Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آخر میں بس ایک جانوررہ جائے گا

***تحریر۔وسعت اللہ خان ***
یورپ میں بلیاں نہیں پائی جاتی تھیں۔رومنوں نے جب مصر فتح کیا تو وہاں سے بلیاں روم لائی گئیں اور پھر ملائم بالوں والی ریشمی بلیاں اشرافیہ کا اسٹیٹس سمبل بن گئیں۔چند سو برس بعد روم عیسائی ہوگیا اور پاپائے روم کا سکہ ہر جانب چلنے لگا۔جانے کیوں یہ عقیدہ بارہویں و تیرہویں صدی کے دوران عام لوگوں میں پھیلتا چلا گیا کہ بلیاں منحوس اور شیطان کی چیلی ہوتی ہیں۔چنانچہ بلیوں کا صفایا ہونا شروع ہوگیا۔چودھویں صدی میں یورپ کو طاعون نے آ لیا اور سات برس 1346-53میں اس کالی موت نے یورپ کی ایک تہائی آبادی صاف کردی۔ اس دور کے طبیب یہ تو جانتے تھے کہ طاعون مکھیوں سے پھیلتا ہے لیکن مکھیاں طاعونی جراثیم کس جانور سے حاصل کرتی ہیں یہ نہیں معلوم تھا۔چنانچہ جتنے کتے اور بلیاں باقی بچے تھے انہیں یہ سمجھ کے ہلاک کردیا گیا کہ ہو نہ ہو ان پر بیٹھنے والی مکھیاں ہی طاعون پھیلا رہی ہیں۔پھر کسی نے غور کیا کہ جن لوگوں نے دور دراز علاقوں میں چوری چھپے بلیاں پالی ہوئی ہیں ان میں سے بہت کم طاعون کی زد میں آئے۔چنانچہ یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ طاعون کا سبب وسطی ایشیا سے براستہ شاہراہِ ریشم تجارتی مال کے ساتھ جہازوں پر چڑھ  آنے والے سیاہ چوہے ہیں جو اپنے ساتھ طاعون لائے ہیں۔جیسے جیسے یہ خبر عام ہونے لگی بلیوں کی قدر اور مانگ میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔اگلی تین صدیوں میں یورپ میں تواتر کے ساتھ جگہ جگہ طاعون پھیلا مگر چودھویں صدی میں جیسا براعظم گیر طاعون  پھر کبھی نہ لوٹا۔
گدھ کو بھلے آپ کتنا ہی بدنام کریں مگر یہ قدرت کے سینٹری ورکرز ہیں۔یہ آبادیوں اور جنگلوں میں مرنے والے جانوروں کی صفائی پر مامور ہیں۔اگر جانوروں کے ڈھانچے یونہی پڑے رہیں تو وہ انسانی صحت کے لئے قاتل ہیں۔90کے عشرے میں افریقہ اور جنوبی ایشیا میں گدھ اچانک مرنے شروع ہوگئے۔صرف دس برس میں افریقہ میں گدھ کی 10نسلوں میں سے چھ ناپیدگی کی کگار پر پہنچ گئیں جبکہ پاکستان ، ہنداور نیپال میں ننانوے فیصد گدھ آبادی غائب ہوگئی۔2003 میں پتہ یہ چلا کہ مویشیوں میں سوزش کی بیماری کے علاج کے لئے ڈائکلوفینک نامی جو دوا استعمال کی جاتی ہے وہ گدھ کی موت کا سبب ہے۔کوئی مویشی جسے ڈائکلو فینک استعمال کروائی گئی ہو مر جائے تو گدھ اس کا گوشت کھا کر اپنے گردے فیل کر بیٹھتا ہے اور مر جاتا ہے۔چنانچہ2006میں ہند ، پاکستان اور نیپال نے اس دوا کی تیاری پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد گدھ مرنا تو کم ہوگئے مگر انہیں اپنی سابق تعداد پر پہنچنے کے لئے اب کئی عشرے درکار ہیں۔تاہم ڈائکلو فینک افریقہ میں دستیاب ہے اور یورپی یونین کے پانچ ممالک میں بھی قانونی خامیوں کے سبب استعمال ہو رہی ہے۔ان ممالک میں اٹلی اور اسپین بھی شامل ہیں جہاں یورپ کی 90فیصد گدھ آبادی پائی جاتی ہے۔
جب سے جنوب مشرقی ایشیا میں یہ تاثر عام ہوا ہے کہ چیونٹی خور ( پینگولین ) کا گوشت مفید ہے اور روائیتی چینی ادویات کے لئے اس کی بہت مانگ ہے ، اس کے جسم کو ڈھانپنے والے بڑے بڑے چھلکوں کا سفوف دودھ پلانے والی ماؤں کے لئے فائدہ مند ہے اور بلٹ پروف جیکٹس میں بھی یہ چھلکے استعمال ہو سکتے  ہیں تب سے بچارے چیونٹی خور کی شامت آ گئی ہے۔چین ، لاؤس ، ویتنام اور کمبوڈیا میں چیونٹی خور کا صفایا ہوچکا ہے۔اپریل2013ء میں فلپینز کے ساحل پر ایک جہاز چٹانوں سے ٹکرا گیا۔اس میں افریقی چیونٹی خور ( کیمرون ، نائجیریا ، گھانا ) کا 12ہزار کلو گرام گوشت لدا ہوا تھا۔جہاز کے عملے کے بارہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔انہیں 12برس کی قید اور 3 لاکھ ڈالر فی کس کی سزا مل سکتی ہے کیونکہ چیونٹی خور کو بقائی خطرے سے دوچار جانوروں کی سرخ عالمی فہرست میں داخل کر دیا گیا ہے۔2016ء کے دوران 18ممالک میں چیونٹی خور کے 18ہزار ٹن چھلکوں کی غیر قانونی کھیپ پکڑی گئی ہے۔ایک کلو گرام چھلکے حاصل کرنے کے لئے 3 سے 4چیونٹی خور مارنے پڑتے ہیں۔اس وقت دنیا میں غیر قانونی جانوروں کا جتنا گوشت فروخت ہو رہا ہے ان میں سے 20 فیصد صرف چیونٹی خور کا ہے۔پچھلے 10 برس کے دوران دنیا بھر میں ایک ملین سے زائد چیونٹی خوروں کا شکار کیا گیا۔
پاکستان میں 5 برس پہلے تک چیونٹی خور پوٹھوہار کے جنگلات میں وافر پایا جاتا تھا مگر اب 84فیصد غائب ہوچکا ہے۔اس کا گوشت اور چھلکے چین اسمگل کئے جاتے ہیں۔شکاری کو ایک مردہ چیونٹی خور  10 سے 30ہزار روپے میں پڑتا ہے اور پھر اسمگلر اسے ڈالروں میں بیچتا ہے۔پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت چیونٹی خور کے شکار پر دو سے 5برس قید اور10ہزار روپے جرمانہ ہے۔تاہم عملی صورتِ حال یہ ہے کہ جرمانہ لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
یہ مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ اس کرہِ ارض کا ہر جانور ، چرند پرند حیاتیاتی دائرے کی اہم کڑی ہے۔ایک بھی کڑی ٹوٹ جائے تو نظام گڑ بڑا جاتا ہے۔یہ جانور زمین صاف کرتے ہیں ، انسان کے لئے مضر حشرات و الارض کو قابو میں رکھتے ہیں۔زمین کی زرخیزی کا سبب بنتے ہیں اور دل بہلاتے ہیں۔مگر انسان دوست جنگلی حیات کا سب سے بڑا دشمن خود انسان ہے۔
صرف 15فیصد کرہِ ارض ایسا ہے جہاں جنگلی حیات نسبتاً محفوظ ہے۔85فیصد کرہِ ارض کے جانوروں کو لذیز گوشت کے متلاشیوں ، شکاریوں ، کھال کو فیشن کی صنعت میں استعمال کرنے والوں اور غیر سائنسی دوا سازوں بالخصوص مردانہ قوت بڑھوانے کے دعویداروں سے خطرہ ہے۔ مسلسل انسانی مداخلت ، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کی آلودگی کے سبب پچھلے 42برس میں 81فیصد آبی مخلوق ختم ہو چکی ہے۔اور اب سمندر خالی کئے جا رہے ہیں۔
آخری نتیجہ یہ نکلنے والا ہے کہ انسان ہر متحرک شے ہضم کرنے یا تباہ کرنے کے بعد تنہا کھڑا ہوگا اور کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ویسے بھی قاتل کے ساتھ کون کھڑا رہ سکتا ہے اور وہ بھی خالی الذہن قاتل۔
 

شیئر: