Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جشنِ آمدِبہار،کتنے ہی گھروں کو خزاں کی نذر کرچکا

 پتنگ بازی خطرناک اور خونی کھیل بن چکا ہے،حکومت کو چاہئے کارروائی کرے 
عنبرین فیض احمد۔ ینبع
پتنگ بازی کا لفظ سنتے ہی ذہن میں بسنت کے موسم کی یاد آنے لگتی ہے جو بہار کی آمد کا اعلان کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو پنجاب میں چار کے بجائے پانچ موسم ہوتے ہیں یعنی گرما، سرما، بہار، خزاں اور برسات۔ سردیاں اختتام کو پہنچتی ہیں تو بہار کی آمد ہوتی ہے جس میں بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے ۔ یہ تہوارخاص طور پر پنجاب کے مردو زن سب میں برابر مقبولیت رکھتا ہے۔ پتنگ بازی اس کا لازمی عنصر ہے جس کا شوق سب میں یکساں پایا جاتا ہے۔ یہ عجب بات ہے کہ جب بھی بسنت کا موسم آتا ہے تو فریحہ پرویز کے گانے” پتنگ بازسجنا“ کے بول اس تہوار کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ پتنگ بازی کے شائقین اس سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔
یوں تو دنیا میں بسنت کا تہوار ایک ہی دن منایا جاتا ہے لیکن پنجاب کے شہروں میں یہ مشغلہ سارا سال جاری و ساری رہتا ہے جس کے نتیجے میں کئی جان لیوا حادثات بھی رونما ہوتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے پتنگ بازی پر پابندی کا سب سے بڑا جواز پیسوں کے ضیاع کے علاوہ اس تہوار کی ہلاکت خیزی بھی ہے۔ پتنگ بازی کرنے والے نت نئے طریقے استعمال کرکے اسے مزید خطرناک بنا رہے ہیں۔
جس ڈور سے پتنگ اڑائی جاتی ہے، عموماًاسے اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ وہ مضبوط ہو لیکن اس کے بجائے اب گلا کاٹنے والے تاروں کا مسلسل استعمال کیا جارہا ہے۔ یوں یہ پتنگ بازی سماجی یا ثقافتی کھیل کی بجائے عاقبت نااندیشوں کے ہاتھ چڑھ کر جان لیوا بن چکی ہے۔
ماضی میں پتنگ بازی کئی ممالک میں ذوق و شوق سے کی جاتی رہی ہے ۔ ان ممالک میں چین، جاپان، برطانیہ، ہندوستان اور پاکستان شامل ہی۔ کتنے بھلے تھے وہ دن جب بسنت کا تہوار خوشی سے منایا جاتا تھا۔ اس کی تیاریاں کئی ہفتوں قبل ہی شروع کر دی جاتی تھیں ۔ رنگ برنگی پتنگیں جنہیں پنجاب میں گڈیاں بھی کہاجاتا ہے ، دکانوں میں سجی نظر آتی تھیں۔ خالی جگہوں پر لکڑی کے ستون گاڑ کر مانجھا یعنی کانچ لگی ڈور تیار کی جاتی تھیں۔ اس مانجھے سے لوگ معمولی زخمی ضرور ہوتے تھے لیکن بہرحال گردنیں تن سے جدا نہیں ہوتی تھیں۔ گھر کی بڑی بوڑھیاں تہوار سے ایک دن قبل قیمے والے نان اور کباب بنانے کا اہتمام کرتیں۔ بسنتی رنگ کے ہیئر پن تیار کئے جاتے۔ بسنت والے دن صبح سے ہی گھروں کی چھتوں اور دالانوں سے پتنگ اڑانے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ۔ جن کے گھروں میں ایسی سہولتیں نہ ہوتیں وہ کھلے پارکوں، میدانوں اور باغات وغیرہ میں ٹولیاں بناکر پتنگ بازی کا مقابلہ کرتے۔ وہ کاٹا، بو کاٹا کے نعرے رات گئے تک سنائی دیتے ۔یھر یوں ہوا کہ رفتہ رفتہ اس تہوار کو بھی مالی مفاد، خودغرضی، تکبر ، پیسے کی حرص ، جہالت اور جھوٹی انا کے گہن نے حصار میں لے لیا ۔ اچھے خاصے پرلطف ایام کو اندھیروں کی نذر کردیا گیا۔ تفریحی کھیل کو انتقامی جذبے میں بدل کر رکھ دیاگیا۔ نجانے کتنے گھروں کے چراغ گل کردیئے گئے۔بسنت ، بہار کی آمد کا جشن،کتنے ہی ہنستے بستے گھروں کو خزاں کی نذر کرچکا ہے ۔ 
پتنگ بازی لاہور کی ثقافت کا ہمیشہ اہم حصہ رہی ہے۔ لاہوریوں نے پتنگ بازی کو اس حد تک اپنایا کہ بسنت لاہور شہر کی پہچان بن گیا۔ ابتداءسے ہی اس کھیل کو لوگوں نے تفریح کا ذریعہ بنائے رکھا مگر رفتہ رفتہ خونی کھیل کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ دھاتی ڈور تلوار کی مانند گردنوں پر وار کرتی ہے۔ تھوڑی دیر کی تفریح کئی گھروں میں صف ماتم بچھادیتی ہے۔ ا یسے کتنے ہی واقعات ہیں کہ اس ہلاکت خیز ڈور نے گھروںکی خوشیاں بربار کر کے رکھ دیں۔ بارہا اس جانب نشاندہی کی گئی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بسنت کی آمد سے کئی روز قبل سے ہی پتنگ بازی کی ہلاکت خیزی کے حوالے سے خبردارکرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ کچھ بچے کافی جذباتی ہوتے ہیں، جان کی پروا کئے بغیر کٹی پتنگیںلوٹنے کیلئے ان کے پیچھے بھاگے چلے جاتے ہیں۔ اس بات سے بے خبر کہ ان کی کوشش ان کی جان بھی لے سکتی ہے۔ ہاتھ پاوں کی ہڈیاں ٹوٹ سکتی ہیں لیکن” مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے“ کے مصداق ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں وہ حادثات کی نذر ہوکر زندگی بھر کیلئے معذوری کو گلے لگا لیتے ہیں۔ 
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پتنگ بازی خطرناک اور خونی کھیل بن چکا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ دھاتی اور کیمیکل ڈور کا استعمال کرنے والے پتنگ بازوں کیخلاف سخت کارروائی کرے لیکن حکومتی ذمہ داران کا رویہ بھی لاپروا پتنگ بازوں جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے ہاں پتنگ بازی کے حوالے سے قانون تو موجودہے مگر اس پر کوئی عمل درآمد نہیں کرتا۔ قانون کی نظر میں دھاتی یا کیمیکل ڈور سے پتنگ اڑانا ہی نہیں، پتنگ بنانا، اڑانا، فروخت کرنا سب جرم میں شمار ہوتا ہے۔ ہر سال کتنی ہی جانیں اس شوق کی نذر ہوجاتی ہیں۔ پتنگ بازی پر پابندی ضروری ہے اور قانون پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہئے۔ پتنگ بازی کا سامان بنانے والے کارخانوں کو ختم کیا جانا چاہئے۔ اسی صورت میں شہریوں کی جانیں محفوظ رہ سکتی ہیں۔ پتنگ بازی کے سامان پر نگاہ رکھنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ جب سامان سرعام فروخت ہوگا تو خریدار بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔ سب سے پہلے پتنگ بازی کا سامان فروخت کرنے والوں کو پکڑا جائے تاکہ پتنگ باز قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاسکے۔ جو پابندی نہ کرے اسے نشان عبرت بنادیا جائے تاکہ دوسرے اس کا حشر دیکھ کر پتنگ بازی کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچیں۔ 
 

شیئر: