Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں کے سا منے انکی کتابیں پڑھیں، وہ خود راغب ہوجائیں گے

ثمینہ عاصم۔ جدہ
ہمارے ہاں والدین کو معلوم نہیں ہوتا کہ بچو ں کو پڑھائی کی عادت کس طرح ڈالی جائے۔ بچوں کا اسکول کتابوں اور اسکول سے کام کے متعلق ابتدائی تاثربہت اہم ہوتا ہے جس کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ بچوں کو پڑھنے لکھنے سے دوستی ہوگی یا نہیں ۔ وہ اس سے خوش ہو گا یا جبری مشقت سمجھے گا۔ ہمارے لوگوں میں اکثریت کا یہ حال ہے کہ کتاب سے انہیں الرجی ہے۔ مطالعہ کرنا پہاڑ جیسا مشکل کام لگتا ہے۔ زیادہ کتابیں پڑھنے والے کو احمق سمجھا جاتا ہے۔ ان کے طرح طرح کے نام رکھے جاتے ہیں ۔ کتابچی ، کتابی کیڑاوغیرہ ۔ ایسے ماحول میں بچوں کو پڑھانا والدین کی خصوصی مگر سمجھدار توجہ مانگتا ہے۔ میں نے جب اپنے بچے کو اسکول میں داخل کروایا تو سختی سے منع کیا کہ اسے پڑھنے کے لئے نہ کہا جائے بلکہ اس کے سامنے خود کتاب لے کر پڑھنا شروع کر دیں ۔ اسے یہ احساس نہ ہو یہ کوئی کام ہے جسے مشقت سمجھ کر کرنا ہے۔ یا کوئی ڈیوٹی ہے جسے انجام دینا ہے اور جو اس عمر میں اس پر لاگو کر دی گئی ہے ۔ جس وقت ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنا ہوم ورک کرے، ہم اس کی کتابیں خود لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کی کلر پنسل سے کچھ نہ کچھ بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں او ررنگ بھرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بچہ خود بخود متوجہ ہوجاتا ہے۔ ہم سے کتابیں لے کر سبق دہرانے لگتا ہے اور ورک شیٹ نکال کر کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ہم صرف رہنمائی کرتے ہیں۔
بچہ جب ٹی وی دیکھ رہا ہو یا اپنے من پسند کھیل میں مگن ہو یا دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہو تو اس کو اسکول کا کام کرنے کے لئے ہرگز نہ کہا جائے ورنہ اسے یہ تاثر ملے گا کہ اسکول کا کام لطف اندوزی کی بجائے ناگوار کام ہے۔ ہمارے ہاں والدین کا خاص وتیرہ ہے کہ جب بچہ اپنا من پسند کھیل کھیل رہا ہوتا ہے توانہیں اسکول کا کام یاد آجاتا ہے۔ خوشی کے لمحات اس سے زبردستی چھین لئے جاتے ہیں اور پڑھنے بٹھا دیا جاتا ہے۔اس طرح بچہ کتاب سے دشمنی پال لیتا ہے۔ اس وقت بچے کو کتابیں زہر لگتی ہیں۔ دشمن محسوس ہوتی ہیں اور ہم اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ 
والدین اگر اسکول کے ابتدائی دنوں میں یہ رویہ اختیار نہ کریں تو بچوں کی کتابوں او رپڑھائی سے دوستی ہو سکتی ہے او رآگے جا کر پڑھائی جب مشکل ہو جاتی ہے اور تقریباً ہر بچے کی پڑھائی پر توجہ میں کمی آنے لگتی ہے تو بھی پڑھائی میں بچہ دلچسپی لیتا ہے اور مزے سے اپنا کام کرتا ہے۔ گھر میں اگر کتابیں موجود ہوں اور بڑے ان کتابوں کو پڑھتے ہوں تو بچوں کے لئے یہ کافی ہے۔ والد صاحب اگر کاروبار میں مصروف ہیں ، والدہ گھر کے کام میں مگن ہیں اور آپ بچوں پر توجہ نہیںدے رہیں تو یہ صورتحال بھی پڑھائی میں بچوں کی دلچسپی کم کر دیتی ہے لیکن ناسمجھ والدین بچے کو پیسے سے طرح طرح کی سہولتیں دینے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں ٹیوشن وغیرہ سے مدد لینے کا عادی بناتے ہیںتاکہ بعد میں بچوں کو الزام دے سکیں کہ ہم نے تو کوئی کمی نہیں چھوڑی ، ہر خواہش پوری کی لیکن بچے نے پڑھنے لکھنے کی ہماری خواہش پوری ہی نہیں کی۔
یاد رکھئے! پڑھائی لکھائی ایسی چیز نہیں جو دوسروں کی خواہش پر کی جا سکے۔ ہر فرد اپنی خواہش سے پڑھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں سے پہلے والدین کی تربیت ضروری ہے۔ انہیں پڑھائی سے زیادہ اچھے گریڈ اور ڈگریوں کی خواہش ہوتی ہے۔ان کے بچے جب امتحان دے دیتے ہیں تووہ ان کی کتابیں کاپیاں ردی والے کو دے دیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ نیم پڑھے لکھوں کا معاشرہ ہے۔ ہر بچے کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ سب بچے نہ تو ڈاکٹر ہوتے ہیں نہ ہی انجینیئر۔ ہر بچے کا رجحان الگ ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ خالہ کا بیٹا ریاضی میں ماہر ہے تو ہمارا بیٹا بھی ہو۔ممکن ہے کہ وہ پولٹری مہارت حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو ۔ ابتدائی عمر میں ان کی دلچسپی کو درست سمت دینا والدین کی ذمہ داری ہے۔ جتنا شوق والدین بننے کا ہوتا ہے اتنا ہی بچوں کے مستقبل کے لئے فکر مند ہونا بھی ضروری ہے ۔
 

شیئر: