Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نرم ہندتوا کی پالیسی

جولوگ ہندو مذہب کی اصل روح کو سمجھتے ہیں وہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کو منہدم کرکے بنائی گئی عبادت گاہ میں سرجھکانا پسند نہیں کریں گے
 
معصوم مرادآبادی
    فسطائی طاقتوں اور فرقہ پرست میڈیا نے ملک میں ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہ یہاں سچ بولنے والوں کو پتھروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں تو دنیا میں سچ بولنا کبھی فائدے کا سودا نہیں رہا۔ دنیا کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں سچ بولنے والوں کو ہی سب سے زیادہ آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے۔ یہ آزمائشیں اب اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ اگر کوئی دن کے اجالے میں سورج کی موجودگی کا اعتراف کرے تو لوگ اسے اندھیروں کا باسی قرار دینے لگتے ہیں۔ ایسا ہی تلخ تجربہ گزشتہ ہفتہ سابق مرکزی وزیر اور کانگریسی لیڈر ششی تھرور کو اپنے ایک حقیقت پسندانہ بیان کے حوالے سے ہوا۔ انہیں ایودھیا تنازع پر سچ بولنے کی سزا یوں بھگتنی پڑی کہ فسطائی طاقتوں اور جانب دار میڈیا نے انہیں مجرم بناکر کٹہرے میں کھڑا کردیا حالانکہ انہوں نے جو کچھ بھی کہا تھا وہ دوسوفیصد درست تھا اور تمام صحیح دماغ اور عقل وشعور رکھنے والے لوگ اس کی تائید بھی کریں گے۔ ششی تھرور نے چنئی میں ایک پروگرام کے دوران رام مندر کے حوالے سے یہ کہا تھا کہ کوئی بھی اچھا ہندو یہ نہیں چاہے گا کہ مسجد کے مقام پر مندر بنایاجائے۔ ششی تھرور کے اس بیان پر اس قدر واویلا مچاکہ گویا انہوں نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہے جس کا دنیا میں کوئی وجود ہی نہیں۔ فرقہ پرست میڈیا اور بی جے پی لیڈروں نے مل کر ان پر یلغار کردی۔ اپنے بیان پر غیر ضروری تنازع کھڑا ہونے کے بعد ششی تھرور نے ٹوئٹ میں کہاکہ ’’میڈیا نے میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ میں نے صرف یہ کہاتھا کہ بہت سے ہندو اس لئے ایودھیا میں مندر چاہتے ہیں کیونکہ وہ شری رام کی جنم بھومی ہے۔اچھا ہندو نہیں چاہے گا کہ ایسی جگہ مندر تعمیر ہو جہاں کسی اور کی عبادت گاہ کو منہدم کیاگیا ہو۔ یہ ذاتی بیان ہے۔ میں اپنی پارٹی کا ترجمان نہیں ہوں اور میرے بیان کو پارٹی سے نہ جوڑیئے۔‘‘ ششی تھرور کو یہ وضاحت اس لئے کرنی پڑی کہ بی جے پی اور میڈیا نے اس معاملے میں کانگریس پارٹی اور راہل گاندھی کو گھسیٹ کر انہیں رام مندر کا مخالف قرار دے دیا تھا۔
    ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے مطالبات کے پس منظر میں ششی تھرور نے جو بیان دیا تھا اسے بی جے پی لیڈروں نے اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور کانگریس کو ہندو مخالف قرار دینے کا بہانہ بنالیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس شورشرابے کے درمیان کانگریس ترجمان آر پی این سنگھ کو یہ کہنا پڑا کہ ’’یہ ششی تھرور کا ذاتی بیان ہے۔ رام مندر کا معاملہ عدالت میں ہے اور کانگریس کا یہ موقف برقرار ہے کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا اسے سبھی کو ماننا چاہئے۔‘‘ ششی تھرور نے اپنے بیان میں جو کچھ کہا تھا اس کا کوئی تعلق ایودھیا تنازع کی عدالتی کارروائی سے نہیں تھا بلکہ انہوں نے ایک عام بات کہی تھی کہ کوئی بھی اچھا ہندو یہ نہیں چاہے گا کہ مسجد کو توڑ کر رام مندر بننا چاہئے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کرنے کا موضوع تمام ہندوؤں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ اس بی جے پی اور سنگھ پریوار کا مسئلہ ہے جس نے خالص سیاسی مقاصد کے لئے اسے پیدا کیا ہے اور اس کی آڑ میں پورے ملک کے ماحول کو برسوں سے پراگندہ کیاجارہا ہے۔ بھولے بھالے ہندوؤں کو گمراہ کرکے ملک میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی بھی ایودھیا میں متنازع مقام پر رام مندر بنانے کی مخالفت نہ کرے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جولوگ مذہب کی اصل روح کو سمجھتے ہیں اور جو خالق کائنات کے وجود کو مانتے ہیں، وہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کو منہدم کرکے بنائی گئی عبادت گاہ میں سرجھکانا پسند نہیں کریں گے۔ ششی تھرور نے رام مندر کے معاملے میں حقیقت بیانی سے کام لے کر ایک جرأت مندانہ بیان دیا اور وہ اس پر قائم بھی ہیں۔
    آگے بڑھنے سے پہلے ہم ایک نظر ششی تھرور کے پس منظر پر ڈالتے ہیں۔ ششی تھرور منموہن سنگھ کابینہ میں وزیر مملکت رہ چکے ہیں۔ وہ سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے اقوام متحدہ میں ہندوستان کے سرکردہ نمائندہ تھے۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہیں اور صحت مند دماغ بھی رکھتے ہیں۔ ملک کو درپیش بیشتر مسائل کے تعلق سے ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے چونکہ انہیں کوئی ذہنی بیماری لاحق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فرقہ واریت اور فسطائیت کے خطرات سے ملک کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے ’ہندوطالبان‘‘ کے حوالے سے جو بیان دیا تھا اس پر کافی واویلا مچا تھا لیکن ملک کے موجودہ ماحول میں فرقہ واریت کے مہلک اثرات پر ان کا یہ بیان بالکل درست تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ کانگریس پارٹی کے لیڈر ہیںلیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ایک ایسی پارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں جس میں اکثریت بی جے پی کی ذہنیت والے لیڈروں کی ہے۔ اگر کانگریس میں بی جے پی کی ذہنیت والے لیڈر موجود نہ ہوتے تو کانگریس پارٹی کے ترجمان کو یہ کہنے کی ضرورت ہرگز پیش نہیں آتی کہ ایودھیا تنازع کے سلسلے میں ششی تھرور کا بیان ان کی ذاتی رائے ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر کانگریس پارٹی صحیح معنوں میں اپنے سیکولر نظریات پر قائم رہتی تو اس کے ترجمان کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ ششی تھرور نے جو کچھ کہا ہے وہ نہ صرف سوفیصد درست ہے بلکہ پارٹی ان کی تائید کرتی ہے۔کانگریس نے اس معاملے میں بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کو ناکام بنانے کی بجائے اس کے ایجنڈے کو چھیننے کی کوشش کی اور ملک میں رام راجیہ قائم کرنے جیسے فضول نعرے لگائے۔ اسی کوشش میں کئی بار کانگریس نے اپنے ہاتھ جلالئے۔ حال ہی میں اترپردیش سے کانگریس کے راجیہ سبھا رکن سنجے سنگھ نے برملا کہا تھا کہ کانگریس رام مندر کی مخالف نہیں ہے کیونکہ اسی نے مسجد کا تالا کھلوایا تھا۔ سنجے سنگھ کا یہ بیان حقیقت کے اتنا ہی قریب ہے جتنا کہ ششی تھرور کا یہ بیان کہ کوئی بھی سچا ہندو بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کو پسند نہیں کرے گا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ دونوں بیانات کانگریس پارٹی میں موجود دوقسم کے نظریات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایک نظریہ وہ ہے جس کی نمائندگی ششی تھرور جیسے سچے سیکولر اور محب وطن لوگ کرتے ہیں اور دوسرا نظریہ وہ ہے جس کی نمائندگی سنجے سنگھ جیسے ابن الوقت اور فرقہ پرست کانگریسی کرتے ہیں۔ کانگریس آج بھی بی جے پی کے ہندتوا کے ایجنڈے کا مقابلہ کرنے کی بجائے اسے چھیننے کی کوشش میں مصروف ہے۔ کانگریس جارحانہ ہندتو کے مقابلے میں نرم ہندتو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
 

شیئر: