Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسجد ، زمین پر اللہ تعالی کا گھر

  

مسلمان جب تک مساجد سے جڑے رہے خیرو بھلائی پر رہے،ہمارے اکابر واسلاف مساجد کو آباد کرنے پر خاص توجہ دیتے تھے

 
* *    مولانا نثار احمد حصیر القاسمی۔حیدرآباد دکن * *
اسلام میں مساجد کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ اللہ کا گھر ہے، روئے زمین کا یہ سب سے افضل وبرتر اور مقدس خطہ ہے۔ اس جگہ رات ودن اور صبح وشام اللہ کو یاد کیا جاتا ہے۔یہاں ایسے لوگ آتے ہیں جو اللہ کی اطاعت وبندگی کرنے والے ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
     ’’ وہ نور ملتا ہے ایسے گھروں میں جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے، ان میں صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں اللہ کی یاد اقامت نماز اور ادائیگی زکاۃ سے نہ کوئی سوداگری غفلت میں ڈال سکتی ہے اور نہ ہی کوئی خرید و فروخت ان کے آڑے آسکتی ہے، وہ ڈرتے رہتے ہیں ایک ایسے ہولناک دن سے جس میں الٹ دئیے جائیں گے دل اور پتھرا جائیں گی آنکھیں۔ ‘‘(النور37,36)۔
    مسجدیںمسلمانوں کے حالات کو بدلنے میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔مسجدیں مسلمانوں کو شقاوت وبدبختی سے نکال کر سعادت وخوش بختی کی دہلیز پر پہنچا دیتی ہیں۔ تنگی واضطراب اور بے چینی سے نکال کرخوشحالی اور چین وسکون کی فضا میں پہنچا دیتی ہیں۔ مساجد کی حاضری سے مسلمانوں کے دل نرم اور صاف وشفاف ہو جاتے ہیں، ان کے دلوں پر اگر گناہوں اور معصیتوں کا زنگ چڑھا ہوتا ہے تو اسے صاف کر کے اسے مانجھ دیتے ہیں۔یہاں اللہ کی رحمتیں برستی اور یہاں موجود فرشتے ان پر اپنے پروں سے سایہ کرتے ہیں۔مسجدیں مسلمانوں کی تربیت کی بہترین جگہ ہے، یہاں مسلمانوں کو اخوت وبھائی چارگی اور مساوات وبرابری کا درس دیا جاتا ہے۔سارے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے، ایک صف میں کھڑے ہوتے اور ایک امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں۔یہاں مالک وخادم، مالدار ونادار، غنی وفقیر، عالم وجاہل، پیرومرشد اور مرید وعام انسان ، حاکم ومحکوم اور شاہ و گدا کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا بلکہ سب کے سب اللہ کے سامنے اسی طرح برابر ہوتے ہیں، جس طرح قبرستان میں سب برابر ہوتے ہیں، ان میں کسی کو کسی کے اوپر کوئی برتری نہیں ہوتی، ہاں اسلام میں برتری کی وجہ صرف اور صرف تقویٰ وپرہیزگاری ہے، جس کا تعلق قلب سے ہے اور اس کا اظہار اعضاء وجوارح سے عبادات ومعاملات میں ہوتا ہے۔ یہ مسجدیں ہمیں سبق دیتی ہیں کہ ہم اپنے سماج اور اپنے ملک وشہر میں برابری کے ساتھ رہیں، ایک دوسرے سے متحد اور جڑے رہیں،کوئی ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرے اور نہ ہی حسب ونسب، جاہ ومنصب اور عہدہ وعمل کی بنیاد پربرتری جتائے۔بلا شبہ مسجد اسلام کی عظیم درسگاہ ہے جو سماجی اصلاح اور شہری فلاح کے مقصد سے قائم کردہ تنظیموں، کمیٹیوں اورسوسائٹیوں سے ہزار ہا درجہ برتر وبہتر ہیں۔ہماری اپنی قائم کردہ تنظیموں کے بارے میں ہمارا تاثر ہوتا ہے کہ سماجی اصلاح کیلئے یہی ا دارہ سب سے بہتر ہے اور وہی بہتر خدمات پیش کر رہی ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ سماج کی اصلاح اور انہیں ہر طرح کی خرابیوں سے پاک کر کے سیدھے ڈگر پر لانے والی اگر کوئی بہتر سے بہتر درسگاہ ہو سکتی ہے تو وہ مسجد ہے۔
    ہم اگر معاشرہ کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے مساجد کے رول کو واپس لانا ہوگا۔ یہ مسجدیں معاشرہ کے افراد کی روحانی تربیت کرتی ہیں، بندوں کو اللہ سے جوڑتی اور انہیں اللہ کے رنگ میں رنگتی ہیں۔ ’’ ومن أحسن من اللہ صبغۃ‘‘ اور اللہ کے رنگ میں رنگنے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے؟
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے مسجد تعمیر کرنے کی طرف توجہ دی۔ نومولود مملکت کی شیرازہ بندی اور لوگوں کو مجتمع کرنے کے لئے مسجد قائم کی گئی۔مسجد کا رول صرف اس حد تک محدود نہیں کہ مسلمان وقت پر آئیں اور باجماعت نماز ادا کر کے یہاں سے رخصت ہو جائیں اور مسجدیں مقفل کر دی جائیںبلکہ اس کا مقصد اس کے ساتھ ہی امت کی شیرازہ بندی کرنا ، ملک میں امن وامان کی فضاء قائم کرنا، دلوں کو جوڑنا، آپس میں میل محبت اور جذبہ احترام پیدا کرنا، اخوت وبھائی چارگی کو پروان چڑھانا، ہمدردی وغمگساری اور رحمدلی وتعاون کا ولولہ پیدا کرنا اور مسلمانوں میں اسلام کی روح پھونکنا ہے۔ ایک مسلمان جب مسجد آتا اور ایک امام کے پیچھے دیگر مسلمان بھائیوں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا اور قدم سے قدم ملا کر نماز پڑھتا اورخطیب کے خطبہ کو سنتا ہے تو اس سے اس کے اندر اسلام کے اونچے اقدار پروان چڑھتے اسلام کی عظمت اور اس کی صاف ستھری تہذیب کا احساس پیدا ہوتا اور عفوودرگزر، میل ملاپ، بھائی چارگی، امن وسلامتی اور خوشگوار ماحول کی فضاء قائم کرنے کا رجحان اُجاگر ہوتا ہے۔جب انسان ہشاش وبشاش چہرے سے دوسروں سے ملتا، مصافحہ کرتا اور معانقہ کرتا ہے تو فطری طور پر دلوں سے کدورتیں، رنجشیں اور فاصلے دور ہوتے ہیں اور الفت ومحبت پیدا ہوتی ہے۔ اسلامی دور حکومت میں ہر جگہ مسجدوں کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔اسے مسلم سماج کے افراد کی اصلاح و تربیت کے مرکز اوراصلاح باطن وتزکیہ نفوس کے حلقوں کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اس کی زندہ مثال خود مسجد نبویؐ ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہاں آتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقۂ درس میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے، تزکیہ کرتے اور روحانی ترقی کے مدارج طے کرتے تھے۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دین ودنیا سے متعلق جو چاہتے سوال کرتے اور اس کا جواب پاتے تھے۔ یہ مسجد ساری انسانیت کے لئے سرچشمہ نورِ ہدایت بنی۔ اس درسگاہ سے بڑے بڑے علماء، قد آور ہستیاں، عظیم قائدین، جنریل اور بے مثال سپہ سالار اور ماہرین فن  نے فراغت حاصل کر کے دنیا کو روشنی پہنچائی، امن وآشتی کے علمبردار اسلام کا جھنڈا بلند کیا، اس دین متین کو دنیا کے چپہ چپہ تک پہنچانے میں ناقابل فراموش رول ادا کیا۔ اس نمونے کے مطابق دنیا کی مسجدوں میں حلقۂ درس اور افادہ واستفادہ کا سلسلہ جاری ہوا۔پہلے باضابطہ مدارس نہیں تھے، یہی مسجدیں درسگاہوں کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھیںاور اب بھی ہو رہی ہیں۔ علماء مختلف مساجد کے اندر جگہ کا انتخاب کرتے اور حلقہ درس لگایا کرتے تھے۔تاریخ شاہد ہے کہ ایک زمانہ میں بغداد، قاہرہ، قیروان، قرطبہ، دمشق ، موصل اور دوسرے اسلامی ملکوں کے مختلف شہروں کی مسجدیں تعلیم وتعلم اور علم ومعرفت کے گہوارے بنتے گئے،جہاں24 گھنٹے تعلیم وتعلم اور بحث وتحقیق کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔پوری اسلامی تاریخ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علم ومعرفت اور تہذیب وثقافت کو پھیلانے اور عام کرنے میں مساجد ہی کا اہم کردار رہا ہے اور جب تک مساجد کو مرکزیت حاصل رہی اسلام کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا اور جب تک مسلمان مساجد سے جڑے رہے ان کا بول بالا اور دبدبہ رہا ہے۔      مساجد جس طرح علم ومعرفت اور بحث وتحقیق کے مراکز رہے ہیں، اسی طرح یہاں حلم وبردبار، نرمی ورواداری اور اُخوت وبھائی چارگی سکھائی جاتی اور شدت پسندی وسختی سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد نبوی ؐکے صحن کے ایک گوشہ میں پیشاب کر دیا، تو لو گ سختی کے ساتھ اسے روکنے کیلئے آگے بڑھے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’اسے چھوڑ دو ،اس پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو، کہ تمہیں آسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے، دشواری پیدا کرنے والا بنا کر نہیں۔‘‘(بخاری)۔
    مسجدیں مسلمانوں کو تقویٰ وطہارت اختیار کرنے پر آمادہ کرتی ہیں، وہ انہیں یاد دلاتی ہیں کہ وہ اپنے جسم وجان اور قلب وذہن کو پاک کر کے ہی مسجد میں داخل ہوا کریں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    ’’ آپ اس (نام نہاد مسجد)میں کبھی کھڑے بھی نہ ہوں، البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، وہ اس کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیںاور اللہ پسند کرتا ہے پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو۔‘‘(التوبہ108)۔
    مسجدوں کی حاضری وپابندی، اور اس کا التزام بڑا ہی بابرکت اور باعث خیر عمل ہے اور یہ انسان کی مغفرت کا سبب بنتا ہے، اسی لئے اگر کوئی نمازوںمیںمسجد آتا اور پابندی سے باجماعت نماز ادا کرتا ہے ، ہم کسی لیت ولعل اور تردد کے بغیر اس کے ایمان کی گواہی دے سکتے ہیں کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
    ’’ اللہ کی مسجدوں کو تو وہی لوگ آباد کر سکتے ہیںجو ایمان رکھتے ہوں اللہ پر اور قیامت کے دن پر، جو قائم رکھتے ہوں نماز کو اور ادا کرتے ہوں زکاۃ اور وہ کسی سے نہ ڈرتے ہوں سوائے اللہ کے، سو ایسے لوگوں کے بارے میں امید ہے کہ وہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوں گے۔‘‘(التوبہ18)۔
    تاریک راتوں ، ناہموار راستوں اور گوناگوں ظاہری دشواریوں کے باوجود اگر کوئی ان مشقتوں کو برداشت کرتے ہوئے نماز کے لئے مسجد پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ثواب میں گوناگوں اضافہ کرتا ہے، اسے دنیا میں بھی اجردیتا ہے اور قیامت کے دن اس کے لئے ایسی روشنی کا انتظام کر دیتا ہے جس کی روشنی میں وہ چلے گا اور یہ روشنی اس کی راہوں کو روشن کئے رہے گی، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
    ’’تاریک راتوں میں مساجد کی طرف قدم بڑھانے اور پیدل چل کر آنے والوں کیلئے قیامت کے دن مکمل نور کی خوشخبری ہے۔‘‘(ترمذی)۔
    مسلمان جب تک مساجد سے جڑے رہے خیرو بھلائی پر رہے۔ہمارے اکابر واسلاف مساجد کو آباد کرنے پر خاص توجہ دیتے تھے، ہر نماز میںمسجد کی حاضری کو ضروری سمجھتے تھے، ان کے دل مسجدوں میں معلق ہوتے تھے، یہاں نماز کے علاوہ دروس اور وعظ ونصیحت کی محفلیں سجی ہوتی تھیں، ایک رونق ہوتی تھی جو دلوں کو تازگی پہنچانے والی تھیں، منبروں سے چوٹی کے علماء وفضلاء فقہاء ومحدثین کے بیانات کی صدائیں گونجتی تھیں، جس سے مسلمان اور دیگر برادرانِ وطن مستفید ہوتے تھے۔
    آج مسجدیں برائے نام رہ گئی ہیں۔مسجدیں مسلمانوں کی زبوں حالی پر نوحہ کنا ہیں۔آج مسلمان ہوٹلوں میں، پارکوں میں گلیوں میں، لہوولعب کے مقامات پر، ڈانسوں اور ناچ گانے کی محفلوں میں، سنیما گھروں میں، ٹی وی کی سیریلوں کے مشاہدہ میں، واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر دل بستگی میں گھنٹوں ہی نہیں پوری پوری رات گزار دیتے ہیں اور یہ ان کیلئے بار گراں نہیں ہوتامگر مسجد میں آکر آدھا گھنٹہ بیٹھنا، وعظ ونصیحت سننا، فرض سے پہلے یا بعد میں سنن ومستحبات پڑھنا، ذکر واذکار اور تلاوت کرنا بڑا ہی شاق اور گراں گزرتا ہے۔ یہ مسلمانوں کی بڑی بدنصیبی اور ان کے زوال کی علامت ہے۔مساجد سے بے توجہی ہی کے نتیجہ اور اسے ویران کرنے ہی کے سبب ہماری مسجدیں منہدم کی جارہی ہیں، انہیں اصطبل خانوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے، انہیں مندروچرچ بنایا جارہا ہے اور اب عدالت عالیہ سے بھی یہ فرمان حاصل کیا جارہا ہے کہ اسلام کیلئے اور مسلمانوں کیلئے مساجد کی کوئی اہمیت وضرورت نہیں۔ہم اگر اپنی مسجدوں کو آباد رکھتے تو کبھی ہمیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج فرض نماز ختم ہوتے ہی مسجدوں کو مقفل کردیا جاتا ہے، جیسے یہ مسجدیں صرف فرض نماز کے لئے ہی بنائی گئی ہوں، اس کا کوئی اور رول اور اسے انسانی سماج کی اصلاح میں کوئی دخل ہی نہ ہو۔
    آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسجد کے رول کو زندہ کیا جائے، امت کی اصلاح کیلئے اسے وہی مرکزیت دی جائے جو دور صحابہ، تابعی تبع تابعی سلف صالحین مسلم حکمرانوں اور شاہ ولی اللہ وشاہ عبدالعزیز اور سید احمد شہید کے زمانہ میں حاصل رہی ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم اس کے ذریعہ مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کی طاقت وتوانائی کو یکجا کریں اور اسے امت مسلمہ کی اصلاح وسربلندی ، ملک وملت کی بھلائی اور وطن عزیز کی خیر خواہی اور امن وامان کی فضاء قائم کرنے میں استعمال کریں۔
    آج مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ عام انسانوں کو ایسی جگہوں کی تلاش ہے، جہاں ان کے دل کو اطمینان وسکون مل سکے، ان کے نفس کو راحت پہنچے۔ اسی مقصد سے اور انہی چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے لوگ پارکوں، تفریح گاہوں، ہوٹلوں، سنیما گھروں اور کلبوں کا رخ کرتے ہیںتاکہ وہ شب وروز کی محنت اور کاروباری زندگی کی مشغولیتوں کی تکان کو دور کر سکیں، بے فکری سے چند روز اور کچھ وقت گزار کر کچھ راحت وسکون حاصل کر سکیں، اپنی روح اور ضمیر کو فرحت وانبساط سے بہرہ ور کر سکیں۔یہی چیز حاصل کرنے کیلئے کچھ لوگ ڈاکٹروں کا رُخ کرتے ہیں، دل کا علاج کرانے اور ٹینشن و ڈِپریشن کا مداوا کرنے کی سعی کرتے ہیںاور لوگ اس کے علاوہ بھی طرح طرح کی تدبیریں اختیار کرتے ہیں، مگر انہیں مایوسی ہوتی ہے، انہیں وہ چین وسکون کہیں حاصل نہیں ہوتا اور اگر ہوتی بھی ہے تو عارضی وچند روزہ، پائیدار نہیں۔یہ راحت وسکون اور اطمینان قلبی انسان کو اِدھر اُدھر نہیں بلکہ مسجد میں اور اللہ کا ذکر کر کے حاصل ہو سکتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب (رعد28) ۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نادار وغریب مسلمان مسجد نبویؐ ہی میں رات گزارا کرتے تھے۔انہیں اصحاب صفہ کے نام سے ہم جانتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میںمساجد کی حیثیت کیا ہے؟ یہ صرف پنچ وقتہ نماز ہی کیلئے نہیںبلکہ یہ درسگاہ بھی ہے اور دعوت وتبلیغ کا مرکز بھی، یہ مسلمانوں کے صلاح وفلاح اور امور سیاست کی انجام دہی کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے اور سماجی تعاون کی کونسل بھی، یہ مسلمانوں کے درمیان الفت ومحبت پیدا کرنے کا ادارہ بھی ہے اور ان کی ضروریات کا انتظام کرنے کا سینٹر بھی، زکوٰۃ وصدقات جمع کر کے اسے فقراء ومساکین کے درمیان تقسیم کرنے کی جگہ بھی ہے اور مسلمانوں کی معاشی ،سیاسی اور سماجی ترقی کی رصدگاہ بھی اسی لئے اسلام نے مسجد یں تعمیر کرنے اور اسے آباد کرنے پر بہت زور دیا ہے۔اسے ذکر واذکار، نماز اورتلاوت قرآن کیلئے بھی آباد کیا جا سکتا ہے اور حلقۂ درس اور دعوت و تبلیغ کے ذریعہ بھی۔ اسلام نے مسلمانوں کی زندگی میں مساجد کے رول کو اجاگر کیا اور مساجد کے رول کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کرنے کو تخریب کاری سے تعبیر کیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    ’’اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اسکے(پاک) نام کے ذکر سے روکے، اور انکی ویرانی کی کوشش کرے؟ ایسوں کو تو ان (پاکیزہ مقامات)میں داخل ہونے ہی کا حق نہیں الا یہ کہ یہ لوگ ان میں داخل ہوں (اس کی عظمت و کبریائی سے) ڈرتے(اورکانپتے)ہوئے،ان کیلئے دنیا میں بڑی رسوائی ہے اورآخرت میںبہت بڑا(اور ہولناک)عذاب۔‘‘(البقرہ114)۔
    اسلام نے مساجد تعمیر کرنے، اس کی ضروریات کی تکمیل کرنے اور طاعت وبندگی کے ذریعہ اسے آباد کرنے والوں کی تعریف کی اور بڑے ثواب کی خوشخبری دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ’’ وہ نور ملتا ہے ایسے گھروں میں جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے، ان میں صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں، ایسے لوگ جنہیں اللہ کی یاد، اقامت نماز اور ادائیگیٔ زکاۃسے نہ کوئی سوداگری غفلت میں ڈال سکتی ہے اور نہ ہی کوئی خرید و فروخت ان کے آڑے آسکتی ہے، وہ ڈرتے رہتے ہیں ایک ایسے ہولناک دن سے جس میں الٹ دئیے جائیں گے دل اور پتھرا جائیں گی آنکھیں۔ ‘‘( النور37,36)۔
    اس آیت کے اندر مسجد تعمیر کرنے وکھڑی کرنے کیلئے نہیں کہا گیا بلکہ رفع اور بلند کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ مسجدیں اللہ کے دین کے شایان شان ہو، یہ مناسب نہیں کہ ہماری رہائشی عمارتیں اور ہمارے گھر تو عالیشان ہوں اور مسجدیں معمولی بلکہ اسے اس سے زیادہ بہتر اور عمدہ ہونی چاہئے۔ اگر ایسا ہے تو یہ شعائر اللہ کی تعظیم کے قبیل سے ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  
    ’’ یہ بات بھی بطور ایک قاعدہ کلیہ کے ہوچکی اور مزید سنو کہ جس نے تعظیم وتکریم کی اللہ کے مقررہ کردہ شعائر اور اس کی قائم فرمودہ یادگاروں کی تو یقینا یہ بات دلوں کے تقویٰ میں سے ہے۔‘‘(الحج32)۔
(جاری ہے)
مزید پڑھیں:- - -  -اسلام میں بیٹی کا مقام اور بے دست و پا حکایات

شیئر: