Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیمپوں میں مقیم روہنگیا مسلمان نفسیاتی مسائل کا شکار

بنگلہ دیش کے عوام نے ابتدا میں گاڑیاں بھر بھر کر کیمپوں میں سامان بھیجا ،نصف سے زائد مہاجرین کو اپنے گھروں میں ٹھہرایا ، بنگلہ دیش کی سرحد سے کیچڑ اور دلدل میں ہوتے ہوئے بڑی مشکل سے روہنگیا کے کیمپس تک پہنچے،لوگوں کو ادویات اور خوراک کی اشد ضرورت ہے،عماد
انٹرویو:  مصطفی حبیب صدیقی 
عماد احمداور انعم علی غیرمسلم ملک میں پیدا ہونے کے باوجود امت مسلمہ کا غیرمعمولی درد رکھتے ہیں ۔دونوں کو اسلام کے بنیادی مسائل سے بہت  زیادہ آگاہی  ہے، دونوں اپنی زندگیوں کی پروا کئے بغیر کبھی بیروت،کبھی شام کے مظلوم عوام سمیت کبھی بنگلہ دیش میں مظلوم بہاریوں کی امداد میں مصروف رہے  اور بنگلہ دیش میں ہی انہیں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کا علم ہوا۔عماد احمد کے والد ڈاکٹر معین احمد   ماہر ماحولیات ہیں ، کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔عماد احمد کی پیدائش نیوز ی لینڈ میں ہوئی ،پرورش امریکہ میں پائی،پوری زندگی مغربی معاشرہ دیکھا مگر امت مسلمہ کا درد جاگتا رہا۔انعم علی کے والدین بھی پاکستانی  ہیں مگر انعم کی پیدائش امریکہ کی ہے ۔عماد احمد نے انڈیا نا سے گریجویشن کیا ہے جبکہ انعم بھی امریکن یونیورسٹی سے میڈیسن میں گریجویٹ ہیں۔ انعم علی بیروت میں تھیں،گھر والے پہلے ہی پریشان تھے کہ وہ کس طرح اتنے خطرناک علاقے میں لوگوں کی مدد کررہی  ہیںکہ اچانک ایک دن انعم نے یوٹیوب پر دیکھا کہ بنگلہ دیش کی سرحد پرقائم کیمپوں میں برمی افواج کے مظالم کے شکار مسلمان شدید مشکلات میں ہیں۔انعم نے فوری فیصلہ کیا اور بیروت سے بنگلہ دیش کیلئے رخت سفر باندھا۔گھروالوں نے ڈرایا کہ تم لڑکی ہو کیسے ایسا مشکل کام کروگی ،انعم علی کا جواب تھا کہ اگر میں ان کی مدد نہ کرسکی تو میری تعلیم کا کیا فائدہ؟عماد احمد اور انعم اٹھے، اوبیٹ ہیلپرز کا سہارا لیا اور مدد کرنے پہنچ گئے۔پرتعیش گزارنے والے دونوں پاکستانی نژاد امریکی نوجوان ہر تکلیف کا سامنا کرتے رہے۔ سرحد سے دو تین کلومیٹر تک مٹی اور کیچڑ میں چل کر کیمپس تک پہنچے۔   کیمپ میں سیکڑوں حاملہ خواتین کی مدد کی ،لوگ مظالم کے باعث نفسیاتی مریض ہوچکے ،انعم نے طب کا شعبہ سنبھال لیا۔ ،عماد اور انعم کی سوچ اور جذبات ایک تھے اسی نے انہیں گزشتہ دنوں دوست سے شریک حیات بنادیا ۔لاس اینجلس میں شادی کے بندھن  میں بندھنے کے بعد دونوں امریکہ میں  نہیںرکے بلکہ بنگلہ دیش کی سرحد پر قائم  روہنگیا کے  کیمپ  پہنچ گئے اور مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ولیمہ کی خوشی منائی۔دونوں نوجوان مختصر قیام کیلئے کراچی آئے تو ہماری ملاقات ہوئی۔گفتگو کے دوران دونوں نوجوان اللہ اور رسول کے احکامات سناتے رہے۔امت مسلمہ کے حوالے سے مسلم حکمرانوں کی بے حسی پر بھی افسردہ تھے۔ عماد احمد اوبیٹ ہیلپرز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔
**********
  اردونیوز: آپ کو روہنگیا مسلمانوں کی مدد کا خیال کیسے آیا اور پہلی مرتبہ بنگلہ دیش کے کیمپوں تک کیسے پہنچے؟
عماد احمد :  بیرون ملک  مقیم   پاکستانی کمیونٹی سمیت آسٹریلیا ،لبنان ،ملیشیا،انڈونیشیا  اور پوری مسلم امہ  روہنگیائی مسلمانوں کی  مالی  مدد  کیلئے آواز بلند کررہے ہیں۔میں اور انعم گزشتہ سال بنگلہ دیش میں تھے کہ وہاں ہماری ملاقات مقامی بزنس مین زبیر سے ہوئی اور پھر روہنگیا ئی مسلمانوںکیلئے کچھ کرنے کا خیال آیا۔ہم اوبیٹ ہیلپرز سے منسلک تھے جو پہلے ہی 14سال سے بنگلہ دیش میں بہاریوں کیلئے کام کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کے کیمپس زندگی کی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں جبکہ یہ حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام نے ابتدا میں گاڑیاں بھر بھر کر کیمپوں میں سامان بھیجا تاہم وہ بھی کس حد تک کرتے۔ رواں سال بھی تین چار ہزار  پناہ گزین  بنگلہ دیش کی سرحد پر نظر آئے جبکہ  اس سے قبل بھی دوتین ہزار لوگ بنگلہ دیش  جاچکے تھے جس سے بنگلہ دیش کی حکومت کافی دباؤ میں آگئی تھی۔   اس نے شروع میں تو سرحد بند کردی تاہم بعدازاں سب کیلئے  دروازے کھول  دیئے۔شروع میں بنگلہ دیشی حکومت کو بھی روہنگیائی مسلمانوں کو کنٹرول کرنے  میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔پھر آہستہ آہستہ لوگوں کی معلومات اکھٹی کرنے کے بعد اجازت دیدی گئی ۔  ہم جب پہلی مرتبہ بنگلہ دیش کی سرحد پر موجود  روہنگیا مسلمانوں کے کیمپس جانے کیلئے نکلے تو بہت مشکل میں تھے۔ سرحد سے کیمپس تک دلدلی مٹی اور کیچڑ تھا اور پیدل ہی سفر ہوسکتا تھا۔میں اور انعم سرحد سے دوتین گھنٹے مٹی اور کیچڑ میں پیدل چل کر کیمپوں تک پہنچے۔ بنگلہ دیش آرمی سے اجازت لے کر کام شروع کیا۔  وہاں جماعت  اسلامی کے لوگ پہلے سے ہی موجود تھے  جو الخدمت کے تحت کھانا تقسیم کررہے ہیں۔ایک    کیمپ  میں 8ہزار لوگ تھے جن میںخواتین اور بچے شامل تھے۔ ہم کیمپ میں ہی تھے کہ   بارودی سرنگ میں دھماکے کی آواز سنی  جس کے  بعد بنگلہ دیشی فوج اس طرف دوڑی او رہم لوگوں کو  واپس بھیج دیا ۔اس دھماکے میں روہنگیا کا ایک شہری اور ایک بنگلہ دیش آرمی کا جوان  جاں بحق ہواتھا۔ یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ سرحد کے قریب مقیم بیشتر بنگلہ دیشی عوام نے روہنگیائی مسلمانوں کواپنے گھروں میں رکھا بعد میں حکومت نے    کیمپ قائم  کیے ۔ 
  اردونیوز: مغربی میڈیا سے خبریں آرہی تھیں کہ بنگلہ یشی  عوام روہنگیائی مسلمانوں کو نکالنے کیلئے مظاہرے کررہے ہیں؟
عماد احمد: شروع  شروع میں ایسا ہوا ، بعد میں  انہوں نے مہاجرین کی بہت مددکی ۔اس وقت بھی ایک  کیمپ میں 8ہزار مہاجرین موجود ہیںاس سے پہلے ڈیڑھ لاکھ تھے ۔ کیمپوں میں ورلڈفوڈ پروگرام کے تحت صرف کھانا تقسیم کیا جارہا ہے جس میںچاول،دال  اور تیل ہے ۔ 7 لاکھ  مہاجرین تھے جن کے پاس کھانے پکانے کیلئے تیل یا اور کوئی انتظام نہیںتھا۔ یہ لوگ 10 میل کا سفر طے کر کے جنگلوں سے درخت لاتے  ان کو جلا کر کھانا پکاتے تھے۔ایک مرتبہ دیکھاکہ جنگل سے مہاجرین کی قطار آرہی ہے جو لکڑیا ں لیے  ہوئے تھے ۔لائن ایک کلو میٹرتک ہوگی۔ ہم آدھے گھنٹے تک بیٹھے صرف قطار دیکھتے رہے  ۔نہایت افسوس ہواجب ہم نے قطار میں بچے دیکھے  جن کے ہاتھوں میں چھریاں تھیں  جن سے لکڑیاں کاٹی جاتیںتھیں۔ ان مسائل پر  بنگلہ دیشی حکومت سے بات کی کہ مہاجرین کو کھانا پکانے میں بڑی دشواریوں کا سامنا  ہے ان کا حل نکالا جائے۔
  اردونیوز: روہنگیائی مسلمان کب تک کیمپ میں رہنا چاہتے ہیں؟ 
انعم علی :  وہ ایک پل بھی  کیمپ میں نہیں رہنا چاہتے۔ انہیں اپنے وطن واپس جانا ہے ۔کہتے  ہیں یہ ہمارا گھر نہیں ہے۔یہاں کھانا نہیں  ،کچھ نہیں ہے،ہمیں ایسے رہنا پسند نہیںہے۔ چاہتے ہیں حفاظت سے اپنے گھروں میں رہیں مگر اس کیلئے بین الاقوامی اداروں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
  اردونیوز:آپ لوگوں کی روہنگیا کے مسلمانوں سے بات ہوئی ہوگی وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟
عماد احمد: جی بہت سے لوگوںنے دلخراش واقعات سنائے۔ شروع شروع میں   برمی فوجیوں نے روہنگیا  ئی مسلمانوں  پر ظلم کی انتہا کردی تھی ۔ خواتین کے ساتھ سرعام  زیادتیاں کی گئیں۔ چھوٹے بچوں کو  ماؤں کے سامنے کاٹا گیا ۔شوہر وں کے سامنے بیویوں سے اجتماعی زیادتی کی گئی ،ان ظالموں نے روہنگیائی مسلمانوں  کے پورے پورے گائوں جلاکر راکھ کردیئے۔اتنے گھناؤنے مظالم ڈھائے  تاکہ  روہنگیائی مسلما ن  برما واپس جانے کاتصور بھی نہ کریں۔ اسی خوف کے باعث مہاجرین آج بھی کیمپوں میں اذیت بھری زندگی گزاررہے  ہیں ۔ ہم بنگلہ دیش کی سرحد پر تھے اور کیمپ میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کی مدد کررہے تھے کہ ایک  روہنگیا مسلمان نے ہمیں ہاتھ کے اشارے سے دکھاتے ہوئے بتایا کہ وہ دیکھو میانمار میں ایک گھر سے دھواں اٹھ رہا ہے۔   انہوں  نے بتایا کہ   برمی فوج سارے مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کررہی ہے۔1990میں بھی برمی فوج نے ایسے ہی  مظالم کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔
  اردونیوز: امریکہ  میں مقامی لوگ روہنگیا  ئی مظالم کے بارے میںکیا رائے رکھتے ہیں ؟
عماد احمد:  بدقسمتی سے سوائے ملائیشیا کے کسی بھی ملک نے حکومتی سطح  پر برما پر دباؤ نہیں ڈالا۔سب سے پہلے ملائشیا نے مدد کیلئے ایک بحری جہاز بھیجا تھا  مگر بنگلہ دیشی حکومت نے  لینے سے انکار کردیا تھا۔ملائیشیا کے وزیراعظم  نے  بنگلہ دیش کی وزیراعظم  حسینہ  واجد کو فون کیا یہ جہاز لے لو ورنہ ملائیشیا میں سارے بنگلہ دیشیوں کے ویزے منسوخ کردیں گے،جس پر  امداد لی گئی  ۔اس طرح ہوتا ہے  حکومتی دباؤ ۔ہم لوگ مسلمان تو کہلاتے ہیں لیکن مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلا ف عملی اقدامات نہیں کرتے ۔اس وقت امریکہ میں نئی نسل لوگوں کی مدد کرنے کے نئے راستے ڈھونڈ رہی ہے۔لوگ ہمارے پاس آتے ہیں ۔انہیںمدد کرنے کے راستے دکھاتے ہیں ،ان لوگوں میںمدد کرنے کابہت جذبہ ہے۔ان لوگوں کے تعاون سے ہم نے کام  کو آگے بڑھایا اور بنگلہ دیش پہنچے ،جہاں مہاجرین کی  مدد کی او ران کے مظالم سے دنیا کو آگاہ بھی کیا۔
  اردونیوز:  آپ ایک لڑکی  ہیں ،اس جدوجہد میں کن مسائل کا سامنا رہا،پریشانیوں کو کس طرح  جھیلا؟
انعم علی : میں نے ڈھائی سال پہلے  اپنی مدد آپ کے تحت  امدادی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس سے پہلے میںیونان اور  شام میں بھی  امدادی کام کرچکی تھی اس لئے مشکلات کا اندازہ تھا۔  جس وقت روہنگیائی مسلمانوں  پر مظالم  شروع ہوئے اس وقت میں بیروت میں تھی۔ وہاں سے حالات کا مشاہدہ کررہی تھی ،پھر گوگل پر این جی او دیکھی اس کے  ساتھ کام شروع کردیا اور بنگلہ دیش چلی گئی ۔ گھر والے بہت پریشان تھے۔  انہیں خوف تھا ،وہ منع کرتے رہے کہ وہاں نہ جائو بہت خطرہ ہے لیکن میں نے تہیہ کررکھا تھا  کہ مجھے ان لوگوں کی مدد کیلئے جانا ہے ۔بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچنے  کے بعد اندازہ ہوا یہاں تو زندگی کس قدر اذیت ناک ہے ۔کام کی ابتدا ء کس طرح کریں۔یہ فیصلہ ہی کرنا مشکل تھا۔ بہرحال پھر آہستہ  آہستہ کام شروع کیا۔ ایک لڑکی ہونے کی وجہ سے خواتین کے مسائل کو زیادہ توجہ دی اور کلینک شروع کیا۔
  اردونیوز: کیمپوں  میں خواتین کوکن مسائل کا سامنا ہے؟
انعم علی:ہر کہانی ایسی  ہے جسے سن کر دل خون  کے آنسو روتا ہے۔ایک مرتبہ  ایک صاحب اوران کی بیٹی کلینک پرآئے ،معلوم کرنے کے بعد ان کے والد نے بتایا کہ میری بیٹی کے ساتھ میرے سامنے  زیادتی کی گئی،بیوی کو میری  آنکھوں کے سامنے زیادتی کے بعد قتل کردیاگیا  اور بیٹے کو بھی گلا کاٹ کر مارڈالا ۔ اب ہمیں ایک پل سکون نہیں ،ہر وقت خو ف ہے ،بدلے کی آگ ہے ،ہمیں سکون کی دوا دو ،میںحیرت زدہ رہ گئی اس کو کیا دوا دوں ،یہ ایک نہیں ایسی کئی کہانیاں  ہیں جسے سنا تے ہوئے ہماری  زبان بھی شاید ہمارا ساتھ  نہ دے۔
  اردونیوز: پاکستانیوں کو کیا پیغام دینا چا ہیں گے ،ہمیںکیا اقدامات کرنے چاہیں ؟
عماد احمد:ہم لوگ اپنے معاملات میں ذمہ داری  اور پاکستانی کا ثبوت نہیں دیتے  ۔ ملکی صورت حال  ہمارے سامنے ہے ۔دیگر ممالک کی کیا فکر کریںگے۔ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا ،سوچوں کو  بدلنا ہوگا ۔  جب ہی ہم اپنے ملک اور دوسروں کی مددکرسکتے ہیں۔مسلمہ امہ کو لیڈکرنے والے  ذمہ داری کا ثبوت نہیں دے رہے جس کے باعث دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیںاور مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے  ۔اس وقت مسلمہ امہ کو سنجید ہ ہونے کی ضرورت ہے ۔لوگوں کو اپنی مد د آپ کے تحت بھی لوگوں کی مدد کرنی چاہیے  جیسے انعم علی  ہیں انہو ں نے سوشل میڈیا پر حالات دیکھ کر فیصلہ کیا ۔این جی او  سے منسلک ہوئیں اور گھر سے نکل گئیں ۔ اگر ہم  سنجیدہ  ہوجائیں تو  کچھ نہ کچھ کرسکتے ہیں۔ ہم لوگوں  نے  وہاں جاکر لوگوں کو جس حال  میں دیکھا ہے ،اب خاموش نہیں بیٹھ سکتے  کچھ نہ کچھ کرتے رہیں گے۔ ہم لوگ 24گھنٹے کا م کررہے ہوتے ہیں۔ چھٹی والے دن بھی کام کرتے ہیں،کا م اتنا ہوتا  ہے چھٹی کا سوچ بھی نہیں سکتے  جب ضرورت ہوتی کرلیتے ہیں۔
عماد احمد: وہاں کلینک  میں 104 افرا د کا   عملہ ہے  جن میں زیادہ تر مہاجرین کے لڑکے اور لڑکیاں ہیں  جو پڑھے لکھے ہیں۔ ان ہی نے کلینک سنبھالا ہوا  ہے ۔ہم نے کلینک کھو ل کر کام کا آغاز کردیا ہے۔جب اس کام کو شروع کیا اس وقت فنڈز نہیں  تھے،ایک اسکول کھولا جس  میں 200بچے پڑھ رہے ہیں،2 کلینک چل رہے ہیں جس میں 400سے 500مریض روزانہ آرہے ہیں، 75کنویں کھودے جنہیں75ہزار لوگ استعمال کررہے  ہیں۔1500شیلٹر ہوم بنائے  ہیں  جس میں7سے 8ہزار لوگ رہ رہے ہیں۔ان کاموں میں بنگلہ دیش کی کمیونٹی نے بہت تعاون کیا ۔ا ن ہی کی مدد سے سار ے کام ہورہے ہیں۔9 ماہ بعد بھی وہاں صورت حال اتنی اچھی نہیں ہے۔مون سون شروع ہونے والا ہے۔ آنے والے دنوں میں بارش کے باعث گھمبیر مسائل سامنے آسکتے ہیں۔7ہزار ایکڑ زمین   میںسے  صرف دو ،ڈھائی ہزار ایکڑزمین استعمال ہوسکتی ہے۔8لاکھ  لوگوں کے پاس  پانی کا انتظام نہیں ہے یہ لوگ کنویںکا پانی استعمال کرتے ہیں ۔کنوؤں کے ساتھ بڑے  بڑے گندے پانی کے جوہڑ ہیں  جس کے باعث پانی  زہریلا ہوجاتا ہے جسے  استعما ل کرنے سے لوگ مختلف بیماریوںمیں مبتلا  ہورہے ہیں۔دسمبر  میں مون سون   میںبیکٹریا  سے ہزاروں بچے  جاں بحق ہوگئے تھے۔ہماری کمیونٹی نے گھروں میں جاکر خواتین اور بچوں کو ویکسین دی ۔اب پھر مون سون آنے والا ہے۔ اگر بچاؤ کی تدابیر نہیں کی گئیں تو ہزاروں ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ایک بارش آتی ہے 200گھرتباہ ہوجاتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے حادثات میں تباہی آرہی ہے۔پہلے 200 فٹ کنویںکھودے تھے وہ اب زہریلے ہوگئے ہیں۔  اب 800فٹ گہرے کنویں کھود رہے ہیں  اس میںبھی  زہریلا پانی ملنے کا اندیشہ ہے۔بارشوں کی وجہ سے سیلاب آگیاتو غذا کی ترسیل میںمشکلات کاسامناہوگا۔جو سڑکیں عارضی طور پر بنائی تھیں سیلاب کی وجہ سے ٹوٹنا شروع ہوجائیں گی جس سے کھانے پہنچانے میںمشکلات کا سامنا ہوگا۔اگر بارشوں  سے طوفان آگیا تو بڑی تباہی ہوگی ،این جی اوز کو کام کرنے میں بھی بڑی مشکلات ہوں گی ،شاید وہاں کوئی بھی محفوظ نہ رہ سکے۔
  اردونیوز: خواتین سے زیادتیوں کے بعد جو مسائل ہوتے  ہیں ان کیلئے کیا کررہی ہیں ؟
انعم علی : میں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کے تحت خواتین کی مدد کرتی ہوں۔ اس میں  تقریباً 80   رضا کارہیں۔ یہ رضا کار گھر گھر   جاکر متاثرہ خواتین سے کہتے ہیں کہ  اگر کسی کو بچہ نہیں چاہیے تو ضائع نہ کریں ،پیدا کرنے کے بعد ہمیں دے دیں ۔ ہم نے انتظام کررکھا ہے۔ اس وقت  25فیصد خواتین حاملہ ہیں۔
عماد احمد: ہم انہیں اسلام کے قوانین بتاتے ہیں۔ انہیں سمجھاتے ہیں بچے کو   ماریں نہیں یہ بھی اسلام کے خلا ف ہے ۔نفرتیں پھیلاکر کچھ  نہیں حاصل کر سکتے ،بڑی حکمت عملی سے معاملات کو کنٹرول کرنا ہے۔اس وقت ان کو مدد کی ضرورت ہے جو ہمیں پیارو محبت سے کرنی چاہیے ۔متاثرہ خواتین کو میڈیکل کی سہولت کے ساتھ سماجی مدد بھی چاہیے جو ہمیں دینی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: