نے گویا بم پھوڑا۔
فیکٹری میں مال نہیں ؟؟ ورکرز کی چُھٹی ؟؟ آصف چچا نے اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتے ہوئے بے ربط سا سوال کیا۔
’’جی !!! آپ بھی ناں ! چچا جان آپ نے خود ہی تو فیکٹری کا مال اور بازار سے خریدا ہو ا تمام مال اس فراڈ کمپنی کو دیا تھا، بھول گئے ابھی تو آپ نے خود کہا تھا ‘‘۔ ’’اوہ !! ہاں !! یا د آیا، غلطی سے یہ موبائل میں ریکارڈ ہو گیا ہے اور میں نے ابو کو سینڈبھی کر دیا۔ سوری!! پتہ نہیں کیسے ہوا؟؟‘‘۔وہ شرمندہ نظر آنے لگا۔ آصف چچا نے اسے دیکھا اور نڈھال سے انداز میں صوفے میں دھنس گئے ، چچی کا غُصہ اور حقارت بھی سرا سیمگی میں بدل چُکی تھی وہ باری باری سب کو دیکھ رہی تھیں۔ ’’چلو مشرف !! اجازت چچا جان !! خُدا حافظ پھر کبھی آئیں گے۔۔۔ سوری چچی جان !! وہ سائرہ بانو کی طرف مُڑا، ’’آپ کے اتنے ’’اصرار‘‘ کے باوجود ہم چائے کھانا وغیرہ کے لئے نہیں رُک سکتے دیر ہو جائے گی، پلیزً مائنڈ مت کیجئے گا۔ آپکی مثالی مہمان نوازی کا شکریہ، اللہ حافظ‘‘۔ اس نے بھر پور تبسم کے ساتھ سائرہ بانو کو بُری طرح شرمندہ  کر ڈالا اور مُشرف کا ہاتھ پکڑ کر باہر  نکل گیا ۔ آصف صاحب ہارے ہوئے جواری کی طرح دروازے کو تک رہے تھے اور سائرہ بانو اس کے ’’مہمان نوازی‘‘ والے طنز پر اندر ہی اندر کٹ کر رہ گئی تھیں۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 
 

شیئر: