Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خاشقجی کی گمشدگی ، کتنی حقیقت اور حساب بے باق کرنے کی کہانی

قدیم صحافتی ادارے معتبر تاریخ رکھنے والی جامعات کا درجہ رکھتے تھے
غسان شربل۔الشرق الاوسط
رفیق کار جمال خاشقجی کی گمشدگی کا مسئلہ جدید و قدیم ذرائع ابلاغ کی دلچسپی کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے سے ذرائع ابلاغ کی دلچسپی فطری امر ہے۔ البتہ اس مسئلے پر نظر رکھنے والے خبروں ، قیاس آرائیوں، منظر ناموں اور نتائج سامنے آنے سے قبل از خود کئے ہوئے فیصلوں کے طوفان میں گھر گئے ہیں۔ جمال خاشقجی کا اصل قصہ کیا ہے؟ اس کی حقیقت تک رسائی کی راہ میں خود ساختہ معلومات کا جنگل آڑے آگیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا یہ حق اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہر ایک سب سے پہلے اپنے سامعین، قارئین یا ناظرین کو واقعہ کی بابت تفصیلات فراہم کرے تاہم خاشقجی کے دردناک واقعہ نے ایک بات واضح کردی ہے وہ یہ کہ نئے میڈیا کو قدیم میڈیا سے کافی کچھ سیکھنا ہوگا۔
    ہمیں دوباتوں میں فرق کرنا ہوگا۔ ایک تو یہ کہ خاشقجی کے ساتھ کیا ہوا، اس سوال کا جواب حاصل کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسے بنیاد بنا کر سیاسی حساب بے باق کیا جائے، گدلے پانی میں شکار کیا جائے، حقائق منظر عام پر آنے سے قبل سعودی عرب کو نقصان پہنچانے کیلئے خاشقجی کی گمشدگی کا ذمہ دار اسے ٹھہرا دیا جائے۔ یہ غلط ہے۔ ہویہ رہا ہے کہ خاشقجی کے ساتھ کیاکچھ ہوا یہ دلچسپی کا موضوع نہیں رہا بلکہ خاشقجی کے بہانے سعودی عرب کی ساکھ اور اس کی معیشت کو زیادہ سے زیادہ نقصان کس طرح پہنچایا جاسکتا ہے یہ بعض ذرائع ابلاع کی مہم کا محور بن چکا ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ سعودی عرب کبھی کسی کے دباؤ میں نہیں آیا۔ سعودی عرب کبھی پابندیوں یا اپنے فیصلے تھوپنے والوں کے آگے نہیں جھکا۔ سعودی عہدیدار نے اس حوالے سے دوٹوک الفاظ میں مملکت کا موقف بیان کردیا ہے۔
    نئے میڈیا کو قدیم میڈیا سے یہ بات سیکھنی ہوگی کہ قدیم صحافتی ادارے معتبر تاریخ رکھنے والی جامعات کا درجہ رکھتے تھے۔ تاریخی جامعات میں ایسے ہی طلبہ کو داخلے دیئے جاتے جو عملی امتحان میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ یہی اصول قدیم صحافتی ادارے بھی نو آموختہ صحافیوں پر لاگو کیا کرتے تھے۔ زیر تربیت صحافی کو تواضع ، انکساری ، بزرگ صحافیوں کے مشورے سننے ، قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کی تعلیم اور تربیت دی جاتی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ نئے زاویہ نظر یا نئے موضوع یا کسی بھی واقعہ کے نئے اظہار کا چلن زیادہ عام ہوگیا ہے۔
    صحافتی ادروں میں کئی نسلوں میں تجربات رکھنے والے صحافی نوجوانوں کے جوش کو اپنے تجربات کے زور سے کنٹرول کیا کرتے ہیں۔ان اداروں میں پیشہ ورانہ مباحثے، سیاسی اور ثقافتی مکالمے وغیرہ کے ذریعے خبروں کی قدروقیمت کے فیصلے ہوتے۔ اسی طریقے سے کالم نگاروں کے مضامین تولے جاتے تھے۔ کوئی بھی مضمون اور کوئی بھی خبر ٹھوس پیمانوں پر جانچ کر ہی شائع کی جاتیں۔ قارئین ،قانون ، ضمیر ، فرد اورا دارے کی ساکھ کو مدنظر رکھ کر خبر اور مضمون شائع کرنے کی اجازت دی جاتی۔ صحافتی ادارے کسی بھی خبر کو شائع کرنے سے پہلے کسی ایک ذریعے پر انحصار نہ کرتے بلکہ متعدد ذرائع سے خبر حاصل کرنے اور اس کے درست ہونے کا یقین حاصل کیا کرتے۔ خبر جاری کرتے وقت یہ بھی دیکھا جاتا کہ اس سے نفرت تو نہیں پھیلے گی، اس سے فتنے کا ماحول تو نہیں برپا ہوگا۔ خاندان کے افراد کو کسی بھی خبر کے منفی اثرات سے بچانے کیلئے متعلقہ شخص کا نام جاری کرنے سے گریز کیا جاتا۔ زریں ضابطہ یہ ہوتا کہ خبر کی حقیقت اچھی طریقے سے جان لی جائے اور انتہائی باریک بینی کا مظاہرہ کیا جائے۔خود مجھے اس حوالے سے سخت موقف کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میں نے فلپائن کے صدر کی بیگم ایمیلڈا مارکوس کی بابت ایک مضمون قلم بند کیا تھا۔ اس میں ان کے زیورات اور جوتوں کی تفصیلات تحریر کی تھیں۔ النہار اخبار کے ایڈیٹر انچیف نے مجھے بلاکر ایک طرح سے سرزنش کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب تک کسی بھی شخص کے خلاف عدالت کا فیصلہ نہ آجائے اس وقت تک اسے ملزم ہی کا وصف دیا جاتا ہے مجرم نہیں گردانا جاتا۔
    خاشقجی کی گمشدگی کے مسئلے نے میرے ذہن میں صحافتی ضابطہ اخلاق کے متعدد پہلو اجاگر کردیئے۔بعض رفقائے صحافت حقیقت حال سامنے آنے سے قبل ہی سعودی عرب کو مجرم گردان رہے ہیں۔ اس قسم کی صحافت بلا شبہ صحافتی ضابطہ اخلاق کے سراسر منافی ہے۔ اس طریقہ کار نے یہ واضح کردیا ہے کہ جو لوگ خاشقجی کے ساتھ کیا ہوا یہ جاننے کے بہانے سعودی عرب کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کررہے ہیں وہ کس قسم کی صحافت کررہے ہیں۔ سعودی عرب ایسا ملک ہے جس کا استحکام عالمی اقتصادکیلئے ناگزیر ہے۔ سعودی عرب ایسی ریاست ہے جوعرب دنیا اور عالم اسلام میں اعتدال کے فروغ کی روشن علامت ہے۔ ایسی ریاست کو کسی ثبوت کے بغیر مورد الزام ٹھہرا دینا اور سیاسی حساب بے باق کرنے کیلئے اس پر الزامات کی بوچھار کردینا کسی طرح درست نہیں۔ قارئین کا فرض ہے کہ وہ اپنے طور پر نئے اور قدیم ذرائع ابلاغ کی روایت کے درمیان فرق کرتے ہوئے الزام تراشوں اور حقیقت کے متلاشی صحافیوں کے درمیان امتیاز برتیں۔
مزید پڑھیں:- - - - -شامی بحران کا واحد حل ’’سیاسی‘‘

شیئر: