Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اساتذۂ کرام ، عظیم نعمت

 جس طرح والدین کی گستاخی کرنا گناہ ہے، اسی طرح اپنے مربی اساتذہ کرام کا ادب واحترام نہ کرنے والا گستاخ ہے
* * *حافظ امیر حمزہ ۔سانگلہ ہل* *  *

اساتذہ کے بغیر معاشرہ جانوروں کی طرح ہے۔اساتذہ معاشرے میں نمک کی مانند ہیں۔جیسے ہر سالن میں نمک کی ضرورت ہوتی ہے ،ایسے ہی معاشرے میں اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے، گویااساتذہ ایک طالب علم کو علم سیکھاتے ہوئے معاشرے کی ساخت اور شکل وصورت بناتے ہیں۔
     اساتذۂ کرام ،خواہ وہ دینی علوم سے آراستہ کرنیوالے ہوں یامختلف علوم وفنون سے آشناکرنیوالے ہوں،سبھی ادب واحترام کے لائق ہیں۔دنیا میں جو بھی آیا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اسے دینی اور عصری علوم دونوں کی ضرورت رہتی ہے اس لیے ان علوم وفنون سے آشناکرنے والے اساتذۂ کرام کاادب و احترام کرنابے حدضروی ہے۔
    اساتذہ کرام اپنے علم اور تجربے سے طالب علم کو ایسے ایسے گر سکھا دیتے ہیں اور وہ کچھ پڑھا اورسمجھادیتے ہیں کہ اگرطالب علم خود اسے حاصل کرنے کے لیے سفر طے کرنے لگے تو اس کی زندگی کاکافی حصہ بیت جائے اس لیے اساتذۂ کرام اس دنیا میں وہ ہستیاں ہیں جو نونہالانِ قوم کو تعلیم دیتے ہوئے علم وفضل کی بلندیوں تک پہنچادیتے ہیں۔
    کیا ہم نے کبھی سوچانہیں؟کہ آج ہم جو پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہوئے اور اس کی وجہ سے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے ہیں وہ اللہ تعالی کے فضل وکرم کے بعداساتذۂ کرام کی شفقتوںاور دعاؤں کا نتیجہ ہے۔  طالب علم اور استاد دونوں لازم ملزوم ہیں ،دونوں کا یہ روحانی رشتہ بہت گہرا رشتہ ہے۔ جس طرح والدین کی گستاخی کرنا گناہ ہے، اسی طرح اپنے مربی اساتذہ کرام کا ادب واحترام نہ کرنے والا گستاخ ہے اور ایسی ہستیوں کی عزت و توقیر کرنا ضروری ہے ۔صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور محدثین عظام وغیرھم نے اپنے اساتذہ کرام کے ادب و احترام میںایسے ایسے کارنامے سرانجام دیئے ہیں کہ آج کا طالب علم سن کر دنگ رہ جاتا ہے۔
     امام ؒالمحدثین ،سید الفقہاء حضرت ابو ہریرہ ؓ امام کائنات سے علم حاصل کرنے لیے جاتے تو آپ کے دروازے اور آپکی راہ میں بیٹھ جاتے تھے۔ اگر آپ  سو رہے ہوتے تو تعظیماًاٹھاتے ہی نہ کہ کہیں معلم اعظمکی گستاخی نہ ہوجائے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںـ:
    ’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا ،میںاس کاغلام ہوں،اب وہ چاہے مجھے بیچے ،آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔ ‘‘
    امام حمادبن سلیمان رحمہ اللہ اپنے عہد کے بڑے محبوب اساتذہ میں سے تھے۔ان کے ایک شاگرد حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔ان کاگھراپنے استادمحترم کے گھر سے 7 گلیوں کے فاصلے پر ہے لیکن امام صاحب کااپنے استاد محترم کے بارے ادب واحترام دیکھئے کہ استاد کے گھر کی جانب کبھی پاؤں کر کے نہ سوتے تھے کہ کہیں استادمحترم کی توہین نہ ہوجائے اوردوران درس کبھی استادمحترم کا بیٹا آجاتا توامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ احترام میں کھڑے ہوجاتے۔
    امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کا اپنے استاد سے ادب دیکھئے، کہتے ہیں:
     ’’میں علم حاصل کرنے کے لیے اپنے استاد عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کے پاس آتا اور میں دروازے پر ہی بیٹھ جاتا تھا ۔کہتے ہیں کہ میں اندر جا سکتا تھا لیکن ان کی عزت اور ادب و احترام کے پیش نظر میں دروازے پر ہی بیٹھا رہتا۔‘‘
    امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’ اساتذۂ کرام کاحق والدین کے حق پر فوقیت رکھتا ہے وہ اس طرح کہ باپ تو انسان کے ظاہری وجود کی اس فانی زندگی کا باعث ہوتا ہے جبکہ حقیقی اور باقی رہنے والی زندگی کاباعث استاد ہو گا،اسی طرح استاد اپنے شاگرد کو دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ کراتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے کامیاب ہو جائے۔ ‘‘
    اساتذۂ کرام کے احترام ومقام میں ایک عربی شاعربڑے اچھے اندازسے نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے:
    ’’جب کوئی شخصیت تمہیں علمی فائدہ پہنچائے تو اس کے ہمیشہ شکر گزاررہو ،دعا مانگو کہ اے اللہ! فلاں شخصیت کو جزائے خیر دے کہ انھوں نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے اور فخر وحسدکو اپنے آپ سے بالکل نکال دو‘‘۔
     مزیداہمیت کو واضح کرتے ہوئے شاعرِ مذکورآگے کہتاہے :
    ’’استاد روح کا مربی ہے اور روح ہی تو اصل چیز ہے جبکہ باپ بدن کا مربی ہے‘‘۔
    دراصل یہی احساس اساتذہ کے ادب واحترام پر ابھارتا ہے اور اگر علم بہت بڑی دولت ہے تواس علم سے آشنا کرنیوالے بھی بہت بڑی نعمت ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اساتذۂ کرام کے ادب و احترام کاہر لحاظ سے خیال رکھا جائے،ان سے بے پروا نہ ہوا جائے اوران کے لیے دعائیں کی جائیں ۔

مزید پڑھیں:- - - -جمہور کی حاکمیت ، اسلام میں گنجائش ہے ؟
 

شیئر: