Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہنگ پارلیمنٹ کے نتائج

***محمد مبشر انوار***
پاکستان نے اپنی آزادی کے بعد جس طرح اڑان بھری،وہ نہ صرف قابل رشک تھی بلکہ بہت سے ممالک کیلئے قابل تقلید بھی رہی مگر افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بد نیت و بد طینت اشرافیہ کی بدولت آج پاکستان بری  طرح مسائل کا شکار ہے۔ پاکستان میں متعددبار سیاسی عمل کی معطلی اور غیر سیاسی عوامل کی دخل اندازی نے اس کی سیاسی سوچ کو جس طرح پراگندہ کیا،اسکے اثرات اس وقت سیاسی افق پر بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے سیاسی عمل اور انتخابات میں جس طرح کی بے ضابطگیاں ہوتی رہیں،وہ کسی مہذب معاشرے میں سوچی بھی نہیں جا سکتیں ۔اداروں کی زبوں حالی اور بے اختیاری نے اس عمل کو مزید ناقابل اعتبار بنا کر رکھ دیا۔   ان تمام تر مشکلات کے بعد ،اس غیر سیاسی سوچ کے پروان چڑھنے کے بعد سب سے زیادہ نقصان وطن عزیز کا ہو رہا ہے کہ غیر سیاسی سوچ کی حامل اشرافیہ فقط اپنے کاروبار کو ہی مقصد حیات بنائے ہوئے ہے۔ کرپشن کے بدترین نتائج سامنے آ رہے ہیں اور ملک قرضوں کی دلدل میں بری طرح ڈوبا ہواہے جبکہ ملک کے نام پر قرضے لینے والوں کی ذاتی تجوریاں ،جائیدادیں اور اثاثے دنیا کے 5 بر اعظموں میں پھیلے اس ملک کا منہ چڑا رہے ہیں ۔ عوام کو جس ڈگڈگی پر نچایا جا رہا ہے،وہ ڈگڈگی بھی کوئی نئی نہیں اور اس کی راگنی بھی پرانی ہی ہے کہ تاجران پاکستان عوامی مزاج سے بخوبی واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ کس وقت اور کس طرح ان کی ہمدردیاں سمیٹی جا سکتی ہیں۔ عوام واقعتاجمہوریت پسند ہیں اور ملک میں حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں لیکن تاجران پاکستان کو جب اپنی کرتوتوں کا جواب دینا بھاری لگتا ہے۔جب اقتدار ان سے دور ہونے لگتا ہے تو وہ فوجی مداخلت کا راگ الاپنا شروع کر کے عوامی ہمدردیاں سمیٹنے لگتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت کے متوالے ہوتے تو اتنی کرپشن ہی نہ کرتے۔ 
پاکستان میں ہونے والے بیشتر انتخابات کے متعلق اگر دیکھا جائے تو یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ کسی ایک بھی انتخاب میں ،کوئی ایک بھی حکومت واضح اکثریت لے کر سامنے نہیں آئی ماسوائے 1997کے انتخابات میں جب مسلم لیگ ن کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی۔ اس دوتہائی اکثریت کی کہانی و حقیقت بھی سب کے سامنے آشکار رہی کہ کس طرح ’’لاڈلوں‘‘ کو کس کے خلاف دو تہائی اکثریت دلوائی گئی اور اس سے کیا مطلوب تھا؟ کہانی یہاں سے بدلنا شروع ہوئی جب مسلم لیگ کے قائدین نے ملک میں خلافت نافذ کرنے اور خود کو امیرالمومنین بنانے کا عمل شروع کیااور 12اکتوبر 1999کو اس سوچ سمیت ملکی اقتدار سے نکال باہر کیا۔
2014کے دھرنے میں تحریک انصاف بھی ببانگ دہل ’’ایمپائر ‘‘ کی انگلی اٹھنے کا انتظار ہی کرتی رہی اور دیگر بہت سے اہم معاملات کو ،فقط استعفیٰ جیسی بے جا ضد کے سامنے ،قربان کر گئی۔دھرنے بنیادی طور پر ’’پانامہ لیکس‘‘کے بعد ترتیب دئیے گئے مگر بروقت درست فیصلہ نہ کرنے کی صورت میںگو کہ ان دھرنوں کا حال عوامی تحریک کے بعد بے حال ہو چکا تھااور اے پی ایس سانحہ کے بعد بمشکل فیس سیونگ ملی۔پاکستان کی سیاسی صورتحال اور اقتدار کے ماخذ (بقول اشرافیہ اور معروضی حقائق)2016میں ’’امکانات‘‘ کے نام سے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’آپریشن ضرب عضب کو ذہن میں رکھیں تو ضرورت ایسی قیادت کی ہو گی جو نہ صرف پر عزم ہو بلکہ حوصلے کے ساتھ جرأت مندانہ فیصلے بھی کر سکے، سیاسی طور پر قابل قبول بھی ہو۔ ایسے قد کاٹھ اور عزم والی شخصیات موجودہ اسمبلی میں فقط دو ہیں، ایک چکری کے چوہدری نثار علی خان(جو اسٹیبلشمنٹ کے قریب بھی ہیں) اور دوسری عمران خان۔ عمران خان یہ تو ضرور چاہتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب اپنے منطقی انجام تک پہنچے مگر ان کے بطور قابل قبول شخصیت پر سوالیہ نشان ہے۔ رہی بات پارلیمانی اکثریت کی تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ اگر میثاق جمہوریت کے تحت میوزیکل چیئر کا کھیل رچایا جا سکتا ہے تو آپریشن ضرب عضب کیلئے اکثریت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔دیکھتے ہیں پردہ غیب سے کیا نمودار ہوتا ہے اور اقتدار کا ہما اب کس کے سر سجتا ہے‘‘۔ 
چوہدری نثار تو توقعات پر پورا نہیں اتر سکے مگر اس دوران پیپلز پارٹی کے پنجاب میں غیر متحرک ہونے کے باعث تحریک انصاف دن بدن مقبول ہوتی گئی اور عمران خان ہی مقتدرہ کیلئے متبادل بن گئے۔ یہاں مسئلہ پھر وہی سامنے آیا کہ تحریک انصاف کو بھی واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی اور اسے اتحادی حکومت بنانا پڑی۔ حکومت وقت کیلئے سب سے بنیادی مشکل، بدحال معاشی صورتحال ہے جس کی ذمہ دار گزشتہ تمام بد نیت و بدطینت حکومتیں رہی ہیںجنہوں نے غیر ترقیاتی منصوبوں کیلئے بے تحاشہ قرض حاصل کئے،جن کی اقساط دینے کیلئے قومی خزانہ ناکافی ہے ۔ دوسری طرف شخصیت پرست پورے معاشی نظام پر قابض ہیں ۔قرضوں کی تفصیلات ذرائع ابلاغ پرموجود ہیں اور سب جانتے ہیں کہ پچھلی مسلم لیگی حکومت نے تقریباً 35 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا ،جو کمزور معیشت کو مزیدبدتر صورتحال سے دوچار کر گیا ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ان قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کیلئے موجودہ حکومت کو عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔ حزب مخالف جماعتیں،اس ساری صورتحال پر حکومت وقت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں اور قبل از انتخابات ان دعوؤں کو نشر کر رہی ہے جو عمران خان نے کئے تھے۔ اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ جب تک حقائق سامنے نہ آئیں ایسے دعوے کرنا ،خود مصیبت کو دعوت دینا ہے،آ بیل مجھے مار والی صورتحال کا شکار کرنا ہے،جو موجودہ حکومت کر چکی ہے۔ اصل مسئلہ مگر دوسرا ہے کہ کیا عمران خان اپنی تمام تر نیک نیتی (جس کے دعوے کئے جاتے رہے ہیں) کہ باوجود ملک کو موجودہ صورتحال سے نکال پائیں گے یا ملک مزید ابتری کا شکار ہو جائیگا؟قوانین اور عدالتی نظام لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کیلئے متحرک تو ہے مگر کیا یہ بروقت واپسی ممکن ہو سکے گی جو ملک کو معاشی دلدل سے نکال سکے؟مخالف سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین کسی صورت نہیں چاہیں گے کہ عمران اپنے مقصد میں کامیاب ہوں اور ملک بہتری کی جانب سفر شروع کر سکے تو دوسری طرف پارلیمنٹ کے اندر صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے کہ اڑھائی مہینے کی حکومت کے نہ صرف حلیف ساتھ چھوڑنے کیلئے پر تول رہے ہیں بلکہ اس امر کا خدشہ بھی موجود ہے کہ وہ سیاسی پرندے جو سٹیٹس کو ،کو برقرار رکھنے کیلئے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے،وہ بھی ساتھ چھوڑ جائیں۔ اس صورتحال کے پس منظر میں کیا عمران اسمبلی توڑیں گے یا قیادت کی تبدیلی اسی اسمبلی میں سے ہو گی؟مقتدر قوتوں کو اب احساس ہو جانا چاہئے کہ اس طرح کی ہنگ پارلیمنٹ کسی بھی صورت ملک کے مفاد میں نہیں ہو سکتی اور نہ ہی حکومت یکسوئی کے ساتھ امور سر انجام دے سکتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ سیاسی عمل کو ،سخت قوانین اور اداروں کے اختیارات کے عین مطابق ،بغیر کسی مداخلت کے روبہ عمل ہونے کا موقع دیا جائے۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں