Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہندر سنگھ دھونی آخر کار ہندوستانی سیاست کا شکار ہوگئے

 
سید اجمل حسین۔ نئی دہلی
ہندوستانی کرکٹ کے اسٹار مہندر سنگھ دھونی بھی آخرکارہندوستانی کرکٹ میں سیاست کا شکار ہو گئے۔ یوں تو ان کے پر کترنے کیلئے انہیں 33سال کی عمر میں ہی ٹیسٹ کرکٹ کو الوداع کہنے پر مجبور کر کے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہونے والے ہندوستان کے سب سے کم عمر کھلاڑی ہونے کا" اعزاز" حاصل تھا لیکن 37سال کی عمر تک انہیں ٹی ٹوئنٹی میچوں کے لئے بھی ٹیم میں برداشت کئے رہنا کسی حیرت انگیز واقعہ سے کم نہیں تھا کیونکہ یہ وہی مہندر سنگھ دھونی ہیںجنہوں نے 2008ءمیں پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے اس وقت کے نامور اور معروف بلے بازوں سوربھ گنگولی، سچن ٹنڈولکر، راہل دراوڑ،وی وی ایس لکشمن اور وریندر سہواگ کو اس عذر کا اظہارکر کے ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ سے ڈراپ کرادیا تھا کہ وہ نسبتاً کم عمر کے پھرتیلے کھلاڑیوں کے ساتھ ورلڈ کپ کھیلنا چاہتے ہیں اور ان سینیئر کھلاڑیوں میں اسٹیمنا کم ہو چکا ہے جس کا اثر فیلڈنگ پر پڑے گا لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ جس طرح انہوں نے ان کھلاڑیوں سے چھٹکارا پایا تھا سلیکٹرز ان سے ایسے وقت میں چھٹکارا پانے کا اعلان کریں گے جب وہ وکٹ کیپر کے طورپر اس روز بھی اپنا لوہا منوائیں گے جس روز انہیں ڈراپ کرنے کا اعلان کیا جائے گا۔انہوں نے 2014ءمیں آسٹریلیا میں جس طرح ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے ہندوستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ، ساتھی کھلاڑیوں اور اپنے پرستاروں کو چونکا دیاتھا عین اسی طرح چیف سلیکٹر ایم ایس کے پرساد نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ڈومیسٹک اور آسٹریلیا کے خلاف آسٹریلیامیں کھیلی جانے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لئے دھونی کو اسکواڈ سے ڈراپ کرنے کا اعلان کر کے دھونی کے پرستاروں اور ان کے ٹیم ساتھیوں کو ہی نہیں خود دھونی کو بھی ششدر کر دیا۔دھونی نے تو ریٹائرمنٹ کا اچانک فیصلہ کرنے کے باوجود باقاعدہ اعلان کرنے سے پہلے کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری سنجے پٹیل کو میلبورن آسٹریلیا سے فون کر کے اپنے فیصلہ سے مطلع کیا تھا لیکن دھونی کو ڈراپ کرنے سے پہلے سلیکشن کمیٹی نے دھونی کو مطلع کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔ اگرچہ سلیکشن کمیٹی کی اس میٹنگ میں کپتان ویرات کوہلی اور روہت شرما دونوں ہی موجود تھے اور اس میں یقینا ً ان کی رائے بھی شامل رہی ہوگی کیونکہ ان کی مرضی شامل حال نہ ہوتی تو سلیکٹروں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان دونوں کھلاڑیوں کی رائے کے خلاف یا دھونی کو ٹیم میں شامل رکھنے پر ان کے اصرار کو نظر انداز کر سکتے لیکن یہ تو ہندوستانی کرکٹ کی تاریخ رہی ہے کہ پسند نا پسند کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے کہ سلیکشن کمیٹی کا ہر رکن، کپتان و نائب کپتان ،بورڈ کے عہدیداران و اراکین یہاں تک کہ ٹیم کے اسپانسروں کو بھی سلیکشن کمیٹی کا فیصلہ کسی کو شاق نہیں گز رتا۔کرکٹ بورڈ نے جہاں ایک جانب ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے لیے اسکواڈ سے دھونی کو ڈراپ کرنے کا حیران کن فیصلہ کیا وہیں ٹیم میں 2مسلمان کھلاڑیوں بائیں ہاتھ کے فاسٹ بولر خلیل احمد اور بائیں ہاتھ کے اسپن بولر شہباز ندیم کو صرف ویسٹ انڈیزکے خلاف اسکواڈ میں شامل کر کے کیا پیغام دینے کی کوشش کی ہے اسے صرف سلیکشن کمیٹی ہی جانتی ہے لیکن یجوندر چاہل، کلدیپ یادو اور واشنگٹن سندر کی موجودگی میں شہباز ندیم اور بھونیشور کمار،امیش یادو اور جسپریت بمراکی موجودگی میں خلیل احمد اور شہباز ندیم کو شاید اتنا موقع نہیں مل سکے گا کہ وہ ہر فارمیٹ کے لیے ٹیم میں اپنی جگہ بنا سکیں یا دعویداری مضبوط کر سکیں ۔اگر یہ دونوں جوڑی کی شکل میں کھیلتے ہیں تو ٹونٹئی ٹوئنٹی میچوں میں ظہیر خان اور عرفان پٹھان یا یوسف پٹھان اور عرفان پٹھان کے بعد ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ میں کھیلنے والی تیسری مسلم جوڑی ہو گی۔مسلم کھلاڑیوں کی آخری جوڑی2012ءمیںسری لنکا کے خلاف کینڈی ون ڈے میچ میں کھیلی تھی۔ جس میں عرفان پٹھان اور ظہیر خان نے6وکٹیں لیں۔(عرفان 5اور ظہیر ایک وکٹ(۔ ایک سال بعد 2013ءمیں پاکستان کے خلاف محمد شامی مسلم کوٹے سے لیے گئے۔ 5سال تک محمد شامی ہی وقتاً فوقتاً ون ڈے میچز میں مسلم چہرہ بنے رہے۔گو کہ اس دوران جموںو کشمیر کے آف اسپنر پرویز غلام رسول زرگر ون ڈے میچ کے لیے اور حیدر آباد دکن کے فاسٹ بولر محمد سراج ٹی ٹوئنٹی میچوں کے لیے قومی ٹیم میں شامل کیے گئے لیکن دونوں کا سفر بہت ہی مختصر رہا ۔ انہیں عمدہ بولنگ کے باوجو محدود اووروں کی کرکٹ کے لئے قومی ٹیم میں اس طرح مواقع نہیں دیے گئے جس طرح پیوش چاولہ، انباٹی رائیڈو، دنیش کارتک، امیش یادو، امیت مشرااور پارتھیو پٹیل کو ملتا رہا ۔پرویز کا انٹرنیشنل کیرئیر ایک اور سراج کا 3میچز پر ہی محیط رہا ۔اس کے بعد ان دونوں کو ہی سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ اب جب ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز کے لیے اور اسی ماہ آسٹریلیا میں آسٹریلیاکے خلاف ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ کا انتخاب کیا گیا تو ان دونوں کو سب کے ذہنوں سے پوری طرح محو کرنے کے لیے پہلے تو ہوم سیریز میں ویسٹ انڈیز کے خلاف گوہاٹی ون ڈے انٹرنیشنل میں محمد شامی اور بائیں ہاتھ کے فاسٹ بولر خلیل احمد کوشامل کر کے یہ پیغام دیا کہ ظہیرخان اور عرفان پٹھان کے بعد شامی اور خلیل پر مشتمل مسلم جوڑی بولنگ کا آغاز کرے گی۔ لیکن ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کے باقی میچوں کے لیے محمد شامی کو ڈراپ کر دیا گیا اور خلیل تنہا ہی رہ گئے۔ اب محمد شامی کو بالکل ہی فراموش کرنے کے لیے ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے لیے ایک بار پھر ایک مسلم جوڑی کو متعارف کرایا جارہا ہے۔شہباز اور خلیل پر مشتمل اس مسلم جوڑی کا انٹرنیشنل کرکٹ کا سفر کتنے عرصہ تک جاری رہے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن تجربہ یہ بتا رہا ہے کہ ان دونوں کا بھی محمد سراج اور پرویز رسول جیسا ہی حال ہوگا اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز ہی ان کی پہلی اور آخری سیریز ثابت ہو گی اور پھر یہ دونوں بھی سرد خانے میں ڈال دئیے جائیں گے۔
 کھیلوں کی مزید خبریں پڑھنے کیلئے اردونیوز " واٹس ایپ اسپورٹس" گروپ  جوائن کریں

شیئر: