Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

،،فنکارِ صحافت ہو تو ’’ابصار‘‘ کہیں گے

***شہزاد اعظم***
ہماری سب سے بڑی پھوپھی کے سب سے بڑے صاحبزادے ہمارے سب سے پسندیدہ کزن ہیں۔ وہ ہمیں اسوقت سے پسند ہیں جب ہم نے کسی کو پسند کرنا سیکھا بھی نہیں تھا۔ ان کی اور ہماری عمر میں یہی کوئی ڈیڑھ دہائی کی چھوٹ بڑائی ہے۔ ان کی عادات کچھ ایسی تھیں کہ کبھی وہ حجامت کرانا ترک کردیتے اور بال پہلے لمبے ہوتے پھر زلفوں کی شکل اختیار کرلیتے اور پھران میں ’’گرہ گیر‘‘ خصوصیات پید ا ہونے لگتیں۔ کئی ماہ یوں ہی گزر جاتے، پھر اچانک ہی وہ اپنا سر منڈوا دیتے۔ یہی سلوک وہ مونچھوں کیساتھ روا رکھتے۔ کبھی انہیں اتنی لمبائی تک بڑھاتے کے وہ خود ہی تائو کی طلبگار دکھائی دیتیں اور کبھی وہ اس قدر تقصیر کا شکار کر دیتے کہ انہیں دیکھ کر ہٹلر کی مونچھ بھی شرماجا ئے ۔ 
ہم نے دیکھنے اور سننے، چھونے اور چکھنے جیسی حرکتیں تو اس جہانِ رنگ و بو میں آنکھ کھولتے ہی شروع کر دی تھیں مگر بولنے کے عمل کا آغاز ذرا تاخیر سے کیا تھا ۔ بس جیسے ہی حروف جوڑنا سیکھا، ہم نے امی جان سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں ۔ انہوں نے کہا یہ میری نندوں کے جم غفیر میں شامل ’’ساسیانہ‘‘ اطوار کی حامل آپ کے والد کی سب سے بڑی ہمشیرہ کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں ۔ ہم نے دریافت کیا کہ دوپہر کو گھر سے نکل جاتے ہیں اور آدھی رات کو گھر میں گھستے ہیں، انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں؟ امی جان نے جواب دیا وہ شہر کے ایک درمیانے درجے کے اردو اخبار میں بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ اخبار کی زیادہ تر سرگرمیاں رات کو ہی شروع ہوتی ہیں اوررات  گئے تک جاری رہتی ہیں اسی لئے وہ رات بھیگنے تک گھر میں دکھائی نہیں دیتے۔ ہم نے ضد کی کہ امی! میں بھی صحافی بنوں گا۔ ہمارا یہ جملہ مکمل بھی نہیں ہو پایا تھا کہ ہم نے چلا کر رونا شروع کر دیا کیونکہ اس دوران امی جان ہمارے گال پر یہ کہتے ہوئے طمانچہ رسیدکر چکی تھیں کہ خبر دار جو آئندہ ایسی ضد کی ۔ گدی سے زبان کھینچ لوں گی، مگر وہی بات کہ کسی کو کیاخبر کہ مستقبل میں کیا ہونا ہے۔ قصہ انتہائی مختصر!!!
ہم عروس البلاد میں بابائے صحافت کے اخبار میں اخباری خدمات کی انجام دہی پر مامور تھے۔ ہم نے اپنی والدہ کی نند کے صاحبزاد ے کی’’نقالی‘‘ کرتے ہوئے ’’اُس وقت موجود‘‘ بال بڑھا رکھے تھے۔ بغیر استری شدہ سوتی قمیص زیب تن کر رکھی تھی ۔ ہم دیکھا کرتے تھے کہ ہمارے ارد گرد ہمارے حلئے سے خاصی مطابقت رکھنے والے لوگ موجود ہوتے تھے اسلئے ہمیں کسی ’’خفت‘‘ کا احساس نہیں ہوتا تھا۔اسی حال میں ہمیں 2سال گزر گئے ۔ 1988ء کی بات ہے کہ ہم ’’نیوز روم‘‘ میں طویل میز کی ایک جانب کرسی میں دھنسے’’ خبر سازی‘‘ میں مگن تھے کہ اتنے میں ایک صاحب اندر داخل ہوئے۔ پیروں میں سلیم شاہی، سفید شلوار اور ململ کا کرتا ، خس کا عطر ’’پہنے‘‘، منہ میں گلوری دبائے ہو ئے تھے ۔چشمِ سرمہ رسیدہ مسکرا رہی تھی کیونکہ لوگ انکو مبارکباددیتے ہوئے معانقہ کر رہے تھے۔ ہماری اُن سے اور ان کی ہم سے چونکہ پہلی ملاقات تھی اسلئے انکے اور ہمارے درمیان بات مصافحے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ پرجوش استقبال کے بعد انہیں ایسی کرسی پیش کی گئی جس پر بیٹھا شخص بزم کی صدارت کرتا محسوس ہو۔ ہم نے اپنے ’’بغلی صحافی‘‘ سے دریافت کیا کہ موصوف کی تعریف؟ انہوں نے جواب مرحمت فرمایا کہ انکا نام ابصار ہے اور یہ ہمارے نئے نیوز ایڈیٹر ہیں۔ انکا خاصّہ یہ ہے کہ جہاں بھی گئے نیوز ایڈ یٹر سے کم عہدے پر فائز نہیں ہوئے،ہم نے دل میں سوچا کہ موصوف میں بھلا ایسی کیا خوبی ہے کہ کبھی نیوز ایڈیٹر یا انچارج سے کم ذمہ داریاں تفویض نہیں کی گئیں۔ ہم نے اس خوبی کو ٹٹولنے کی عزم کر کے ابصار صاحب کی تمام سکنات و حرکات کا خورد بینی سے جائزہ لینا شرو ع کر دیا ۔
انہوں نے کرسی پر براجمان ہوتے ہی 250خبروں کے پلندے پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ وہ ٹیلیکس کے ذریعے نیوز پرنٹ پر موصول ہونے والی انگریزی کی خبر کوگیند کی شکل بناکر سب ایڈیٹر کا نام لیتے اور اس کی طرف یہ ’’کاغذی گیند‘‘ اچھال دیتے۔ انہوں نے ایک گیند ہمارا نام لے کر ہماری جانب اچھالی۔ ہم نے اس خبر کو ’’بے گیند‘‘ کیا ۔ اس پر ایک جانب لکھا تھا’’3کالمی‘‘۔چند منٹ گزرے ہوں گے، وہ 250خبریں 30سب ایڈیٹر حضرات میں تقسیم ہو چکی تھیں اور باقی سب اٹھا کر پھینک دی گئی تھیں۔
ہم نے نئے نیوز ایڈیٹر کو متاثر کرنے کے لئے خوشخط انداز میں خبر لکھی۔ اس کی سرخی لگائی اور نئے نیوز ایڈیٹر کے سامنے لے جا کر رکھ دی۔ انہوں نے جیسے ہی خبر دیکھی،اسے ’’گیندیا‘‘ کر یعنی ہماری تحریر کے حامل کاغذ کو گیند کی شکل دے کرہماری جانب پھینکا اور کہا کہ سرخی یہ نہیں، وہ ہے جس کی میں نے نشاندہی کی ہے۔ ہم اپنی ’’تضحیک‘‘کی تلخی کم کرنے کے لئے خبر لے کر ان کے پاس گئے کہ ذرا بتائیے آپ نے کہاں نشاندہی کی ہے؟ انہوں نے ہمیں کاغذ کے انتہائی دائیں جانب دو عمودی خط دکھائے جیسے کسی نے ’’الف کے ساتھ الف‘‘ لکھ دیا ہو۔ اس کی زد میں آنے والی سطر کو جب ہم نے غور سے پڑھا تو واقعی سرخی وہی تھی۔ ہم شرمندہ ہوئے، اس کے بعد انجام یہ ہوا کہ ابصار سید نے بھانپ لیا کہ ’’نوجوان‘‘ کو ابھی مہارت حاصل نہیںاس لئے انہوں نے ہر تین کالمی اور چار کالمی کے ساتھ زبانی بتانا شروع کر دیا کہ ’’شہزاد! اس کی سرخی یہاں سے لینا۔‘‘ہم سوچتے کہ خود جس کو سرخی سمجھ لیا وہی اہم جملہ ہو گیا، یہ کیا بات ہوئی مگر اس کا جواب اگلے روز اس وقت ملتا جب ہر اخبار میں وہی جملہ پڑھنے کو ملتا۔یہاں تک کہ وہ انگریزی اخبار کی لیڈ بھی بیان کر دیتے کہ وہ سرخی میں یہ الفاظ استعمال کریں گے۔ ان کی یہ پیش قیاسیاں صرف پاکستان ہی نہیں، سعودی عرب کے انگریزی اخبارات کیلئے بھی من و عن درست ثابت ہوتی رہیں۔ پھر جب ہم نے 15سال قبل کالم لکھنا شروع کیاتووہ ہمارے کالم کے اولیں قاری ہوتے اور اسی وقت کبھی 12بجے کی سوئی کی طرح ’’تھمب اپ، کبھی ساڑھے 6کی طرح تھمب ڈائون اور کبھی سوا 3کی طرح بین بین ہوتا۔ یقین جانئے اگلے روز ویسا ہی رد عمل موصول ہوتا۔وہ بجا طورپر کہا کرتے ہیں کہ میں صحافی نہ ہوتا تو بھی صحافی ہی ہوتا کیونکہ مجھے صحافت ہی آتی ہے ۔
آج میرا یہ پہلا کالم ہے جو ابصارسید کی نظر سے نہیں گزراکیونکہ وہ پاکستان جا چکے ہیں۔ ہم ان کے حوالے سے اتنا کہیں گے کہ میدان صحافت میں ابصار سیدکی ہمرکابی ایک عادت بن چکی ہے ۔ 30سال پرانی اس عادت کو یکدم ترک کرنا کیسے ممکن ہوگافی الحال ہمیں اس کا کوئی اندازہ نہیں۔
ابصار صاحب کے فن اور ان کی صحافیانہ صفات پر کہنے کو بہت کچھ ہے مگر یہاں جگہ کم ہے ، دریا کوکوزے میں بند کرنے کی ایک اور کوشش کی جا رہی ہے، ملاحظہ فرمائیے:
تصویر اچھوتی ہو تو شاہکار کہیں گے
جو حکم چلائے اسے سرکار کہیں گے
فنکار وہی ہے کہ جواستاد ہو فن کا
فنکارِ صحافت ہو تو ’’ابصار‘‘ کہیں گے  
 

شیئر: