Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہوا کا رخ

***اجمل حسین***
جیسے جیسے مودی حکومت اپنی5 سالہ میعاد کے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے، سیاسی حلقوں خاص طور پر حزب اختلاف میں زبردست کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار میں واپسی کے تانے بانے بن رہی ہے تو حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس2014کی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے کئے گئے وعدے پورے نہ کئے جانے کو موضوع بنانے کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر کچھ نئے ساتھیوں کی تلاش اور پارٹی سطح پر کسی بھی غیر بی جے پی پارٹی کے ساتھ اتحاد کے منصوبے بنا رہی ہے۔اس میں’’ می ٹو مہم‘‘ جہاں ایک طرف بی جے پی کے حق میں مفید ثابت ہو رہی ہے، وہیں کانگریس کے لیے بھی کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم ثابت نہیںہو رہی۔ دراصل بی جے پی کی حمایت کرنے اور اسے ووٹ دینے والا حلقہ کٹر ہندوؤں پر مشتمل ہے۔ مودی حکومت کو جو پہلے ہی کابینہ میں 2 مسلم وزیروں کی موجودگی سے کٹر ہندوؤں میں نکو بنی ہوئی تھی، حالیہ ایام میں مسلمانوں کے اجتماعات میں شرکت و مسلم خواتین کو3 طلاق کے نام پر انصاف دلانے کا ڈھنڈھورا پیٹے جانے سے اسی حلقہ میں اپنی گرفت کمزور اورہندو ووٹوں سے محروم ہوتا محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ رافیل سودے پر پارٹی اور حکومت کی کرکری سے پارٹی کے امکانات پر کاری ضرب لگتا دیکھ رہی تھی۔علاوہ ازیں کسانوں کی ناراضگی سے بھی بی جے پی خوفزدہ تھی۔اس لیے می ٹو مہم کا اسے ان معنوں میں فائدہ ملا کہ جہاں ایک طرف اسے مہاراشٹر میں کسانوں کے رہنما بن کر ابھرنے اور بی جے پی کے لیے مشکلات کھڑی کرنے والے فلم اداکار نانا پاٹیکر کو رسوا کرکے انہیں بی جے پی  مخالف خیمہ میں جانے کی سزا دینے اور رافیل سودے کی جانب سے عوام کی توجہ بھٹکانے کے لیے می ٹو مہم کا زبردست سہار ا ملا، وہیں ایم جے اکبر سے بھی نجات ملنے سے کابینہ میں مسلم وزیر وں کی تعداد دو عددی سے واحدرہ گئی۔
اس می ٹو مہم سے کانگریس کو یہ فائدہ پہنچا کہ اس نے ایم جے اکبر کو نشانہ بنانے کی آڑ میں مودی کے بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ اور خواتین کے تحفظ کے نعروںکے پھس پھسے ہونے کا زور شور سے حوالہ دینا شروع کر دیا۔ چونکہ ابھی تک ہندوستانی میڈیا نریندر مودی کی تعریفوں میں زمین وآسمان کے قلابے ملا ملا کرتھکنے لگا اور زیادہ چیخنے سے اس کی آواز بیٹھنے لگی تو اس نے اچھے دن کا ذکر بھی یہ سوچ کر کرنا بند کردیا کہ اب شاید آئندہ پارلیمانی انتخابات کے بعد ہی اچھے دن کا پھل کھانے کو ملے گا۔ بھکتوں کو بھی دل ٹوٹنے کے بعد ’’ساتھی تو کر لے صبر‘‘ کی تصویر بن کر یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑاکہ آئندہ انتخابات میں ایک بار پھر بی جے پی کو موقع دیا جائے یا نہیں۔ کانگریس نے اسے ہی کیش کرنے کے لیے سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔
چونکہ ایسا کوئی کام نہیں ہو پارہا تھا جس سے کٹر ہندوؤں کا طبقہ خوش ہو کر بی جے پی کی پھر مدح سرائی کرنے کے ساتھ ساتھ اسے خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی اور اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کو ہندوؤں کا مسیحا سمجھتا رہے۔ اس لیے جہاں ایک طرف مودی حکومت کے ساڑھے 4 سال کے دوران اجودھیا معاملہ میں لب دوز رہنے کے بعد آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ایک بار پھر رام مندر کا راگ الاپنا شروع کر دیا وہیں سادھو سماج نے بھی 6سمبر تک مندر کی تعمیر شروع کردینے کا الٹی میٹم دے دیا۔ ایسے حالات میں بی جے پی کی مرکزی و یوپی قیادت نے ان مقامات کے نام جو مسلم ناموں سے مماثلت رکھتے ہیں یاجن سے اردو فارسی کی بو آتی ہے تیزی سے بدلنا شروع کر دئے۔ ہندوؤں میں یہ پیغام بھیجنا شروع کر دیا کہ مسلمانوں کے اجتماعات میں شرکت یا کسی مسلمان کو مرکزی وزیر بنانے سے یہ مطلب نہ اخذ کیا جائے کہ مودی یا یوگی نے مسلم نوازی شروع کر دی ہے۔ اس تاثر کو دھونے کے لیے مودی نے اگر اکبر کے استعفے پر خاموشی اختیار کر کے کابینہ سے ان کی رخصتی کی تائید کی تو یوگی نے رام مندر تعمیر کرنے کی تیاریوں کااعلان اورمسلمانوں جیسے نام والے اسٹیشنوں اور شہروں کے نام ہندو دھرم اور لیڈروں کے نام پر رکھناشروع کر دئے جس کی تازہ مثال الہ آباد شہر کا نام پریاگ راج اور مغل سرائے اسٹیشن کا نام بھارتیہ جن سنگھ کے بانیوں میں سے ایک پنڈت دین دیال اپادھیائے رکھ دینا ہے۔لکھنو کا نام بدل کر لکشمن پور رکھنے کی تجویز ہے۔
چونکہ مودی حکومت اس مخمصے میں مبتلا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بالائے طاق رکھ کر مندر کی تعمیر کے لیے زمین کے حصول کا آرڈی ننس کیسے لایا جائے تو اس کے لئے ایک راستہ یہ نکالا جارہا ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور میڈیا کا سہارا لیا جائے۔ویسے بھی ہمارا میڈیا عدالت لگانے میں ماہر ہے اور ماورائے عدالت کئی فیصلے صادر کرتا رہتا ہے لیکن کانگریس اس سے بھی زیادہ مخمصے میں مبتلا ہے کہ وہ رام مندر کی تعمیر کی مخالفت کر سکتی ہے نہ شہروں ،ا سٹیشنوں اور شاہراہوں و سڑکوں کے نام بدلنے کو برا کہہ سکتی ہے۔غرضیکہ 2019کے عام انتخابات کے دن قریب آتے جارہے ہیں لیکن ابھی تک نہ تو حکمراں جماعت اور نہ ہی حزب اختلاف کوئی حتمی حکمت عملی وضع کر سکی اور نہ ہی عوام کے رویہ سے کچھ پتہ لگ پا رہا ہے کہ بی جے پی حکومت رہے گی یا جائے گی۔ تھوڑے بہت اشارے آئندہ ماہ ہونے والے ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتائج سے ہی لگائے جا سکیںگے۔ 
 

شیئر: