Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عورت کا گھرہی اس کی اصل دنیا ہے، سیدہ شمیم

میں انجینیئزنگ کی کلاس میں واحد لڑکی تھی جبکہ 180 لڑکے تھے، ہوا کے دوش پر گفتگو
 
عنبرین فیض احمد۔ ینبع
 
انسان کی زندگی کے مختلف ادوار ہوتے ہیں مثلاً بچپن، لڑکپن، جوانی ، ادھیڑ پن اور بڑھاپا۔ یہ وہ مراحل ہیں جن سے گزر کر ہر انسان اپنی زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔ زندگی کے اس سفر میں کئی ایک کٹھن اور دشوار مرحلے آتے ہیں اور بہت سے سہل اور مسحور کن واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جو انسان کو زندگی بھر یاد رہ جاتے ہیں۔ یہ انسان کو کبھی ہنساتے ہیں تو کبھی غم زدہ کر دیتے ہیں۔ یہ سب زندگی کا حصہ ہی ہوتے ہیں لیکن انسان کا سب سے خوبصورت اور حسین دور اس کا بچپن ہوتا ہے جو زندگی کا بڑا ہی نایاب او رانمول دور ہوتا ہے۔ اس دور میں وہ ایک آزاد پرندے کی مانند فضا میں جہاں چاہتا ہے، پرواز کرتا پھرتا ہے۔ یہ دور اس کی قیمتی متاع کی مانند ہوتا ہے جس کے کھو جانے کا غم ا سکو ہمیشہ مضطرب رکھتا ہے۔ بچپن کی وہ یادیں تا عمر انسان کے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں کہیں نہ کہیں جگمگا رہی ہوتی ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ: 
 آتاہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں ،چڑیوں کا چہچہانا
رواں ہفتے ہوا کے دوش پر اردونیوز کی مہمان ایک ایسی ہستی ہیں جنہیں علم سے بے پناہ لگاﺅہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محنت اور جدوجہد ہی اصل زندگی ہے گو کہ انسان بچپن میں ہر فکر سے آزاد ہوتا ہے مگر اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ آپ کی ملاقات سیدہ شمیم سے کراتے ہیں جو درس و تدریس سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے مزاج کی نرمی اور ان کا حسنِ اخلاق ان کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے انجینیئر ہیں اور ان کی طبیعت میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، بناوٹ نام کی نہیں۔ ان کا تعلق عروس البلاد کراچی سے ہے۔ 
سیدہ شمیم کہتی ہیں کہ میری پیدائش بنگلہ دیش میں ہوئی ۔ میری ابتدائی تعلیم بھی ماضی کے ”مشرقی پاکستان“ میں ہوئی جو موجودہ بنگلہ دیش ہے ۔ میرا بچپن بھی وہیں گزرا کیونکہ میرے والد صاحب وہاں ملازمت کرتے تھے ۔یوں زندگی کے چند ابتدائی ایام وہاں گزرے لیکن جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو ہماری پوری فیملی پاکستان آگئی۔ یوں میں نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کراچی سے کیا۔ انٹرمیڈیٹ میں کافی نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے باعث مجھے این ای ڈی یونیورسٹی داخل مل گیا۔ ان دنوں لڑکیاں انجینیئرنگ کے شعبے کو ذرا کم ہی ترجیح دیا کرتی تھیں لہٰذا میں اپنی کلاس میں واحد لڑکی تھی جبکہ 180 لڑکے تھے۔ اس کے بعد ایک اور لڑکی دوسرے شعبے سے تبادلہ کروا کر آئی تھی اور اس طرح کلاس میں ہم دو لڑکیاںہو گئی تھی۔ انجینیئرنگ کرنے کے بعد ایڈمنسٹریشن مینجمنٹ کا بھی کورس کیا۔ اس میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اسی دوران میں نے ایم اے انگریزی بھی کر لیا۔ مجھے جنون کی حد تک پڑھنے کا شوق ہے۔ اتنی ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود میرے اندر علم حاصل کرنے کی جوتشنگی ہے، وہ ابھی تک برقرار ہے اور دل چاہتا ہے کہ او رپڑھائی کروں۔ ویسے بھی علم حاصل کرنے کے لئے کوئی عمر کی قید نہیں ہوتی۔ انسان جب چاہئے علم حاصل کر سکتا ہے۔ محترمہ شمیم کہتی ہیں کہ میں نے کراچی میں کافی عرصے کام بھی کیا۔ پہلے کچھ عرصے کے لئے میں نے ایک ائیرکنڈیشننگ کمپنی میں بطور سینیئر انجینیئر کام کیا۔ اس دوران مجھے این ای ڈی یونیورسٹی سے پڑھانے کی آفر ہوگئی جو میں نے بخوشی قبول کرلی ۔ میں یونیورسٹی کے طلبہ کوتھرموڈائنامکس اور انجینیئرنگ ڈرائنگ جیسے مضامین پڑھاتی تھی لیکن میری یہ ملازمت عارضی طور پر تھی۔ اسی دوران مجھے پی سی ایس آئی آر میں گورنمنٹ کی گریڈ۔17کی ملازمت کی پیشکش ہوگئی۔ ا س لئے میں نے این ای ڈی کی ملازمت چھوڑ کر پی سی ایس آئی آر کی ملازمت اختیار کرلی۔ وہاں میں نے چند سال بحیثیت تحقیقی افسر کام کیا۔ ہر کام کا اپناالگ ہی انداز ہوتا ہے ۔ اسی دوران میری شادی ہو گئی ۔ میں نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دیااور سعودی عرب آگئی۔ میری شادی اریجنڈ تھی۔ میرے شوہر سید محمد جہانگیر نے بھی مکینیکل انجینیئرنگ کی ہوئی ہے مگر وہ لاہورکی انجینیئرنگ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں ۔ وہ سعودی عرب میں کافی عرصے تک ایک حکومتی ادرے میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔
اسے بھی پڑھئے:”معذور کے لئے تو ہے تعزیر یہ دنیا
جب میں سعودی عرب آئی تو مجھے کافی تنہائی اور اپنوں سے دوری کا احساس ہوتا تھا مگر اللہ کریم نے جلد ہی اس احساس کو دور فرما دیا۔ میری زندگی میں میرے بیٹے نے قدم رکھا اور احسا س تنہائی کورونقوں سے بدل دیا۔ اس کا نام ہم نے سید ذکی احمد رکھا ہے۔ اللہ کریم کے کرم و فضل سے وہ بھی بہت ذہن ہے۔ ما شاءاللہ ،ہمیشہ اپنی کلاس میں نمایاں رہا کیونکہ ہم دونوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا تھا۔ خاص کرمیں اس کی پڑھائی پر میں خصوصی توجہ دیتی تھی۔ اسے ہم نے ریاض کے بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ملائیشیا کی ایک مشہور یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ اس نے بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے لئے مکینیکل انجینیئرنگ کے شعبے کا انتخاب کیا۔ انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہم نے اسے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے امریکہ بھیج دیا جہاںاس نے بوسٹن یونیورسٹی سے ماسٹرزکیا اور پھر وہیں ملازمت بھی کرلی۔
یہاں مملکت میں جب میرا بیٹا ذرا بڑا ہوا تو میں درس و تدریس سے منسلک ہوگئی اور مختلف اداروںمیں مختلف سائنسی مضامین پڑھاتی رہی اور اب تک میں درس و تدریس سے ہی منسلک ہوں۔ میں ہمیشہ اپنے تعلیمی کریئر میں اول رہی اور اپنے اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی طرف سے ریڈیو ، ٹی وی کے کوئز پروگراموں میں حصہ لیتی رہی اور بے شمار انعامات حاصل کئے ۔ہماری یونیورسٹی یعنی این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ میں ایک دفعہ سالانہ تقریب میں مختلف شعبوں کے درمیان معلومات عامہ کا مقابلہ ہوا ۔ میں نے اس میں پہلا انعام حاصل کیا۔ اس دور میں سندھ کے وزیراعلیٰ الٰہی بخش سومرو ہوا کرتے تھے اور وہ ہماری اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ ان کے ہی ہاتھوں مجھے کپ حاصل کرنے کا موقع ملا۔
محترمہ شمیم کہتی ہیں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ انسان دنیا میں تھوڑے عرصے کے لئے آیا ہے اس لئے اپنی زندگی کو مثبت مقاصد کے لئے صرف کرنا چاہئے۔ ا س لئے مجھے جو بھی وقت ملتا ہے میں قرآن کریم حفظ کرتی ہوں ۔جب بھی قرآن پڑھتی ہوں، معنی کے ساتھ پڑھتی ہوں اس کی تفسیر او رپھر احادیث پاک، سیرت طیبہ اور دیگر دینی کتابوں کا مطالعہ بھی کرتی ہوں تا کہ دنیا کے ساتھ ساتھ دین بھی لے کر چل سکوں۔ 
ایک سوال پر محترمہ سیدہ شمیم نے کہا کہ میری والدہ گو کہ زیادہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھیں مگر انہوں نے ہم سب بہن بھائیوں کی اس طرح پرورش کی کہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہماری والدہ بہت تعلیم یافتہ ہیں۔ ساتھ ہی گھر کے ہر معاملے کو اتنی خوش اسلوبی سے انجام دیتی تھیںکہ یہ کہناغلط نہیں ہوگا کہ وہ انتہائی قابل قدر گرہستن تھیں۔ اسی لئے شاید آج ہم سب بہنوں کو گرہستی کے ہنر آتے ہیں کیونکہ عورت کا گھرہی اس کی اصل دنیا ہے ،باقی تمام چیزوں کی اہمیت ثانوی ہوتی ہے ۔ اس لئے ہم تمام بہن بھائی نہ صرف پڑھائی لکھائی میں ہمیشہ نمایاں رہے بلکہ ہم سب نے اپنے اپنے شعبوں میں نام پیدا کیا۔ یہ سب میرے والدین کی تربیت اور رہنمائی کا نتیجہ ہے۔ میری ماں گو کہ ایک گھریلو خاتون تھیں مگر ان کو پڑھنے کا بے انتہا شوق تھا ۔وہ جب گھر کے کاموں سے فراغت پاتیں تو دینی کتابیں ، اخبارات ، رسالے ، ڈائجسٹ، ناولوں کا مطالعہ کرتیں۔ وہ عام عورتوں کی طرح نہیں تھیں ۔ وہ نہ کسی کی غیبت کرتیں اورنہ ہی کسی کسی کی برائی سننا پسند کرتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب شیطانی عمل ہوتے ہیں جن سے گھروں کی برکت ختم ہو جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے بھی ان کو دیکھ کر کتابوں سے اتنی محبت ہوگئی ۔ اسی لئے مجھے بھی جب ذراسا وقت ملتا ہے تومیں کتابوں کا مطالعہ شروع کردیتی ہوں۔ 
سیدہ شمیم کہتی ہیں کہ ما شاءاللہ ،میرے سب بہن بھائی ڈاکٹر ، انجینیئر او رایم بی اے ہیں۔ سب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ میرے بڑے بھائی سید مسعود احمد مائننگ انجینیئر تھے۔ انہوں نے شاہراہ ریشم کی تعمیر میں ڈائنامائٹ سے پہاڑ کو اڑا دیاتھا جس کا حفیظ پیرزادہ نے بعد میں افتتاح کیا تھا۔ وہ بلاسٹنگ کے ماہر اوراٹامک انرجی میںتھے اس وقت بھی انہوں نے ایٹمی دھماکے کے لئے کافی کام کیا لیکن وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔
سیدہ شمیم کہتی ہیں کہ عورت کا حسن اس کی سادگی میں جھلکتا ہے انسان کی باطنی خوبصورتی زیادہ معنی رکھتی ہے ۔اکثر لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ میک اپ اور جیولری وغیرہ کا استعمال نہیں کرتیں۔ میرے نزدیک ظاہری خوبصورتی کوئی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ جب انسان کا دل صاف و شفاف ہوتا ہے تو یقینا اس کا عکس انسان کے چہرے پر آجاتا ہے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ انسان کا چہرہ اس کے دل کا آئینہ ہوتا ہے۔ انسان کی جو سوچ ہو گی ،وہ اس کے چہرے پر عیاں ہوگی ۔ اس لئے انسان کااندر سے اچھا ہونا بہت ضروری ہے۔ سیدہ شمیم کہتی ہیں کہ میرے والدین کا تعلق ہندوستان کے صوبے بہار سے ہے۔ میرے والد مشرقی پاکستان جو موجودہ بنگلہ دیش ہے۔ وہاں ریلوے میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ما شاءاللہ، ہم 3بھائی اور 6بہنیں ہیں اور سب اللہ کریم کے فضل و کرم سے اپنے اپنے گھروں میں خوش اور آباد ہیں۔ سب ہی کراچی میں مقیم ہیں۔ اسی طرح میری ساس اور سسر کا تعلق بھی ہند کے صوبے بہار سے ہے اور میرا پورا سسرال کراچی میں ہی آباد ہے۔ میرے تعلقات اپنے سسرالیوں سے کافی اچھے ہیں اور سب میری بہت عزت کرتے ہیں کیونکہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ اگر انسان کا اخلاق اچھا ہو تو دوسرے بھی اس کے ساتھ اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چھوٹی بڑی باتوں کو نظر انداز کردینے میں ہی عافیت ہے۔ جب سسرال والوں سے تعلقات اچھے رہتے ہیں تو شوہر بھی خوش رہتے ہیں اور ازدواجی زندگی پرسکون رہتی ہے۔
سیدہ شمیم کہتی ہیں کہ میں نے اپنا بچپن بڑے بھرپور انداز میں گزرا جو چٹاگانگ میں گزرا۔ جہاں ہمارے گھر کے سامنے کافی بڑی ندی بہتی تھی جس سے ہم اکثر مچھلیاں بھی پکڑتے تھے۔ گھر کے پیچھے بہت بڑا باغ تھا جس میں بہت سارے پھولوں، پھلوں کے پودے اور درخت لگے ہوئے تھے جن پر ہم سب بہن بھائی اکثر جھولا جھولتے تو کبھی ان پر چڑھ کر پھل کھاتے تھے۔ خاص کر برسات کے دنوں میں وہاں کا موسم بہت ہی سہانا ہوجاتا ہے۔ بچپن کی وہ یادیں تو ایسی ہیں جو ہمارے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں موجود رہتی ہیں۔ ہمیں ایسا معلوم ہوتا کہ کل کی ہی کی بات ہے :
امی کی گود اور ابو کے کندھے
نہ روزگار کی سوچ نہ زندگی کے پنگے
نہ کل کی فکر نہ مستقبل کے سپنے
لیکن
اب کل کی ہے فکر اور ادھورے ہیں سپنے 
مڑکر دیکھو تو بہت دور ہیں اپنے 
منزلوں کو ڈھونڈتے ہوئے کہاں کھو گئے ہم
کیوں اتنی جلدی بڑے ہوگئے ہم
شمیم صاحبہ کے شوہر سید محمد جہانگیرنے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ جب شریک سفر سلجھی طبیعت کی مالک ہو او رزندگی کے معاملات کو سمجھتی ہو تو گھر کے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں۔ میری اہلیہ نہ صرف ایک اچھی بیوی بلکہ اپنے بچے کیلئے ایک مثالی ماں بھی ہیں۔ وہ ہر کسی کا بہت خیال رکھتی ہیں ۔ یہی ان کی بڑی خوبی ہے ۔ذہنی ہم آہنگی ہو تو یقینا زندگی آسان ہو جاتی ہے ۔
جب ادب پر بات ہوئی تو محترمہ سیدہ شمیم نے کہا کہ یوں تو ہم نے انگریزی ادب او رمعلومات عامہ کی کتابیں کافی پڑھیں لیکن کبھی کبھی میں اردو ادب کا بھی مطالعہ کرتی ہوں ۔ مجھے بہت سارے شعراءکا کلام پسند ہے لیکن میں احمد فراز کی ایک غزل اردونیوز کے قارئین کے نذر کرنا چاہوں گی: 
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے گزرجائے گا
اتنی مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی 
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز 
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

شیئر: