Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سخت فیصلے

**محمد مبشر انوار**
روزمرہ عام زندگی میں بھی اکثر یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ انتہائی کسمپرسی و تنگدستی کی حالت میں زندگی گزارنے والے ،سخت محنت،نیک نیت اور زندگی میں سخت فیصلوں کی بدولت خوشحالی کا سفر طے کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ معمول نہ تو اتنا عام ہے اور نہ اتنا خاص کہ کسی کو زندگی میں اس کا مشاہدہ نہ ہوا ہو۔یہی صورتحال ریاستوں کے ساتھ بھی پیش آتی ہے اور بیدار مغز ،وطن پرست قیادتیں ملکی و عوامی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ،ان مسائل کے بہتر حل کی منصوبہ بندی کر کے ملک و قوم کو بخیر و عافیت کنارے تک لے جاتی ہیں۔ گزشتہ صدی کے وسط میں ،جنگ عظیم دوئم کے بعد ،کئی ریاستوں کی نہ صرف معیشت بری طرح متاثر ہوئی بلکہ عام رہن سہن بھی بری طرح متاثر ہوئے لیکن ان ریاستوں کی قیادتوں کو سلام ،جنہوں نے ہمیشہ ملک و قوم کے مفادات کو ترجیح دی ۔ ملکی وسائل کو قومی امانت سمجھا،اپنی تمام تر اہلیت و قابلیت کو ملکی ترقی کیلئے استعمال کیا،امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا اور عام آدمی کی بہتری کے اقدامات کئے،آج وہ ریاستیں،اقوام عالم میں فخر سے سر بلند کئے ،اپنی محنت کے ثمرات دیکھ رہی ہیں،سمیٹ رہی ہیں۔ ان ریاستوں کااقوام عالم میں بلند مقام و عزت ،اس بات کی گواہی ہے کہ ان کی قیادتوں نے اپنی ذمہ داری میں کہیں کوتاہی نہیں برتی اور نہ ہی کہیں ریاستی مفادات کا سوداکیا ہے،اکا دکا مستثنیات الگ بات ہے لیکن آشکار ہونے پر ریاستوں نے ان مستثنیات کے ساتھ جو عبرتناک حشرکیا،وہ باقیوں کیلئے ایک مثال بن گیا۔ 
پاکستان جیسی ریاست کو اللہ رب العزت نے بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے،یہ وہ ریاست ہے جو زمانہ قدیم کے تجارتی راستے کا مرکز ہے(جسے چین اس وقت دوبارہ جدید ٹیکنالوجی سے استوار کررہا ہے)،معدنیات اس کے علاوہ ہیںلیکن ریاست کی حالت ایسی ہے کہ اسے اپنے معمولات چلانے کیلئے در بدر بھیک مانگنا پڑ رہی ہے،کوئی ایک رہنما بھی ایسا نہیں جس نے اقتدار میں آنے سے قبل بلندوبانگ دعوے نہ کئے ہوں مگر اقتدار سنبھالتے ہی، ریاست چلانے کے خاطر اسے در بدر دھکے نہ کھانے پڑے ہوں۔ نئے جمہوری تجربے کے بعد معرض وجود  میں آنے والی حکومتوں کی حالت دیکھ لیں،رخصت ہونے والی حکومت یہ دعویٰ کرتی رخصت ہوتی ہے کہ اس نے خزانہ بھر رکھا ہے مگر نئی حکومت آتے ہی واویلا شروع کر دیتی ہے کہ خزانہ خالی ہے،اس کی کیا وجہ ہے ؟کیا جانے والی حکومت جھوٹ بولتی ہے یا نئی آنے الی حکومت؟حقائق کو بغور دیکھیں تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ نہ تو جانے والی حکومت جھوٹ بول رہی ہے اور نہ نئی آنے والی حکومت غلط بیانی کر رہی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ گردن گردن مقروض قوم کے حکمران بے دریغ عالمی اداروں و حکومتوں نے قرض لیتے رہتے ہیں اور جیسے ہی حکومت کی مدت پوری ہونے والی ہوتی ہے،ان قرض خواہوں سے وقت حاصل کر لیتے ہیں یا قرضوں کی واپسی کا شیڈول ہی ایسا ترتیب دیا جاتا ہے کہ یہ بلا نئی حکومت کے سرپر ہو۔ نئی حکومت آمدن و ادائیگیوں کے عدم توازن کو دیکھتے ہی واویلا کرنا شروع کر دیتی ہے جبکہ جانے والی حکومت ہاہا کار مچانا شروع کر دیتی ہے کہ ہم نے تو خزانہ بھرا ہوا چھوڑا تھا۔ اس شور و غل میں جانے والی حکومت کے حمایتی نئی حکومت کے لتے لینے شروع کرتے ہیں تو نئی حکومت انہی دوست حکومتوں یا عالمی اداروں کی طرف رجوع کرتی نظر آتی ہے،جن پر بطور حزب مخالف تنقید کرتی نظر آتی ہے۔یہاں یہ امر انتہائی قابل غور ہے کہ ماضی کے جکومتی سربراہان کا طرز زندگی اور عالمی میڈیا پر افشاں ہونے والے ان کے مالی معاملات واضح کرتے ہیں کہ ان حکمرانوں نے کس قدر لوٹ مار مچائی ہے مگر مجال ہے کہ ملکی صورتحال کا رونا روتے ہوئے کبھی انہوں نے اپنے اثاثے ملک میں لانے کی بات کی ہو۔ ان کیلئے یہ ملک صرف سونے کی کان ہے ،جہاں کی شخصیت پرست عوام انہیں راج سنگھاسن پر بٹھانے کیلئے تو تیار ہے مگر ان کے کرتوتوں پر سوال کرنے کی جرآت نہیں رکھتی۔ماضی کی حکومتوں میں لئے گئے قرضوں کی تفصیلات اور ان کے استعمال کی ہوشربا تفصیلات ،مقننہ اور انتظامیہ کے گٹھ جوڑ، ملکی وسائل کی لوٹ مار کے نتیجے میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک شدید ترین معاشی دباؤ کا شکار ہے اور اس سے نکلنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ نئی حکومت کا اس سلسلے میں ببانگ دہل یہ کہنا کہ وہ ان مسائل سے عہدہ برآء نہیں ہو سکتے بوجوہ افسر شاہی کا عدم تعاون،نہ صرف نا اہلیت کو آشکار کرتا ہے بلکہ اس حقیقت کو بھی عیاں کرتا ہے کہ حکومت وقت بگڑی افسرشاہی پر کنٹرول حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ افسر شاہی حکومت وقت کے ساتھ تعاون سے کیوں گریزاںہے؟اس کی انتہائی سادہ وجہ ہے کہ جن حالات میں افسر شاہی گزشتہ کئی سالوں سے روبہ عمل ہے،وہ اس طریقہ کار سے ہٹ کر کسی نئے طریقہ کار کو اختیار کرنا نہیں چاہتی تو دوسری طرف افسر شاہی کا جو خاص مزاج بن چکا ہے،وہ اس سے باہر نکل کرکام کرنے کیلئے تیار نہیں۔ کوئی ایک ایسی مثال نہیں ملتی جس میں افسر شاہی نے شاہی خاندانوں کے احکامات کی تعمیل میں کوئی کسر چھوڑی ہو،اسکے نتیجے میں آنے والی مشکلات کے ثمرات،توقعات سے زیادہ نہ ملے ہوںاور تمام نقصانات کا ازالہ اہلیت سے کہیں بڑھ کر نہ کیا گیاہو۔نئی حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی،جس زبان اور لب و لہجے کا اظہار کیا۔اس نے افسر شاہی کو قبل از وقت ہی تحفظات کا شکار کر دیا اور نتیجتاً ایسے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو نئی حکومت کیلئے نہ صرف دردسر بن رہے ہیں بلکہ اس کی مقبولیت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک سادہ سی مثال ہیلمٹ کے استعمال کی ہے، کہ قانون تو جنرل ضیاء کے دور سے موجود ہے مگر افسر شاہی نے اس پر سختی سے عملدرآمد نئی حکومت سے منظوری لے کر شروع کر دیا،دوسری طرف ہیلمٹ سازی کا سارا ملبہ چوہدری پرویز الہٰی کے ماتھے جڑ کر(اخباری و سوشل میڈیا اطلاعاتکے مطابق) ،حکومت کیلئے مشکلات کھڑی کر دیں۔ مختلف روزمرہ اشیاء پر ٹیکس لگاکر خزانہ بڑھانے کی تجاویز نے ،غریب عوام کی کمر مزید توڑ دی جبکہ حکومت میں آنے سے قبل ٹیکسوں میں کمی کے دعوؤں کا بھرکس نکال کر حکومت کی غیر مقبولیت کو فروغ دیا گیا ۔ 
کیا نئی حکومت کے دعوے غلط تھے یا اسے بھی نظام کا حصہ بن جانا چاہئے تھا یا افسر شاہی کا عدم تعاون کا رویہ غلط ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو دماغ میں کلبلاتے ہیں ،ان کا جواب بھی واضح ہے مگر اس پر عمل درآمد حکومت اور افسر شاہی نے کرنا ہے۔ جن بنیادوں پر اس امر کا فیصلہ ہونا ہے ،وہ بھی واضح ہیں مگر افسرشاہی اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور اس طریقہ کار(جو صرف اسے ہر طرح سہولتیں فراہم کرتا ہے)کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیںوگرنہ ملکی مسائل اتنے گھمبیر بھی نہیں کہ ان کا حل موجودہ افسر شاہی سے نہ نکل سکے۔ مسئلہ صرف ذاتی مفادات کی سوچ سے اوپر اٹھنے کا ہے،جو فی الوقت افسر شاہی کرنے کے لئے آمادہ نظر نہیں آتی۔ بیک جنش قلم ساری ریاستی مشینری کو فارغ بھی نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ ممکن ہے،ان حالات میں جو حل ممکن ہے وہ یہی ہے کہ افسر شاہی ریاست کو مقدم رکھے یاتمام قانونی مراحل کے بعدایسے کارندوں کے خلاف سخت فیصلے کئے جائیں۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں