Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیر اعظم کا کامیاب دورہ سعودی عرب

***سجاد وریاہ***
مقام ِاطمینان و مسرت ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے ۔پاکستان کا مقام و مرتبہ بلند ہو رہا ہے ۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان پاکستان کی عزت و تکریم میں اضافے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔وزیر اعظم کے سابقہ دورے کے بعد میں نے کالم لکھا ’’شکریہ سعودی عرب‘‘۔اس میں پاک سعودی تعلقات کو بہتر ہونے کی پیشگوئی کر رہا تھااور پاکستان کے بہترین اور روشن مستقبل کے دریچے وا ہو تے دیکھ رہا تھا۔اللہ کا شکر ہے کہ ان امیدوں اور توقعات کو عملی جامہ پہنایا جا چکا ہے۔دونوں حکومتوں کے درمیان معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم نے ریاض میں سرمایہ کاری کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی مالی مشکلات کا ذکر کیا ۔ان مالی مشکلات کے اسباب کا بھی ذکر کیا ۔انہوں نے کرپشن ،دہشت گردی اور مسلسل جاری جنگ کو بھی پاکستان کی مالی اور کاروباری پریشانیوں کا سبب کہا۔ وزیراعظم کا کمال یہ ہے کہ وہ ہمیشہ پُر اعتماد لہجے میں حقیقت بیان کر دیتے ہیں ۔ان کی تقریر ،لب ولہجہ اور ان کا اعتماد ہی دراصل ان کے عالمی وقار کا سبب بنا۔انہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع اور اہمیت کو بھی بیان کیا۔ان کی باڈی لینگویج اور اندازگفتگو ان کے اند ر موجزن جذبات کی تر جمانی کر رہے تھے۔سامعین میں عالمی سرمایہ کار اور عالمی رہنما بھی موجود تھے جنہوں نے وزیر اعظم پاکستان کے کردار کو بھر پور انداز میں سراہا۔ وزیراعظم، پاکستان کو مشکلات سے نکالنا چاہتے ہیں ۔ان کے احساسات سے ان کی تڑپ کو محسو س کیا جا سکتا ہے۔یہ منظر بہت ہی قابلِ فخر محسوس ہوا جب ہمارا وزیر اعظم شلوار قمیص میں ملبوس بغیر پرچیوں کے عالمی سطح کے فورم پر گفتگو کر رہا تھا۔ سادہ شلوار قمیص میں سعودی عرب کا دورہ کرنے والے وزیر اعظم نے پیغام دیا کہ لاکھوں کے سوٹ پہننے سے عزت نہیں ملتی،شفاف سیاسی تاریخ اور لوٹ مار کے بغیر ملک کو چلانے والوں کو ہمیشہ عزت ملتی ہے۔اللہ کے دربار میں بھی اور دنیا کی تاریخ بھی ان کو اچھے الفاظ میں یاد کرتی ہے۔
سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا ۔نواز شریف اور زرداری کی مسلسل کرپشن نے پاکستان کو عالمی سطح پر ایک کمزور پوزیشن میں لا کھڑا کیا تھا ۔عمران خان نے پاکستان کو خوشحالی دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔وہ اس پر دل وجان سے عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے ملک میں ،سیاسی ،جمہوری،کاروباری اور صحافتی حلقوں میں سعودی عرب کی طرف سے تعاون کے معاہدوں پر ایک طرف خوشی اور اطمینان کا اظہا ر کیا گیا ہے،دوسری طرف’ تنقیدی فوج‘‘بھی حملہ آور ہے۔ان میں بعض بزر جمہرے ایسے بھی ہیں جو نواز حکومت کو 100 ارب ڈالر ملنے کو نواز شریف کے سعودیوں سے ذاتی تعلقات کا سبب قرار دیا کرتے تھے۔آج ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔اس کے 2 ہی اسباب مجھے سمجھ آ رہے ہیں:ایک تو یہ کہ’ ’ذاتی مفاد‘‘کی خاطر حقِ نمک حلالی ادا کر رہے ہیں،دوسری وجہ ان کی طبیعت اور خصلت بھی ہو سکتی ہے۔بعض صحافی حضرات نے مکھی کی طبیعت پائی ہے جو پورے صاف جسم کو چھوڑ کر صرف گندے زخم پر بیٹھتی ہے۔ان بے چاروں نے اپنی توانائیاں صَرف کر کے آقاؤں کو واٹس اپ پر رپورٹ کرنا ہوتا ہے کہ سائیںچیک کریں کیسی نمک حلالی کی ۔ان اپوزیشن جماعتوں کی حالت ایسی طلاق یافتہ عورت کی سی ہو گئی ہے جو خود تو گھر کا مال چوری کرتے پکڑی گئی اور طلاق ہو گئی ،اب چاہتی ہے اب یہ گھر بسنا بھی نہیں چاہیے۔تمام اپوزیشن ایکسپوز ہو گئی ۔کیا مذہبی ،کیا سیاسی رہزن جو رہبر کا روپ دھارے ہوئے تھے ،اللہ کی امان، کیا بری طرح ایکسپوز ہو گئے ہیں۔ان ’’تجربہ کاروں‘‘ نے کرپشن کے تجربات کو پوری طرح استعمال کیا ،اب ملک و قوم کی معاشی سانس بند ہونے کے قریب تھی۔ان کو تو شرم آنا چاہیے تھی کہ ہم نے ملک کو کس حال میں چھوڑا ہے ،یہ الٹا ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘کے مصداق’ ’دندیاں‘‘ نکال رہے ہیں اور عمران خان کو طعنے دے رہے ہیں کہ وہ بھیک مانگ رہا ہے۔کردار کی پستی اسقدر ایکسپوز ہو گئی ہے کہ کوئی ان پر یقین نہیں کرتا ۔ بڑے پروفیسر احسن اقبال اور قمرزمان کائرہ کی تجربہ کار لفاظی ،تحریک انصاف کی غیر تجربہ کاری کے سامنے ڈھیر ہوئی پڑی ہے ۔
بات ہو رہی تھی وزیراعظم کی سعودی عرب سے تعاون کی ،میں سمجھتا ہوں یہ اس حکومت کی کامیاب حکمت عملی ہے،اس وقت آئی ایم ایف سے ڈیل کرنا آسان ہو جائے گا۔چین سے مذاکرات میں اعتماد ہو گا ،ملائشیا سے تعاون پر بات آسان ہو جائیگی۔سعودی عرب نے پاکستان کو ایک بڑی مشکل سے نکال لیا ہے،سعودی حکومت اس وقت دنیا کو پیغام دینے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ وہ بھی امریکی اثر سے باہر نکل رہی ہے۔سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کر کے پاکستان میں مستقل حصہ دار کے طور پر موجود ہو گی،چین سے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔اس طرح چین کو اپنی شرائط پر تیل فروخت کیا جا سکے گا ،چین تیل کا ایک بڑا خریدار ہے ،بلوچستان میں آئل ریفائنری کا قیام ،پاکستان ،چین اور سعودی عرب کے لیے ایک مستقل تعلق کی وجہ بن جائے گا ۔پاکستان ،اس طرح سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت سے نسبتاََ محفوظ ہو جائے گا۔اسی راستے سے افغانستان اور روس کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی،جو بالآخر ایک نئے عالمی بلاک کی طرف بڑا قدم ہو گا۔سعودی شاہی خاندان میں بھی یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ امریکہ ناقابلِ اعتبار ہے،اس کو جتنا بھی مال دیا جائے یہ بلیک میل کرنے سے باز نہیں آتا ۔ابھی چند دن پہلے ہی ٹرمپ کے بیان پر ولی عہد محمد بن سلمان نے جواب دیا کہ ہم ہر چیز کی قیمت ادا کرتے ہیں ،کچھ بھی امریکہ سے مفت نہیں لیتے۔
امریکہ کو بھی دراصل دنیا بھر میں خفت کا سامنا پڑ رہا ہے ۔جب سے ٹرمپ حکمران بنا ہے ،شمالی کوریا،چین اور سعودی عرب سمیت کئی بڑے ممالک اس کو اپنے اثرورسوخ سے نکلتے دکھائی دے رہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں اس وقت پاکستان اور سعودی حکومتوں نے جو مشترکہ اسٹینڈ لیا ہے اس سے عالمی میڈیا میں قابل حیرت انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔سعودی عرب کی بلوچستان میں معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری بھی ان کو اپنے مستقل حریف ایران کے عین پڑوس میں بٹھا دیگی ،جس سے ایران کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ ہم بھی تمہارے پڑوس میں موجود ہیں کیونکہ ایران اپنی ایجنسیوں کے ذریعے یمن اور بحرین میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے بحرین کے اداروں نے ایسے لوگ پکڑے ہیں جو ایرانی ہیں لیکن انہوں نے پاکستانی پاسپورٹس بنوا رکھے ہیں،جس کی وجہ سے اس وقت بحرین حکومت نے پاکستانی ویزے بند کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو شدید مشکلات در پیش ہیں۔میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ایران قابل اعتبار ہمسایہ نہیں،اس نے ہند کو ’’چاہ بہار‘‘ میں بندگاہ بنانے کے لیز کی ہے ،جس سے ہند بالکل پاکستان کے مغربی بارڈر پر بھی شرارتیں کرنے لگا ،کلبھوشن یادیو بھی ایرانی پاسپورٹ پر پاکستان میں پکڑا گیا۔
سعودی عرب ہر لحاظ سے پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے ۔ہمارے مذہبی اور روحانی مراکز بھی سعودی عرب میں ہیں ۔سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تنازعات بھی نہیں ،سعودی عرب پاکستان کے برے ترین وقتوں میں ساتھ کھڑا ہو ا۔اس بار عمران خان نے بھی سعودی عرب سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کر کے سعودی عرب کی کانفرنس کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب نے اس وقت پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا ہے ،میں ایک بار پھر کہنا چاہتا ہوں کہ شکریہ،سعودی عرب۔
 
 

شیئر: