Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماضی کی” پتنگ با زی“، دور حاضرکی ”سیلفی “،جان لیواشوق

 ہم اپنی روایات کو داﺅ پر لگا کردو سرو ں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
تسنیم امجد ۔ریا ض
بچپن میں اما ںکو چھو ٹے بھیا کو اکثر ڈا نٹتے سنا ۔وہ نہ تو دو پہر کی تپتی دھوپ کی پر واکر تا اور نہ ہی آ رام کا خیال کر تا ۔جب سب سوئے ہو تے، وہ دبے پا ﺅ ں با ہر نکل جاتا ۔دو ستو ں کے ساتھ قریب کے میدان میں جا کر ” ڈور“ بناتا ۔اس کے دوست پسا ہوا سیسہ اور رنگ ونگ لے آ تے ۔شام گئے جب وہ لو ٹتا تو ہا تھ رنگ سے بھرے اور جگہ جگہ سے کٹے ہو تے ۔اماں سر پکڑ لیتیںاور اسے ابا کے آ نے سے پہلے صاف ستھرا ہو نے کا کہتیں۔اسکو ل سے ملے ہوم ورک کی بھی اسے پر وا نہ ہو تی ۔رات گئے آ پاکی منت سماجت کرتا کہ وہ ذرا اسکول کا کام کروا دیں ۔انہیں اس پر پیار آ جاتا اور کہتیں جا سو جا، میں کر دیتی ہو ں،صبح نا شتے سے پہلے سمجھ لینا ۔اما ں کو آ پا کا یہ لاڈ ایک آ نکھ نہیںبھا تا تھا۔اسی طر ح وقت گز رتا گیا۔ اب جب بھیا گر یڈ 22 کا افسر بن چکا ہے تووہ اپنے ”بچپن سے پکپن“ تک کا سفر یاد کر کے اپنی بے و قو فی پہ ہنستا ہے ۔
پتنگ بازی لاہور کی ثقا فت کا ایک اہم جز ہے ۔انوا ع واقسام کی پتنگیں یا ”گڈ یا ں“بنانے اور پیچ لڑا نے میں لا ہو ری مشہور ہیں۔اسی شہر میں مذ ہبی رحجان رکھنے والو ں نے ہمیشہ اس شو ق کی مخا لفت کی لیکن کسی نے نہ سنی بلکہ اس کے سا تھ بسنت کو بھی جو ڑ لیا ۔یہ حقیقت ہے کہ اسلام اپنے دا من میں تنگی نہیں رکھتا ۔تفر یح کی اجا زت دیتا ہے لیکن تفریح وہ ہو نی چا ہئے جو اس کے نظام زندگی کے مطا بق ہو ۔جس میں ا للہ کریم کے احکامات عالیہ کو پیش نظر رکھا گیا ہو اور جس سے حقوق ا لعباد متاثر نہ ہوتے ہوں۔اسلام کے دیئے ہو ئے نظام میں شرم و حیا ،حقو ق ا لعباد اور دو سرو ں کی زندگی میں عدمِ مدا خلت کا خاص خیال رکھا گیاہے ۔وقت کا ضیا ع ممنو ع ہے ۔مال و دو لت کا بے جا اسراف بھی منع ہے ۔نبی کریم نے فر ما یا “ لا ضرر و لا ضرار“۔
تا ریخ بتا تی ہے کہ پنگ بازی کا سلسلہ مشر قِ بعید سے ہندو ستان پہنچا ۔مغلیہ دور میں بھی اسے پسند کیا جا تا تھا ۔جا پانی اسے بہت پسند کر تے تھے۔ان کے شوق کی انتہا دیکھتے ہو ئے حکومت کو پا بندی لگا نا پڑی ۔قا نون سا زی کی گئی جس کے بعد اسے صرف امراءہی ا ڑا سکتے تھے ۔ما ر کو پو لو کے سفر نا مو ں سے معلوم ہو تا ہے کہ یو رپ میں بھی اسے 13ویں صدی سے ہی پسند کیا جا تا تھا ۔اسے مو سمی تحقیق کے لئے بھی استعمال کیا جا نے لگا ۔اب تو یہ با قا ئدہ ایک صنعت بن چکی ہے ۔آج لا کھو ں افراد کا روزگارما نجھے ،کا غذ ،بانس اور د ھا گے سے وابستہ ہو چکا ہے ۔
پیچ لڑانے کے مقا بلے میں لا کھو ں کی شر طیں بھی لگتی ہیں ۔اکثر یہ جھگڑوں کی نذر ہو جا تے ہیں ۔ہمارے ملک میں یہ مو سم ِ بہار کی آمد پر منایاجانے والا تہوار ہے ۔اس کی خو بصور تی بسنت کے ہرے پیلے رنگو ں سے دو چند ہو جا تی ہے ۔ملک سے دور رہنے والے بھی اب اس شو ق کااہتمام کرنے لگے ہیں۔
گز شتہ دنوں اسی مو سم میںہمارا امریکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک گیٹ ٹو گیدر میں مو سیقی ہوا ﺅ ں میں بکھری ہو ئی تھی ۔فر یحہ پر ویز کی آ واز میں ”کہ دل ہوا بو کا ٹا “پر ایک جا نب رقص کے شو قینو ں کا انتظام بھی مو جود تھا ۔رنگ برنگے کھانے میزوں پر سجے تھے۔ جس کا جب دل کر تا کھا لیتا ۔وہا ں چھو ٹے بڑے فیسٹیول لگتے رہتے ہیں ۔ڈھول کی آ واز اور بسنت کا چو لی دا من کا سا تھ ہے ۔اس لئے 
وہا ں بھی اس کا انتظام کر لیا جا تا ہے ۔میدان اور گھرو ں کی چھتو ں کا انتخاب کیا جاتاہے ۔شو قین ایک دوسرے کے گھروں میں اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔پرا ئیویسی کا خیال نہیں رکھا جا تا ۔بلا اجا زت بھی ایک دو سرے کی چھتو ں پر کودا جا تا ہے ۔
ایسا کو ئی بھی کھیل یا مشغلہ اسلام میں ناپسندیدہ قرار فرمایا گیا ہے جس میں وقت اور پیسے کا ضیا ع ہو ۔بسنت ہماری ثقا فت کا حصہ نہیں،ہماری بد نصیبی ہے کہ ہم نے اسے غیر ضروری اہمیت دی ۔کبو تر با زی ،بٹیر با زی اور ایسے بہت سے شو ق اسی فہرست میں شمار ہو تے ہیں ۔ماضی کی پتنگ بازی کی طرح دور حاضر میں موبائل فون سے لی جانے والی سیلفی بھی ایسا شوق ہے جو بھوت کی طر ح اکثریت کے سروں پہ سوار ہو چکا ہے ۔اس میں بھی حادثات ہو تے رہتے ہیں جن کی پر وانہیں کی جا تی ۔چھتو ں پر ،سا حلوں پر اورگیدرنگ میں ادب وآ داب کو نظر انداز کر کے سیلفیا ں بنانے کا رجحان ،چہ معنی دارد ؟
پتنگ بازی میں چھتو ں سے گر نے کے وا قعات کے حوالے سے یاد آ یا کہ ہمارے بزرگوں نے چھت پر سو نے کو بھی منع کیا ہے مبادا کو ئی نیند کی حالت میں گر جا ئے ۔ایسا معلوم ہو تا ہے کہ ہم نے ان طر یقو ں سے خود کشی کا فیصلہ کر لیا ہے ۔” روم جلتا ہے تو جلے، نیرو کو تو بانسری بجانے سے غر ض ہے ۔“
دھا تی تار کے استعمال سے اب تو جا نو ں کے ساتھ ساتھ ٹرا نسفا ر مر اور گرڈ اسٹیشن بھی تبا ہی کے دہانے پہنچ رہے ہیں۔نجانے یہ کیسی ثقا فت ہے جس نے اپنی پہچان بھلا دی ہے ۔کسی بھی معاشرے کا مجموعی چلن یا رویہ ہی ثقافت کہلاتاہے ۔اسی سے قو مو ں کی پہچان ہے ۔یہی انہیں ایک دو سرے سے ممیز کر تا ہے ۔دشمن کا خا مو ش وار اسی پر ہو تا ہے اور پھر با قی ما ندہ تخریبی سر گر میا ں آ سان ہو جا تی ہیں ۔ہم نہ جانے کس بھول میں ہیں ۔اپنی روایات و ثقا فت کو داﺅ پر لگا کردو سرو ں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔مو سیقی ،آ زادی اور بے جا اسراف اسی کا حصہ ہے ۔معا شرے کی مضبوط بنیا دیں ایک دن میں استوار نہیں ہو تیں بلکہ اس کے لئے بر سو ں کی عرق ریزی درکار ہو تی ہے ۔نسل نو کو بچپن سے ہی اپنی اقدار سے متعارف کرانا ضروری ہے ۔آج کی نسلِ نو کا سنورناکسی قانون کی عملداری کے بغیر مشکل ہے ۔ہمیں مستقبل کی نسلو ں کو تر بیت سے سنوارنا ہے ۔اس میں ہم ،آپ اورمعا شرے کا کردار شا مل ہے ۔آج ما ضی کی گود درکار ہے ۔خود کو مسلمان کہہ لینے سے کا ملیت نہیں ملتی بلکہ خیالات اور سوچ کا عمل سے را بطہ ضروری ہے ۔
ہم مغر بیت کے جنون میں سب کچھ بھول گئے اور اسی کو اپنی تر قی سمجھ بیٹھے ہیں ۔ہمیں چا ہئے کہ ہم اپنا محا سبہ کریں کہ کہیں ہم احساسِ کمتری کا شکار تو نہیں ہو گئے ؟ ہمارا یہ حال ہوا ہے کہ ” کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھو ل گیا“۔
پتنگ بازی اور بسنت میںا سٹیٹس کا بھوت بھی سوار ہو جاتا ہے ۔بسنتی لباس میں مقا بلہ اکثر خواتین کو رنجیدہ رکھتا ہے ۔اسٹیٹس کے بخار میںمبتلا خوا تین دکھاوے کے لئے تقا ریب کا انعقاد کرتی ہیں۔واہ ! ہم نہ تو رہے تیتر نہ بٹیر ۔ ہمیں بار بار تا کید فر ما ئی گئی ہے کہ فتنے سے پر ہیز ضروری ہے ۔ا خلاقی اقدار اور صحیح و غلط کے تصور کے بغیر مہذب معا شرہ کیسے و جود میں آ سکتا ہے ۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ معاشرتی سنوار کی ذمہ داری صا حبانِ ا ختیار پر ہے ۔ان پر سنوار کی ذمہ دار یا ں عا ئد ہیں ۔اس سلسلے میں عوام بھی ذمہ دار ہیں ۔وہ ان کے انتخاب میںان تمام نکات کو ملحو ظِ خا طر رکھیں جو ان کے نظر یے پر پو رااتر تے ہیں ۔آج میڈیا کی غلط بمباری بے معنی اور کھو کھلے تصورات کا پر چار کمسن ذہنو ں کے بگاڑ کا با عث بن رہا ہے ۔ہماری قو می اور اجتماعی زندگی اس بنا وٹی روش سے ا جیرن ہو چکی ہے ۔ذرا سو چئے کہ اسے اپنے اوپر حا وی کر نے والے ہم خود ہیں یا کو ئی اور ؟ یو ںکہئے کہ:
 اک جنو ں ہے کہ با شعور بھی ہے 
اک جنوں ہے کہ با شعور نہیں

شیئر: