Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین ،وزیراعظم پاکستان کا منتظر !

سجاد وریاہ۔ الخبر
پاکستان میں نئی حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے ،دنیا بھر میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی نیک نامی اور شفافیت کے چرچے ہیں۔پاکستان چونکہ خطے کا اہم ترین ملک ہے،اس کی جغرافیائی پوزیشن،طاقتور بہادر فوج،جرأت مند قوم اس کی طاقت کے اسباب ہیں۔پاکستان ہرلحاظ سے ایک عظیم ملک ہے۔ اس کو خطے کے معاملات میں اگنور نہیں کیا جا سکتا ۔ماہرین سیاسیات چونکہ کسی بھی ملک کی طاقت کے اسباب میں’ ’قیادت‘‘ کو بھی شامل کرتے ہیں ،اس لحاظ سے جو چیز پاکستان کو نصیب نہیں ہو رہی تھی، وہ ایک اہل اور دیانتدار قیادت تھی۔پاکستان جعلی قیادت کے ہاتھ چڑھا ہوا تھا جنہوں نے خوب لوٹا،پاکستان کو بدنام بھی کیا۔پاکستان پراللہ کا کرم ہے کہ بددیانت اور نا اہل حکمرانوں کے ایک طویل دور کے باوجود اسے خطے میں مرکزی اور بنیادی اہمیت حاصل ہے۔میں سمجھتاہوں کہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کو دنیا کی کوئی بھی طاقت نظرانداز نہیں کر سکتی۔پاکستان کو اس خطے کے’’گیٹ وے‘‘ کا مقام حاصل ہے۔پاکستان کے پاس دو بڑی بندر گاہیں ہیں ،کراچی اور گوادربندر گاہیں اگلے وقتوں میں پاکستان کی ترقی میں بھر پور کردار اداکریں گی۔پاکستان کے ہمسائے میں ہنداور افغانستان کئی دہائیوں سے اندرونی مسائل کا شکار ہیں ۔ہندکشمیر میں پھنسا ہوا ہے جبکہ افغانستان تو عالمی طاقتوں کا ’’پلے گرائونڈ‘‘ بنا ہوا ہے۔ان مسائل کے اثرات یقینی طور پر پاکستان پر بھی آتے ہیں اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں سردی گرمی آتی رہتی ہے،ایران نسبتاًبہتر انتظامی حالت میں ہے لیکن میری نظر میں ایران کبھی بھی قابل اعتبار نہیں کیونکہ کئی ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں ایران کی سر زمین اور ادارے پاکستان کے خلاف استعمال ہوئے ہیں۔ان میں کلبھوشن یادیو کو ایرانی پاسپورٹ دینا اور چاہ بہار بندرگاہ ہند کو لیز پر دینا ،ایسے واقعات ہیں جو پاکستا ن کے خلاف اقدامات ہیں۔نئی حکومت کے قیام کے بعد گزشتہ دوماہ میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے پاکستان کادوسرا دورہ کیا جو کہ مثبت پیغام ہے تاکہ ہمسایہ ممالک خوشگور تعلقات قائم کر سکیں۔
اس تناظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ چین کی اہمیت ،افادیت اور اسکی ہمسائیگی کے پاکستان کے حوالے سے مثبت تاثرات کا اندازہ ہو سکے۔چین ہی ایک واحد ہمسایہ ملک ہے جو تمامتر اخلاص کیساتھ پاکستان کا دوست ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ چین ایک سمجھدار،غیر جذباتی اور حقیقت پسند و ترقی پسند ریاست ہے،دنیا میں تیز ترین رفتار سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے،چین کو دنیا میں ایک ذمہ دار ریاست کا مقام حاصل ہے ۔چین نہ صرف کسی قسم کی جنگی مہم جوئی میں الجھنے سے پرہیز کرتا ہے بلکہ اپنی معاشی پالیسیوں میں شراکت کے فارمولے کے مطابق مخالف فریق کو کاروباری شراکت میں شامل کر لیتا ہے جس سے ایک تو جنگ سے بچا جا سکتا ہے دوسری طرف معیشت کا فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔چین کا ہند کے سرحدی متنازعہ علاقے ڈوکلام میں اختلاف کے باوجود ،ہند کے ساتھ تجارت جاری ہے۔اسی پالیسی کے تحت چین اور پاکستان کے دوستانہ اور کاروباری تعلقات قائم ہیں ۔چین نے تمام حکومتوں کے ساتھ تعاون جا ری رکھا کیونکہ ان کے تعلقات اور مفادات ریاست پاکستان سے وابستہ ہیں۔چین کی ابھرتی معیشت کو دنیا اپنے لیے خطرہ سمجھ رہی ہے۔ ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جس سے چین کو محدود کیا جا رہے ہیں۔دونلڈٹرمپ نے چین کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھا دیا۔امریکہ خاص طور پر نفسیاتی ہیجان کا شکار ہے اور اپنے اثرورسوخ کو خطے میں قائم رکھنے کے لیے ہند کو خطے کا تھانیدار بنانا چاہتا ہے اور چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتاہے ۔چین بھی غافل نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کاروباری تعلقات کو مضبوط بنا کر ہی امریکہ کے عزائم کو خاک میں ملایا جا سکتا ہے۔چین بڑی سرعت سے اس فارمولے پر گامزن ہے۔چین سمجھتا ہے کہ مضبوط پاکستان ہی در اصل مضبوط چین کی ضمانت ہے۔چین کے ساتھ شمال مغربی سرحد 438کلومیٹر مشترکہ ہے جس پر خنجراب کے مقام پر داخلے کا زمینی راستہ ہے۔چین پوری طرح یقین رکھتا ہے کہ اگر پاکستان مضبوط ہو گا تو ہند سے چین کو جنگ کرنے کی ضرورت نہیںہو گی ۔ہم بہت سنتے آئے ہیں کہ چین پاکستان کا دوست ہے تو کیا پاکستان بھی چین کا دوست ہے؟
کیا چین سے صرف پاکستان ہی مفادات حاصل کرتا ہے یا چین کے مفادات بھی پاکستان سے جڑے ہو ئے ہیں ؟ان سوالات کے جوابات پر بھی بحث کر لیتے ہیں۔میں سمجھتا ہوںکہ پاکستان نے بھی چین کے بہت سے مفادات کو تقویت پہنچائی ہے۔چین کو پاکستان نے گوادر کے ذریعے پوری دنیا سے جوڑ دیا ہے۔سی پیک جہاں پاکستان کی ضرورت ہے وہاں چین اسکا سب سے بڑا مفاد حاصل کرنے والا ملک ہو گا۔پاکستان نے چین کو موقع دیا ہے کہ خطے میں اپنی مضبوط معاشی پروگرام کی ترویج کے لیے گوادر بندر گاہ تعمیر کر سکے اور استعمال کر سکے۔چین کے لیے مضبوط پاکستان کا وجود پہلی دفاعی لائن ثابت ہو رہا ہے۔اس وقت عالمی طاقتیں خصوصاًامریکہ کی تھانیداری کمزور ہو رہی ہے۔امریکہ نے ہمیشہ منفی ہتھکنڈوں سے دنیا میں اپنی طاقت کے وحشیانہ استعمال سے مالی مفادات حاصل کیے ،دوسرے ممالک کے وسائل لوٹے۔عراق،لیبیا،شام اور یمن امریکی مفادات کی آگ میں جل رہے ہیں۔امریکہ ایک دہشت اور جبر کی علامت بنا ہوا ہے ۔سعودی عرب سے بھی مالی مفادات حاصل کرتاہے لیکن پھر دھمکیاں بھی دیتا ہے جبکہ چین کی معاشی پالیسی مختلف اور مثبت ہے ،چین دوسرے ممالک کے ساتھ کاروباری شراکت کرتا ہے ،مشترکہ منصوبے شروع کرتا ہے جس سے دونوں ممالک میں مشترکہ مفادات اور معاشی مفادات کے سبب قربت بڑھتی ہے۔دونوں ممالک کے عوام میں قربت بڑھتی ہے۔جنگ و جدل سے بے نیاز ،دونوں ممالک ترقی کے حصول کی خاطر مقابلے کی فضا قائم کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں چین کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے اور امریکہ کی عزت میں کمی ہو رہی ہے۔
میں نے اس کالم میں پاکستان کی اہمیت،طاقت،مواقع اور امکانات پر بات کی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ چین نے نئی حکومت کو بہت مثبت پیغام دیا ہے۔گزشتہ دنوں چین کے پاکستان میں سفیر نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی اور انہیں چین کی حکومت اور عوام کی طرف سے پیغام پہنچایا کہ ہم آپ کا بہت بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں ،یہ بھی کہا کہ ہم پاکستان کو مشکل حالات میں تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔پاکستان کی نئی حکومت عوام کی فلاح کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے ،ہم اس حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔دوسری طرف پاکستان نے بھی چین کے تعاون کو سراہا ۔وزیراعظم عمران خان جو کہ2 نومبر کو چین جانے والے تھے اب آج یعنی یکم نومبر کو ہی اپنے وفد کے ساتھ چین روانہ ہو جائیں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ پہلا موقع ہو گا جب چین اور پاکستان کی قیادت پورے اعتماد اور شفافیت کے ساتھ اپنے منصوبوں کو عوام کی فلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیں گے۔چین ایک عالمی قد کاٹھ اور عمدہ شہرت رکھنے والے وزیر اعظم پاکستان کی میزبانی کرنے کو بے تاب ہے ۔پاکستان اپنی مالی مشکلات کے پیش نظر سعودی عرب سے ایک بھاری پیکیج حاصل کر چکا ہے ،اب چین کے ساتھ کیے جانے مزید معاہدے پاکستان کو معاشی استحکام دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔چین بھی سمجھتا ہے کہ نئی حکومت سستی شہرت کے حصول کے لیے من مانے سودے نہیں کریگی ۔اپنی قوم و ملک کے مفاد کو مدنظر رکھے گی،وہی منصوبے اور معاہدے ہی شروع کیے جائیں گے جن کی حقیقی معنوں میں پاکستان کو ضرورت ہو گی اور پاکستان کو فائدہ ہو گا۔صرف سیاسی ڈُگڈُگی بجانے کے لیے ’’نمائشی منصوبے‘‘ نہیں لیے جائیں گے۔میں سمجھتا ہوں اس معاشی بلا ک میں چین ،پاکستان اور سعودی عرب پہلے ہی شامل ہو چکے ہیں ،سی پیک کے ان منصوبوں کو مزید تقویت ملے گی ،ان منصوبوں میں جب دوسرے ممالک کو بھی شامل کیا جائے گا،ایران ،افغانستان اور ہند کا شامل ہونا یقینی طور پر خطے کی قسمت بدل سکتا ہے ،جب مالی مفادات اور معاشی ترقی کی بات ہو گی تو جنگ کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔میری نظری میں آنے والے وقت میں حکومتوں کو ایسا کرنا ہی پڑے گا اور چین یہ کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔فی الوقت ہم وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ’’گُڈلک‘‘ بولتے ہیں کہ ان کا یہ دورہ پاکستان کے لیے خوشخبریاں لائے جیسا کہ امید کی جا رہی ہے،دونوں ممالک مزید قربت و محبت کے رنگوں میں رنگ جائیں۔
 

شیئر: