Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نظرثانی

***جاوید اقبال***
ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد صحافیوں سے محو گفتگو ہیں۔ ایک چینی نژاد خاتون صحافی سوال کرتی ہے "ڈاکٹر مہاتیر محمد! آپ کے حالیہ دورہ چین سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ آپ چین کو پسند نہیں کرتے اور بہت ممکن ہے کہ آپ ماضی میں دونوں ممالک کے مابین کئے گئے سمجھوتوں پر خط تنسیخ پھیر دیں" ڈاکٹر مہاتیر محمدد کا جواب کچھ حقائق کا غماز ہے ۔ وہ کہتے ہیں "نہیں خاتون نہیں! میں چین یا چینیوں کے خلاف ہرگز نہیں۔ درحقیقت میں ملائیشیا اور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان ہونے والے ان تجارتی معاہدوں پر نظرثانی چاہتا ہوں جن پر سابق وزیراعظم نجیب رزاق کے عہد میں دستخط کئے گئے تھے۔ چینی انجینیئر اور معمار اب تک ملائیشیا میں بڑی سڑکیں اور بلند شاندار عمارات تعمیر کرتے رہے ہیں۔ ان عمارتوں پر اتنی لاگت آجاتی ہے کہ ہمارا عام آدمی ان میں رہائش نہیں رکھ سکتا۔ دوسری قباحت یہ ہے کہ چینی تعمیراتی کمپنیاں اپنے ہمراہ افرادی قوت بھی لاتی ہیں جو یہ منصوبے مکمل کرتی ہیں۔ اس سے ملائیشیا کے مزدور اور پیشہ ور افراد بے روزگار ہو رہے ہیں۔ توکاغذپر تحریر کئے گئے یہ دوطرفہ معاہدے یکطرفہ ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ صرف چین کے لئے مفید ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ملائیشیا کی سابقہ حکومت کے دور میں ہونے والے ان معاہدوں پر نظرثانی ہو اور ہم صرف وہ شرائط قبول کریں جن کے تحت دونوں ممالک کی حکومتیں اور عوام فائدہ اٹھا سکیں" نجیب رزاق کی حکومت نے چین کے ساتھ توانائی اور دفاع کے معاہدے کئے تھے تا ہم ملائیشیا کے ASEANآسیان ممالک میں ایک مضبوط آواز ہونے کی وجہ سے چین کو اس تنظیم میں بھی داخلے کا موقع مل گیا تھا۔ 2017میں دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم  96ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس میں یہ ایک سو ارب  ڈالر کی حد پار کر لے گا۔ دوطرفہ تجارت مہاتیر محمد کے دور میں جاری رہے گی لیکن چین اور ملائیشیا کے مابین ہو چکے سمجھوتے شاید اپنی اصلی حالت میں نہ رہ سکیں۔ چین کو چند قدم پیچھے ہٹنا پڑے ۔ مہاتیر محمد کا گلہ بجا ہے او ریہ صرف ملائیشیا کا شکوہ ہی نہیں ، افریقہ کا سارا براعظم چینیوں کے رویے کا شاکی ہے۔ گزشتہ تقریباً20برسوں میں چین نے قرضوں کا تار عنکبوت ان سیاہ فام ابنائے آدم کے گرد پھیلا دیا اور آج ان میں سے اکثر اتنے بے بس ہو چکے ہیں کہ انتہائی خاموشی سے قرض خواہ کی ہر شرط مان رہے ہیں۔ گزشتہ ستمبر میں بیجنگ میں انعقاد پذیر ہونے والے 2روزہ چین افریقہ فورم میں براعظم کے 54میں سے 53ممالک نے شرکت کی تھی۔ صرف ایک ننھی سی سوازی لینڈ کی ریاست غیر حاضر تھی کیونکہ وہ عوامی جمہوریہ چین کی بجائے تائیوان کو تسلیم کرتی ہے۔ اس اجلاس میں چینی صدر ژی جن پنگ نے اعلان کیا کہ ان کا ملک افریقی ممالک کو 60ارب ڈالر کے قرضے فراہم کرے گا۔ اس رقم میں سے 15ارب ڈالر بلاسود ہوں گے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ افریقہ کے انتہائی نادار ممالک کے ماضی میں لئے گئے قرضے معاف کردیئے جائیں گے۔ اس موقع پر افریقی راہنماؤں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ گزشتہ دور میں چین نے جس مدد کا وعدہ کیا تھا اس کی ادائیگی بھی غیر شفاف طریقے سے ہوئی تھی اور اس میں سے ایک بڑی مقدار ابھی تک واجب الادا تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کا متعارف کردہ ون بیلٹ رؤڈ منصوبہ شاہراہ ریشم کی توسیع ہی ہے اور اس میں افریقہ کو جکڑا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ منصوبہ درحقیقت قرضوں کا ایک جال ہے او رچین استعمار کے حربے استعمال کر کے ان ممالک کو اپنے  چنگل میں لے رہا ہے۔ افریقہ کو قرضے فراہم کرنے کا آغاز 2006میں کیا گیا تھا۔ ا سوقت 5ارب ڈالر کی رقم دی گئی اور چینی حکومت نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہر 3برس بعد یہ عدد دگنا ہو جایا کرے گا۔ یوں 2018 تک مختلف کٹوتیوں کے بعد براعظم کے لئے چینی قرضہ 60ارب ڈالر ہواتھا۔ اب اس کی تقسیم مختلف حاجتمند ممالک میں ہو گی۔ لیکن براعظم میں یہ تشویش پھیلتی جا رہی ہے کہ چین ان کے ممالک پر ایک نواستعماری طاقت کے طور پر قبضہ جما رہا ہے۔ اپنے تعمیراتی منصوبوں کے لئے افرادی قوت چین سے ہی فراہم کرتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنے معاہدو ں کو وسعت دیکراپنے مختلف النوع اداروں کے وہاں دفاتر کھول لیتا ہے۔ اور پھر ان دفاتر کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے اپنی فوجی موجودگی کو یقینی بناتا ہے۔ یکم اگست 2017ء کو چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے جیبوتی میں اپنا اڈہ کھول لیا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس اڈے کا صدر دروازہ وہاں مامو ر امریکی بحریہ کے صدر دفتر کے بالکل سامنے ہے۔ جنوبی سوڈان میں تیل کی فراوانی ہے۔ اس خطے میں مامور اقوام متحدہ کی امن فوج میں 700فوجیوں پر مشتمل ایک چینی انفنٹری بٹالین بھی شامل ہے۔ جمہوریہ کانگو میں تانبے اور کو بالٹ وافر مقدار میں زیر زمین پائے جاتے ہیں۔ چین نے اقوام متحدہ کی امن فوج میں اپنے 220فوجی وہاں شامل کر رکھے ہیں۔ اقوام متحدہ کی وساطت سے براعظم پر اپنی فوجی موجودگی کو یقینی بنانے کے علاوہ عوامی جمہوریہ چین افریقی ممالک میں براہ راست فوجی مداخلت بھی کرتا ہے۔ بحرہند میں کچھ عرصہ قبل اودھم مچانے والے صوبائی قزاقوں کو نگرانی کے بعد گرفتار کیا۔ یوں چین کو پڑوس کے ممالک میں پڑاؤ کرنے کا بہانہ مل گیا۔ ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا  میں ایک چینی کفش ساز کمپنی نے اپنا کارخانہ قائم کیاتو اس میں کام کرنے کے لئے چینی افرادی قوت درآمد کی گئی اور پھر ان مزدورو ں کی سلامتی یقینی بنانے کے لئے چینی فوج کا ایک دستہ بھی پہنچ  گیا۔ افریقی ممالک سے تجارتی تعلقات تو روز افزوں ہیں  ہی چینی اسلحہ بھی اب ان ممالک کی اشد ضرورت بن چکا ہے۔ 2017ء سے روس کے بعد چین وہاں اسلحہ کا سب سے بڑا تاجر ہے۔ یہ بھی اب کہا جاتا ہے کہ ضرورت محسوس ہونے پر چین مختلف ممالک کی حکومتیں بھی گراد یتا ہے اور اس کے لئے زمبابوے کی مثال دی جاتی ہے جہاں چین نے یہ بھی محسوس کرتے ہوئے کہ صدر رابرٹ موگابے کی حکومت اس کا قرضہ ادا نہ کر سکے گی اور اپنے قلاش ہونے کا اعلان کردے گی وہاں کی حکومت تبدیل کرا دی تھی۔ 
بیجنگ اس وقت 51افریقی ممالک میں 2500منصوبوں پر کام کر رہا ہے او ران کی مالیت 94ارب ڈالرہے۔ 2009ء میں چین نے افریقہ کے تجارتی شراکت دار کے طور پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ آج افریقہ سے چین کا تجارتی حجم 300ارب ڈالر سے بھی زیاددہ ہو چکا ہے  لیکن تاریک براعظم کے سیاسی ماہرین اب الزام لگا رہے ہیں کہ وہ بیلٹ روڈ منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے چین ان کے ممالک میں اپنی عسکری قوت بڑھا کر ان پر حکومت کر رہا ہے اور یوں نصف صدی کے بعد استعمار کی ایک اور صورت ان کے وسائل پر قبضہ کرنے آچکی ہے۔ 
ہم ذرا اپنے پڑوس پر نظر کرتے ہیں۔ سری لنکا نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ اپنا بحری اڈہ گال سے ہمبانٹوٹا کی بندرگاہ پر لے جائے گا۔جس پرچین اب قابض ہو چکا ہے۔ قرضے کی واپسی وقت پر نہ کرسکنے کی بنا پر سری لنکا کو اپنی بندرگا ہ چینیوں کے حوالے کرنا پڑی۔ مالدیپ پر چینی آہستہ آہستہ اپنی ملکیت کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اب اپنے گھر آتے ہیں ۔ گوادر کے قریب جیوانی کے مقام پر چینی اپنا دوسرا بین الاقوامی فوجی اڈہ قائم کر رہے ہیں۔ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے 35کلومیٹر دور اس مقام سے چین آبنائے ہرمز پر نظر رکھنے کے علاوہ گوادر ، پسنی اور کراچی کے ساحلوں پر بھی اپنی آبدوزیں کھڑی کر سکے گا۔ علاقے میں قائم ہونے والی چینی صنعتوں میں افرادی قوت چینی ہو گی۔ آج چینی پاکستان کے شناختی کارڈ جیبوں میں ڈالے ہمارے وطن میں اراضی کی خرید و فروخت کرتے ہیں ، بغیر ویزا حاصل کئے ہمارے شہروں میں دندناتے پھرتے ہیں اور ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی والے ہماری پولیس پر ہاتھ بھی اٹھا دیتے ہیں۔ زمانہ شناس مہاتیر محمد درست کہتے ہیں چین کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔  
 

شیئر: