Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انصاف ، معاشرتی استحکام اور بقا کا ضامن

جب کسی قوم میں یہ بات آجائے کہ عام آدمی جرم کرے تو سزا مختلف ہو اور کوئی بڑا آدمی جرم کرے تو سزا مختلف ہو تواس قوم کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا
* *  *معاذ عتیق راز۔الخبر* * *
    معاشرے میں ہر طبقے اور ہر فرد کو جو حقوق حاصل ہیں اور جس کسی کا جتنا حق بنتا ہو، اس کو اس کا حق دے دینااور اس میں رنگ ونسل، علاقائیت، صوبائیت، لسانیت اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہ رکھنا عدل و انصاف کہلاتا ہے۔
    عدل و انصاف کے لغوی معنیٰ دوٹکڑے کرنا، کسی چیز کا نصف، فیصلہ کرنا،حق دینا ہے ،کسی چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا، حق دار کو اس کا پورا حق دینا اور انفرادی و اجتماعی معاملات میں اعتدال کو اپنا کر افراط و تفریط سے بچنا ہے۔
    عدل کی ضد ’’ظلم و زیادتی‘‘ ہے۔
    اسلامی معاشرے میں عدل وانصاف کی بہت بڑی اہمیت ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
    ’’ اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو، اللہ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے،بے شک اللہ سنتا (اور) دیکھتا ہے۔‘‘ (النساء 58 )۔
    اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
     ’’ اور اگر تم ان (فریقین) کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنیوالوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ (المائدہ 42)۔
    عدل و انصاف ہی وہ پیمانہ ہے جس کی بدولت انسانیت زندہ ہے۔اگر معاشرہ عدل و انصاف سے عاری ہو تو وہ صالح معاشرہ نہیں ہو سکتا بلکہ ظلم و جبر اور دہشت و درندگی کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
    خلیفہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے کسی حاکم نے اپنے شہر کی ویرانی کا شکایت نامہ بھیجا اور امیرالمؤمنین سے اس کو آباد کرنے کے لئے مال طلب کیا۔امیر المؤمنین نے اس کو جواب میں لکھا:
    ’’ جب تم میرا خط پڑھو تو اپنے شہر کو عدل و انصاف کے ذریعے سے محفوظ کر دواور شہر کے راستوں سے ظلم و زیادتی دور کر دوکیونکہ ظلم و زیادتی ہی شہر کی ویرانی کا باعث ہے۔‘‘
    سورہ المائدہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
     ’’ کسی قوم (یا فرد) کی عداوت تمہیں بے انصافی پر نہ ابھارے، تم عدل کرتے رہو (کیونکہ) وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
    اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مقصود یہ ہے کہ: زندگی کے ہر شعبے میں انصاف ہو، امیر و غریب، شاہ و گدا، اعلیٰ و ادنیٰ، آقا و غلام اور حاکم و محکوم میں کوئی فرق نہ رکھا جائے۔    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے قول اور فعل سے مساوات کی بہترین مثالیں قائم فرمائیں اور اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دی کہ عدل و انصاف کا ترازو اس قدر مضبوط اور برابر ہو کہ سخت ترین نفرت اور شدید ترین محبت بھی اس ترازو کے کسی پلڑے کو جھکا نہ سکے۔
    عدل و مساوات کا جو پیمانہ اسلام نے دیا ہے، دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔حقیقت میں عدل و انصاف ایسا عالی وصف ہے جو کسی بھی قوم یا معاشرے کو استحکام عطا کرتا اور بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔یہ وہ وصف ہے جسے اپنانے والی اقوام سربلندی و سرفرازی سے ہم کنار ہوتی ہیں اور جب یہ کسی قوم کا مجموعی مزاج بن جائے تو پھر انہیں دنیاوی لحاظ سے بھی عروج حاصل ہوتا اور آخرت کی کامیابی و کامرانی بھی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔
    جن معاشروں میں اس گوہرِگراں مایہ سے محرومی پائی جاتی ہے، اللہ کے بندوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔ وہ قومیں رو بہ زوال ہو کر تباہی و بربادی سے دوچار ہوجاتی ہیں۔
    عظیم چینی فلسفی ’’کنفیوشس ‘‘سے کسی نے پوچھا کہ اگر ایک قوم کے پاس3 چیزیں انصاف، معیشت اور دفاع ہوںاور کسی مجبوری کی وجہ سے کسی چیز کو ترک کرنا پڑے تو کس چیز کو ترک کیا جائے؟
    کنفیوشس نے جواب دیا:دفاع کو ترک کردو۔
    سوال کرنے والے نے پھر پوچھا: اگر باقی ماندہ چیزوںانصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے؟
    کنفیوشس نے جواب دیا: معیشت کو چھوڑدو۔
    اس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا: معیشت اور دفاع کو ترک کیاتو قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کردینگے؟
    تب کنفیوشس نے جواب دیا:
    ’’  نہیں! ایسا نہیں ہوگابلکہ ایسا ہوگا کہ: انصاف کی وجہ سے اس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگااور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اِس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے‘‘۔
    اسلام میں عدل وانصاف، انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام پہلوئوں پر مشتمل ہے۔ اس کی مختلف اقسام ہیں۔جیسے:
    ٭ معاشرتی انصاف:
       اس سے مراد معاشرے کے ہر شعبے، ہر طبقے اور ہر فرد کو عدل و انصاف فراہم کرنا ہے۔ رنگ ونسل، علاقائیت، لسانی تعصب اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔
    ٭ قانونی انصاف:
     اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مظلوم کسی حاکم، قاضی یا جج کے سامنے کوئی فریاد لے کر جائے تو بغیر سفارش کے اور بغیر رشوت کے اسے انصاف مل سکے۔ کسی شخص کی غربت یا معاشرے میں اس کی کمزور حیثیت حصول انصاف کے لیے اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اور نہ یہ ہوکہ کوئی شخص اپنے منصب یا دولت کی وجہ سے انصاف پر اثر انداز ہوسکے۔
    قانون کی نظر میں سب کے حقوق میں برابری ہونی چاہیے۔جب کسی قوم میں یہ بات آجائے کہ عام آدمی جرم کرے تو سزا مختلف ہو اور کوئی بڑا آدمی جرم کرے تو سزا مختلف ہو۔پھر اس قوم کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
    ٭ سیاسی انصاف:
     اس کا معنیٰ یہ ہے کہ امورِ مملکت میں توازن و اعتدال قائم کیا جائے۔ معاشرے کے مختلف عناصر، طبقات، قبائل اور گروہوں کے ساتھ انصاف کرنا، ان کے حقوق ادا کرنا، انہیں فرائض کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا۔
    ٭ معاشی انصاف:
      اس کا مطلب یہ ہے کہ مال خرچ کرنے میں افراط و تفریط یا اسراف و بخل سے کام نہ لیا جائے بلکہ میانہ روی اختیار کی جائے۔
    ٭ مذہبی انصاف:
     اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر امرونہی کے مطابق پورا عمل کیا جائے۔
    اسی طرح عدل و انصاف  کے بہت سے مظاہر ہیںجن میں ایک حقیقی مسلمان نمایاں ہوتا ہے۔
    سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ اس کے ساتھ عدل کیا جائے،یعنی اُس کی عبادات و صفات میں کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔اس کا شکر ادا کیا جائے اور کفرانِ نعمت و ناشکری سے بچا جائے۔ اس کی اطاعت کی جائے اور نافرمانی سے بچا جائے۔
    جب سورہ الانعام کی آیت 82 (الَّذِینَ آمنوا وَلَمْ یَلْبِسُو اِیمانَھُمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُھْتَدُون)نازل ہوئی تو اس آیت کریمہ کے متعلق صحابہ کرامؓ پریشان ہوگئے کہ یہ تو بہت سخت شرط ہے۔ان کے ذہنوں میں ظلم کا عام مفہوم تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آیت میں ظلم سے مراد وہ ہے جو حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے فرمایا تھا کہ’’اے بیٹے ! اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔
    بیویوں اور اولاد میں انصاف یعنی ان میں برابری کی جائے اور کسی کے ساتھ دوسرے کے مقابلے پر برتری و ایثار کا سلوک روا نہ رکھا جائے۔خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے گھر میں عدل برقرار رکھتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیک وقت9 بیویاں تھیں جن کے حقوق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ برابری کی۔
    قرآن کریم نے جہاں ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دی ہے وہاں ایک شرط بھی لگائی ہے کہ جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو لیکن اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی نکاح کرو۔
    حدیث شریف میں ہے :   
    "اگر کسی نے اپنی بیوی کو معلق کر دیا یعنی اس کے حقوق ادا کرنے بند کر دئیے تو قیامت کے دن اس کے جسم کا ایک حصہ مفلوج ہوگا۔"
    حقوق کا معاملہ صرف ازدواجی تعلقات نہیں بلکہ اس میں روز مرہ زندگی کے باقی حقوق بھی شامل ہیں۔مثلاً:خرچے،کھانے پینے، رہائش، عزت و توہین کے معاملات میں کمی پیشی کرنا۔ غرض یہ کہ حقوق میں روز مرہ زندگی کی تمام ضروریات شامل ہیں۔
    عدل و انصاف کا یہ اتمام، جس معاشرے میں ہوگا وہاں امن، سکون اور اللہ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو گا۔انصاف بھی ایسا ہو جو سب کے لیے یکساں ہو۔ یہ عدل نہیں کہ اگر کوئی امیر آدمی جرم کرے تو اسے چھوڑ دیا جائے جبکہ غریبوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔
    دین اسلام کا خلاصہ 4چیزیں ہیں۔ان میں سے ایک عدل وانصاف ہے۔عدل سے معاشرے میں امن اور خوشحالی آتی ہے لہذا ہمیں کسی بھی حال میں عدل کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
مزید پڑھیں:- - - - -اللہ تعالٰی پر ایمان ، تمام ارکان کی بنیاد

شیئر: