Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معیشت کی بحالی سخت اقدامات کی متقاضی

***صلاح الدین حیدر***
بچپن میں فلمی گانا سنا کرتے تھے ’’ہائے مہنگائی، ہائے مہنگائی‘‘۔ آج اُسی کے مارے ہوئے ہیں۔ روزمرّہ کی کوئی بھی اشیائے خورونوش 150/200 روپے سے کم نہیں ۔ گیس کی قیمتیں 10 روپے سے لے کر 143 روپے فی کلو تک بڑھا دی گئیں، عوام کو لڈو دے کر بہلادیا گیا کہ غریب پر کم سے کم بوجھ پڑے گا۔ صرف امیر طبقہ کو اصل نشانہ بنایا گیا ہے۔ بجلی کی قیمتیں بھی ایک آدھ ہفتے میں بڑھا دی جائیں گی۔ عوام النّاس پر مزید بوجھ بڑھ جائیگا۔ اوسط گھرانے (جو عموماً 5/6 افراد پر مشتمل ہوتا ہے)کے لیے مہینے کا بجٹ بنانا قریباً مشکل ہوگیا ہے۔ مزدور طبقہ تو دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھاسکتا۔ پھر بھی وزیر خزانہ ایک ہی رَٹ لگائے ہوئے ہیں کہ چند مہینوں میں معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘۔ جب تک حالات صحیح ہوں گے۔ پتہ  نہیں کتنے افراد موت کے منہ میں جاچکے ہوں گے یا پھر آخری سانسیں لے رہے ہوں گے۔
یہ تو محض ایک مسئلہ تھا جس نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔دوسرا بھی اپنی جگہ کسی طرح کم نہیں ۔ پرائیویٹ اسکولوں کی فیسیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اﷲ کے ایک نیک بندے حمودالرب جعفری، پیشے سے وکیل، لیکن تیز دماغ کے مالک، اُنہوں نے ان اسکولوں کے خلاف جہاد شروع کیا ہوا ہے۔پچھلے کئی برسوں سے اُنہوں نے ہر سطح پر اس معاملے کو اُٹھایا، صدائے احتجاج بلند کی، پھر والدین کی ایک انجمن بنادی گئی کہ لوگ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں تعلیم دلواسکیںلیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں بے ایمانی، جھوٹ، دھوکا، ڈکیتی، جرائم اور ہر قسم کی بُرائی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔وہاں صدائے احتجاج بھی شاید صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔ کرم ہے مالکِ کائنات کا، اعلیٰ عدالتوں کے ججز نے معاملے پر توجہ مرکوز کی۔ ہائی کورٹ سے اسکولوں کے خلاف فیصلہ آیالیکن اسکولوں کے مالکان بھی پتھر کے بنے ہوئے لگتے ہیں، کسی قسم کی مروت یا تعلیم کے نام پر کاروبار کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس کرنے کے بجائے والدین کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ کوئی اُن سے پوچھے کہ اسکول کے معنیٰ و مطلب کیا ہوتے ہیں۔ 
ہم جب پڑھا کرتے تھے تو اسکولوں کی اچھی عمارات ہوتی تھیں۔ کھیلوں کے میدان ہوتے تھے، بچوں کو تندرست و چست رکھنے کے اسباق پڑھائے جاتے تھے، ڈرل کے پیریڈز الگ ہوتے تھے، جہاں فزیکل ٹریننگ پر زور دیا جاتا تھا۔ تعلیم کا مقصد صرف نصاب کی کتابیں پڑھانا نہیں، ڈگریاں لینا نہیںبلکہ ملک و قوم کے لیے ایک اچھا انسان بنانا ہوتا ہے۔ یہ سبق تو اب سرے سے ہی بھلا دیا گیا۔ کسی کرائے کے گھر میں 4کمروں میں اسکول کھول دیا گیا، چند سکّوں کے بدلے ٹیچر یا استاد نام کی چیز بھرتی کرلی گئی اور اسکول یا تعلیم کے نام پر جہلا پیدا کرنے والی فیکٹریاں قیام عمل میں آگئیں۔ اِن اسکولوں میں کیا تعلیم دی جاتی ہے، انسان کیسے بنائے جاتے ہیں، قوم کے مستقبل کو کس طرح سنوارا جاتا ہے، اس متعلق کسی بھی پرائیویٹ اسکول کے مالک کو ذرّہ برابر بھی علم نہیں۔ اُسے تو نوٹ گننے سے مطلب ہے۔ کچھ کہو تو عجیب و غریب دلیل دی جاتی ہے کہ جناب! گھروں کے کرایے کتنے مہنگے، ٹیچرز کی تنخواہ 20/25 ہزار، پانی، بجلی اور چوکیدار، چپڑاسی سمیت کئی دوسرے ملازمین الگ۔ اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ جواباً صرف اتنا عرض ہے کہ گورنمنٹ اسکولوں میں بھی یہ تمام مسائل ہیں لیکن پھر بھی وہاں بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا ہے، مسائل وہاں بھی ہیں، لیکن تعلیم اور صحت دو ایسے فرائض ہیں جنہیں ہر حال میں پورا کرنا حکومتِ وقت کا فرض اوّلین ہوتا ہے، اس سے مفر ہے ہی نہیں۔
1972 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں اسکولز، کالجز قومیائے گئے۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں انہیں دوبارہ نجی تحویل میں دینے کا فیصلہ ہوا۔ کئی ایک پرائیویٹ اسکول کھلے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک سے دو، پھر تین، چار ہوئے اور پھر ملک کے دوسرے شہروں میں بھی اُن کی شاخیں کھلنی شروع ہوگئیں۔ پوچھنا تو پڑے گا کہ آخر اگر یہ منافع بخش کاروبار نہیں تو پھر اتنا پیسہ ان نجی اسکول کے مالکان یا تنظیموں کی تجوریوں میں کیسے آیا۔ ظاہر ہے کہ لوٹ کھسوٹ کا ایک بازار گرم کردیا گیا، جس میں سرکاری ادارے، اسکول مینجمنٹ، نصاب اور کتابوں کی دیکھ بھال کرنے، تعلیمی اداروں پر نظر رکھنے والے رشوت کھاکے حکومت کے اقدام کو نظرانداز کرنے میں مہارت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اب معاملہ سپریم کورٹ کے پاس ہے جہاں ایک کمیٹی بنادی گئی ہے کہ نجی اسکولوں کی فیس سالانہ 5 فیصد سے زیادہ نہ بڑھائی جاسکے۔ اُمید تو ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔
مہنگائی کی طرف واپس آتے ہیں تو حکومت کے اقدام پر نظر رکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔ عمران خان نے خاص طور پر اور اُن کے رفقائے کار نے، اب عیاں ہوگیا ہے کہ انتخابات کے دوران لمبے چوڑے وعدے کیے۔ یہ کردیں گے، وہ کردیں گے، لیکن کاش وہ کچھ ہوم ورک بھی کرلیتے، معاملات کو سمجھ لیتے اور مسائل کا حل تلاش کرکے رکھتے تو آج اُنہیں اندھیروں میں ہاتھ پائوں نہ مارنے پڑتے۔ وزیر خزانہ 15 ارب ڈالرز کی آئی ایم ایف سے امداد کی توقع رکھتے ہیں کہ کئی ایک ادائیگیاں کرنی ہیں جو کہ اُنہیں پچھلی حکومت سے ورثے میں ملی ہیں۔ ہم بھی متفق ہیں کہ مشکل اگر ہے تو اُس کا مردانہ وار مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے، کوئی اور راستہ ہے نہیں۔ پھر قوم کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے ’’سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘ کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ حالات مزید خراب ہوں گے اور مایوسی بڑھے گی تو پھر اگر (ن) لیگ نے عمران خان کی چھوڑی ہوئی دونوں نشستیں اپنے قبضے میں دوبارہ کرلیں تو اور بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ فوری اور انتہائی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ روپے کی قیمت پہلے تو تھمے اور پھر اُس کی قدر میں اضافہ ہو۔ برآمدات کو بڑھانے کے لیے زبردست کوششیں ناگزیر ہیں۔ پُرتعیش اشیاء کے استعمال کو روکنا پڑے گا تاکہ بجٹ کا خسارہ ختم کیا جاسکے، محض باتوں سے کام نہیں چلے گا۔ معیشت سخت اقدامات کی طالب ہے۔ قوم تو قربانی دیتی رہتی ہے۔ شکر ہے کہ حکمران طبقہ بھی اس کے لیے تیار ہے۔ پنجاب اور سندھ کے بجٹ میں خاصی کٹوتی کی گئی ہے اور بھی اخراجات کو چیک کرنا اہم ہے۔ قوم اب بھی پُرامید ہے، لیکن 6 ماہ بعد شاید نہیں ہوگی۔ ایسا وقت آنے ہی کیوں دیا جائے، پیش بندی ضروری ہے۔
 
 

شیئر: