Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جو میری جان بچانے کا سبب بنی، میں اسکی موت کا باعث بن گیا

 تصور میں اسکی آواز گونج رہی تھی ” آئسکریم کھالیں پگھل جائے گی“
اُم مزمل۔جدہ 
وہ چھوٹی سی بچی آئس کریم دیکھ کر مچل گئی تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں کو اونچا کئے سب بچوں سے آئسکریم بچا رہا تھا۔ کھیل چھوڑ کر سب بچے اس کے پیچھے دوڑے لیکن اس کی تیز رفتاری کی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔ وہ بیرونی دروازے تک جا پہنچا ۔ ابھی دوڑ کر روڈ کراس کرکے میدان کی طرف جانا چاہتا تھا کہ اچانک اس بچی نے پکار لیا ،”آئس کریم“ اور جیسے ہی وہ پیچھے مڑا ،ایک زوردار آواز کے ساتھ ٹرک سڑک سے گزرا ۔وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا ۔وہ بچی قریب آکر اس کے ہاتھ میں موجود آئس کریم خود تھوڑی سی کھا کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہہ رہی تھی،آئس کریم کھالیں ،پگھل جائے گی اور وہ اپنے سے کچھ ہی فاصلے پر موجود ٹرک کے ٹائر کے نشانات کو دہشت سے دیکھ رہا تھا کہ ایک لمحے پہلے اس کے قدم اس بچی کی آواز پر نہ رک جاتے تو وہ سڑک پر ہوتا۔ وہ جھر جھری لیکر رہ گیا ۔پانچ سالہ بچی جو اس کے برابر والے گھر میں رہتی تھی، آج اس کی جان بچانے کا سبب بن گئی تھی۔ اس وقت اس 13سالہ بچے نے اپنے آپ سے عہد کیاکہ یہ میری جان بچانے کا سبب بنی،میں ہمیشہ اس کی مدد کروں گا۔ اس میں چاہے میری جان ہی کیں نہ چلی جائے۔
وہ شور سے بچنے کے لئے سر تکیے پر نہیں بلکہ اپنے سر پر تکیہ رکھے سونے کی کوشش کر رہی تھی۔ جانتی تھی کہ اگر اس نے شکایت کی تو انکل آنٹی جتنا بھی اسکا خیال کرتے ہوں، کبھی اپنے بیٹے کی طرف داری سے دستبردار نہیں ہونگے اور جب کبھی اپنی والدہ سے اس بارے میں شکایت کی کہ ہر ماہ کا پہلا ویک اینڈ کیا اس شور شرابے کے بغیر نہیں گزرسکتا، کیا ضرورت تھی آپ لوگوں کو کہ ہم چونکہ اپنے گاﺅں میں بھی برابر برابر گھروں میں رہتے تھے تو شہر میں بھی ایک ہزار گز پر ایسا گھر بنوائیں کہ اس کے دو پورشن ہوں ۔الگ الگ رہ کر بھی ایک ہی گھرانے کی وجہ سے اپنے گاﺅں جیسا پڑوس کا احساس رہے اور وہ جواب میں کہتیں کہ تم ابھی چھوٹی ہو اس لئے زمانے کے سرد و گرم سے آگاہ نہیں۔ ایسے دو دوست جو آپس میں ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور پڑوس میں بھی رہیں کہ کچھ بھی ضرورت پڑنے پر سب سے پہلے پڑوسی ہی آپ کی مدد کو پہنچتا ہے اور ایک اچھا پڑوسی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ یہ بھی تو سوچو اگر کوئی بہت اچھی جگہ پر گھر بنوالے ،خوب خرچ کر کے اسے سجائے پھر معلوم ہو کہ اس کے پڑوسی ایسے شرارتی ہیںکہ انکا جینا مشکل کردیںگے تو اس کا کیا فائدہ ہوگا۔
وہ ان کے تمام دلائل کے باوجود مطمئن نہیں ہوتی تھی۔ بس یہی خیال کرتی کہ ابو اور انکل کتنے خوش رہتے ہیں اور امی جان بھی آنٹی کے ساتھ اچھا وقت گزارتی ہیں تو اسے ایسی شکایا ت کو پس پشت ڈال دینا چاہئے جبکہ اسے بچپن کے کئی ایسے واقعات یاد تھے جب وہ کھیل کے دوران اس کا خیال رکھتا تھا۔ کبھی چوٹ لگ جانے پر فوراًاس کے ٹنکچر بھی لگا دیتا تھا۔ اس کے بڑے ہونے کا رعب لڑکوں پر ہوتا۔جب وہ کھیل کے میدان میں بنچ پر بیٹھے بیٹھے بور ہو جاتی یا کوئی دوسری بچی جھولا جھولتی رہتی اور جھولا چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوتی تو وہ اس کے لئے اپنا کھیل چھوڑ کر چلا آتا اور کسی ترکیب سے جھولا خالی کراکر اسے بٹھا کر اونچی اونچی پینگ دیتا اور وہ اپنی جوشیلی آواز میں خوشی کا اظہار کیا کرتی۔
وہ ہائی اسکول کی طالبہ کی حیثیت سے پڑھائی میںخوب محنت کیا کرتی تھی تاکہ اپنے والدین کی خواہش پر اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لے سکے۔ وہ سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد اپنی ذہانت کے باعث ڈیڑھ سال میں ہی ترقی کی کئی منازل طے کرچکاتھا۔ والدین خوش تھے۔ ا ن لوگوں نے ایک گھر کو دو حصوں میں تبدیل کرنے کے لئے فقط اتنی تبدیلی کی تھی کہ ایک چاردیواری کے وسط میں دو ایسے آہنی دروازے بنوالئے تھے کہ اپنے اپنے پارکنگ ایریا میں گاڑی پارک کر سکیں ورنہ دونوں گیٹس کی درمیانی دیوار پر فقط ڈھائی انچ کے فاصلے پر بیرونی دروازے کی اندرونی جانب بھی اطلاعی گھنٹی نصب کی گئی تھی کہ دونوں پورشنز کو علیحدہ کرنے والی ڈیڑھ فٹ کی کیاری کو پھلانگ کر جانے کی بجائے دونوں گیٹ کھول لیتے اور اپنی جانب سے دوسری جانب چلے جاتے۔ 
وہ اپنی سہیلیوں کو جب کبھی ڈنر پر مدعو کرتی، وہ لان میں سپید میزپوش سے ڈھکی گول میزوں کے گرد کرسیوں کی ترتیب اور کچھ غیر
 معمولی ہلچل سے جان لیتا کہ آج اس کی سہیلیاں مدعو ہیں کیونکہ عام طور پر ہر دعوت میں سب ایک ساتھ ہوتے تھے لیکن جب وہ اپنے دوستوں کو انوائٹ کرتا یا وہ اپنی سہیلیوں کو بلاتی تو اس دن دونوں گھرانے ایک دوسرے کو نہیں بلاتے تھے اور ایسے موقع پر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پروگرام بنالیتا تھا۔ اس کی واپسی تب ہوتی جب اس کی سہیلیاں واپس جاچکی ہوتیں۔ وہ اکثر شام میں جم سے واپسی پر تھوڑی دیر کے لئے گیلری میں بیٹھا کسی مشروب سے لطف اندوز ہوتا یا لان میں اسنیکس کے ہمراہ چائے پیتا اور ایسے موقع پر کبھی دونوں فیملیز ساتھ ہوتی، دونوں خواتین خانہ کچھ خاص چیز بناتیں تو دعوت جیسا ہی ہوجاتا کہ سب مل کر ڈنر کرتے اور ایک اچھی شام ہوتی اور ساتھ ہی لطائف اور ٹی وی ٹاک شو یا اسپورٹس پر بات ہوتی۔ رات گئے کچھ اقبالیات پر دقیق تحریر پڑھی جاتی یا غالب کے اشعار سنائے جاتے۔ گھاس جب شبنم سے بھیگ جاتی تو محفل تمام ہوتی۔
وہ اپنے دوستوں کو جب انوائٹ کرتا تو کرکٹ کھیلتے ہوئے اگر بال دوسری جانب چلی جاتی تو ڈھا ئی فٹ کی کیاری پھلانگ کر دوسری جانب جانے کی اجازت وہ کسی کو نہیں دیتا تھا یا تو دوسری بال سے کھیل دوبارہ شروع کیا جاتا یا پھر کھیل ختم کردیا جاتا۔ باربی کیو پارٹی 
 کے بعد باہر لان کی بجاے اپنے کمرے ہی میں میوزک لگانے کی اجازت ہوتی اور فجر کی اذان سے پہلے تمام دوستوں کی واپسی ہوجاتی ۔
 وہ جانتا تھا کہ اسے سحر سے پہلے طلوع آفتاب کا منظر پسند ہے اور اس وقت وہ اپنی گیلری میں کھڑی اس منظر سے لطف اندوز ہوتی ہے چونکہ دونوں کی گیلری بیڈ روم سے برابر برابر اور متصل تھی تو اس کی موجودگی میں وہ کبھی بھی اپنی گیلری کارخ نہیں کرتا تھا ۔ یہ وہ اخلاقی و تمدنی قواعد و ضوابط تھے جو ان لوگوں نے خود وضع کئے تھے،وہ اس پر کاربند تھے ۔
وہ اپنی زمینوں کی پیداوار کا حساب لینے سال بعد ضرور خود جایا کرتے تھے ۔اس مرتبہ انکے ہمراہ انکی اہلیہ اورصاحب زادی بھی 
تھیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی پرانے رشتہ داروں سے ملاقات ہوئی۔ سب نے ہی دوری کا شکوہ کیا۔ صاحب خانہ کی چچی
 جو بیوہ ہوچکی تھیں، اپنی تمام زندگی کی محرومی کی بابت ذکر کرنے کے بعد اپنے بیٹے کا رشتہ ان کی بیٹی سے کرنے کی خواہش مند ہوئیں ۔یہ ایسا جذباتی لمحہ تھا کہ ان دونوں نے ان کی خواہش کو مان لینے کا عندیہ دے دیا ۔
جب وہ لوگ شہر پہنچے تو یہ خبر انکے دیرینہ دوست کے لئے حیرت کا باعث بنی اور انکی اہلیہ بھی حیرت سے پوچھ رہی تھیں کہ اس 
 قدر عجلت میں یہ فیصلہ کیوں کیا گیا ۔دونوں گھرانے کی اکثر باتوں میں یہ بات بھی ہوتی رہی کہ ھم ہمیشہ ایک خاندان کی طرح رہیں گے اور 
 اس کا مطلب یہی تھا کہ ہمارے بچوں کا رشتہ ہوجانے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ جب وقت آئے گا تو یہ اہم کام ہوجائے گا۔ ابھی تو تعلیم جاری ہے۔
وہ دونوں گھر کی ویرانی اور اپنے دونوں گھرانوں کے خیالات سے اچھی طرح آگاہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے فیصلے اور پھر فیصلے پرفوری عملدرآمد کی وجہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھے۔ شاید وہ ایک جذباتی لمحے کی زد میں آگئے تھے ۔جب وہ گھر پہنچا تو یہ خبر اس کے لئے بھی شاکنگ تھی۔ اس کی حالت ایسی تھی جیسے کسی نے اس کے ساتھ جان لیوا مذاق کیا ہو۔شہری لوگوں سے حد درجہ متاثر وہ اپنے سسرال پہنچا تھا۔ہر طرف ہریالی بہترین تعمیرات کا منہ بولتا ثبوت ان کی رہائش کہ جس کی تصویر ایک بہترین منظر پیش کرے۔ شہر کی ہر چیز اسے انوکھی لگ رہی تھی۔ ایسا ہی لگ رہا تھا کہ اس کو شہربھر کا خزانہ مل گیا ہو لیکن جب اس کی ملاقات اس جھنڈے والی سرکاری گاڑی سے اترتی خوبرو شخصیت سے ہوئی تو ایکدم اس نے گاﺅں کے پسماندہ علاقے کے رہاشی ہونے کا ثبوت دیتے ہوے کہا کہ سرکارنے دی ہے یا سڑک پر کسی سے چھین لی ہے؟ ہمارے گاﺅں میں بھی چھینی ہوئی گاڑیاں مل جاتی ہیں۔ میں چاہوں تو سستے داموں اس میں سے ایک خرید لوں ۔ وہ انکل آنٹی کے چہرے دھواں ہوتے زیادہ دیر نہ دیکھ سکا فوراً پلٹ آیا ۔
وہ آج جلدی گھر کے لئے روانہ ہوگیا تھا۔ راستہ سنسان تھا ۔اچانک اس کے انکل کی بیٹی کی گاڑی تیز رفتاری سے آگے جاتی نظر آئی۔وہ عموماً احتیاط سے گاڑی چلاتی تھی تو آج ایسی کیا بات ہوگئی تھی۔ کیا کوئی ایمرجنسی تھی؟ اسی وقت اس نے دیکھا ایک ٹرک جس پر حد سے زیادہ سامان لدا ہوا تھا ،بالکل اس کے نزدیک گاڑی پہنچ چکی ہے اور اچانک اسکی آنکھوں نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر سنسان سڑک کراس کر رہی ہے ۔اس نے بے اختیار سوچا کہ وہ جو ہمیشہ سے ایک متین شخصیت کی حامل تھی، ایسی کیا بات ہوگئی ہوگی کہ اس کی برداشت کی حد لبریز ہو گئی اور وہ بیچ سڑک پر ڈرائیونگ سیٹ سے یوں اچانک سڑک کراس کرنے لگی ۔ وہ اس اندوہناک منظر کو دیکھ نہ سکا ۔آنکھیں بند ہوگئیں۔ لوگوں نے دیکھا،وہ پوری قوت سے چیخ رہا تھا ۔
دوسرے دن کے اخبار میں دو کالمی خبر چھپی تھی کہ ایک حد سے زیادہ سامان لے جانے والے ٹرک سے اچانک کچھ سامان گر گیا اور 
 اس کی زد میں آکرایک لڑکی جاں بحق ہوگی۔ عینی شاہدین کے مطابق وہ اپنی گاڑی سے اچانک دروازہ کھول کر سڑک دوڑ کرپار کرناچاہتی 
 تھی۔ شاید اس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔
حقیقت کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ اسکے برابر میں بیٹھے ہوئے احساس کمتری میں مبتلا ،حسد میں حد سے گزرے ہو ئے نے اسے کتنی ذہنی اذیت پہنچائی تھی کہ اس کے برداشت کی حد ختم ہو گی تھی اور وہ نماز جنازہ سے واپسی پر اپنی نم آنکھوں کے سامنے اپنے بچپن کا منظر دیکھ رہا تھا کہ اس بچی کی آواز اس کے لئے زندگی کی نوید لائی تھی اور وہ یہ بات جانتا تھا کہ اس احساس کمتری کا شکار اس کی بابت سوال کر کر کے اسے زچ کیا کرتا تھا۔وہ زیر لب اس سے کہہ رہا تھا کہ مجھے معاف کردینا کہ جو میری جان بچانے کا سبب بنی، میں اس کے لئے موت کا باعث بن گیا۔ وہ سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔ ویسے ہی جیسے وہ اپنے قریب ٹرک کے گزرنے کے بعد دہشت کے زیر اثر بیٹھ گیا تھا اور اس کے تصور میں اسکی آواز گونج رہی تھی ۔
 ” آئسکریم کھالیں پگھل جائے گی“
٭٭جاننا چاہئے کائنات، قانون اور دین کی حدود مقرر ہیں ۔ان کی پاسداری ہر ایک پر لازم ہے ۔
 

شیئر: