Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خو بصورتی کا معیارگورا رنگ،عقل کا انگریزی زبان

تسنیم امجد ۔ریا ض
  پسند کی شادی،ایشیائی معا شرے میں وا لدین اور اولاد کے ما بین دیوار بن جا تی ہے ۔کبھی کبھی تو آ ما دگی کا ا ظہار کرنے وا لے بھی بعد میں بدل جا تے ہیں ۔خا ندان اور برا دریا ںناک کٹنے کا وا ویلا کر نے لگتی ہیں ۔شور شرابا تب زیادہ ہوتا ہے جب لڑ کے اور لڑ کی کے اسٹیٹس میں فر ق ہو ۔عمو ماًاو نچے گھر و ں کی لڑ کیا ں صرف کہا نیو ں ،ڈرا مو ں اور فلمو ں میں ہی اپنے سے کمتر گھرانوں کے لڑ کو ں کو پسند کرتی ہیں اور والدین سے ٹکر لیتی ہیں ۔اس سلسلے میں لڑ کو ں کا تنا سب زیا دہ ہے ۔معا شر تی تفریق کا ان پر ا ثر کم رہتا ہے ۔کتابِ ما ضی سے ایک ایسی ہی کہا نی آپ کی نذر ہے :
علی اور رو ما نہ ایک ہی یو نیور سٹی میں پڑ ھتے تھے۔دو نو ں کے شعبے الگ الگ تھے ۔بریک کے وقت کینٹین میں ان کا اکٹھا ہو نا ضروری تھا ۔آ ہستہ آ ہستہ ان کو سبھی ”جو ڑی“ کہہ کر بلا نے لگے ۔علی پڑھنے کے لئے میا نوا لی سے کرا چی یو نیور سٹی آ یا تھا۔ اس کے والد ایک بڑے بز نس مین تھے جبکہ رو مانہ حیدر آ باد کے متوسط گھرانے سے تھی ۔علی کو اس کے والد نے الگ فلیٹ اور ملا زم کی سہو لت دی تھی ۔ما ضی میں شیور لے کا بڑا نام تھا۔وہ اس پر بڑی ٹھا ٹ سے آ تا ۔رومانہ کے نین نقش بہت ا چھے تھے جبکہ رنگت کا فی سا نو لی تھی ۔بات چیت میں نہایت مہذب ہو نے کی و جہ سے سبھی اسے پسند کرتے تھے ۔سنا ہے کہ خو شی پا نے کے لئے امتحان ضروری ہے ۔ اس توتا مینا کے جو ڑے کے لئے بھی ا متحان سر پر تھا ۔
رو ما نہ اکثر علی کی عدم موجودگی میں اس کے فلیٹ پر جا تی ۔ وہاں وہ کھا نا پکانے اور دو سرے کا موں میں گھر کے ملازم کی نگرانی ومدد کر تی۔ایک دن جب وہ کام کر رہی تھی کہ دووا زے کی گھنٹی بجنے پر ملازم نے بھا گ کردروازہ کھولاتو علی کی بڑی بہن کھڑی تھی ۔کہنے لگی کہ علی کو سر پرا ئز دینا تھا، ویسے کچھ یہا ں سے شا پنگ کا بھی پرو گرام ہے ۔کچن میں رو ما نہ کو دیکھ کر بو لی تو اچھا اب ہم سے اجا زت لئے بغیر ملازمہ بھی رکھ لی ۔رو ما نہ کا گھبرا ہٹ سے برا حال تھا۔اس نے ملازم سے کہا کہ کھا نا دیکھ لینا میں چلتی ہو ں ۔
علی کے آنے پر اس سے سوا لات کی بو چھاڑہو ئی اور حقیقت معلوم ہو نے پرکرا چی سے میا نوالی تک طو فان بر پا کر دیا گیا ۔بہن نے روتے ہوئے کہا کہ یہ کا لی کلوٹی میرے بھا ئی کو کہا ں سے مل گئی ۔کیا ہمارے نصیب میں فقیر ہی لکھے تھے ۔علی کو بہت دکھ ہو رہا تھا ۔خیر اسے وا پس بلا لیا گیا ۔والد نے اسے دھمکی دی کہ اگر رومانہ کا ساتھ نہ چھو ڑا تو میں تمہیں اس یو نیور سٹی میںآ گے نہیں پڑ ھنے دو ں گا۔کسی نہ کسی طر ح با ت ٹل گئی اور وہ وا پس آگیا ۔
رو ما نہ، علی کی بہن کے تیوردیکھ کر ہی سب سمجھ چکی تھی۔ اس لئے اس نے علی سے کبھی نہ ملنے کا تہیہ کر لیا تھالیکن علی نے اسے تسلی دی اور کہا کہ تم میری پسند ہو اور میں تمہیں کسی طور چھو ڑنے کا سوچ ہی نہیں سکتا ۔وقت اسی طر ح گزرتا گیا اب گھر والے اکثر چکر لگا نے لگے 
ملازم کو بھی سمجھا دیا گیا ۔تعلیم سے فارغ ہو نے پر کرا چی میں رہنا علی کے لئے مشکل ہو گیا تھا ۔باپ نے بلا کر اسے کاروبار میں دلچسپی لینے کا حکم سنادیا ۔علی کا کام میں دل نہیں لگ رہا تھا ۔ایک دن بغیر کسی کو بتائے وہ کرا چی چلا گیا ۔گھر میں کیا شور ہوا وہ ایک لمبی دا ستان ہے ۔علی خالی ہا تھ بے سرو سا مانی کی حالت میں تھا ۔رو ما نہ نے اسے بہت سمجھا یا کہ وا لدین کی بات مان لے اور اسے بھول جا ئے لیکن اس پر کو ئی ا ثر نہ ہواآ خر مجبور ہو کر گھر وا لو ں نے اس کی بات مان لی۔
بارات میں وا لد اور بڑے بھائی و بہن نے شا مل ہو نے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم کسی ایسی جگہ نہیں جا ئیں گے جو ہمارے اسٹیٹس اور معیار کے مطا بق نہ ہو ۔باپ کے الفا ظ تھے کہ میرا او نچا شملہ کیا اسی دن کے لئے تھا ۔رو مانہ کا کہنا ہے کہ میں نے ان کے گھر آ کر کیا کیا نہیں سنا۔میرے ساتھ ملا ز مہ کا سا سلوک ہوا ۔میرا نام ” کلمو ہی “ رکھ دیا گیاتھا۔ مجھے اسی نام سے بلایاجاتا تھا۔آج گو کہ وہ اپنے گھر تین بچو ں کے ساتھ خوش باش ہیں ۔علی والد کی وفات کے بعد کرا چی چلا آ یا لیکن رو ما نہ پرماضی کے ان دنو ں کی نفر توں کے اثرات بہت گہرے ہیں۔وہ اکثر انہیں یاد کر کے سوچتی ہے کہ کاش وہ گوری ہوتی اور امیر ہوتی تو ایسانہ ہوتا ۔
پسند کی شادی اور اس پر گھر والو ں کا بگڑ نا ،پھر لڑ کے کا گھر چھو ڑ کر چلے جا نا ،کبھی پر دیس اور کبھی شہرو ں شہرو ں مارے مارے پھرنا، ہمارے معا شرے کا نا سو ر ہے ۔بظا ہر ہم بہت تر قی کر چکے ہیں،اپنی روایات کو بھی پیچھے چھو ڑنے پر فخر کر تے ہیں لیکن زندگی کے اہم فیصلے ہماری انا کا مسئلہ بن جا تے ہیں ۔ہمارے ہاں 40 فیصد لڑ کیا ں گھرو ں سے جبری شادی کے با عث بھا گتی ہیں جس کا نتیجہ اکثر قتل ہوتا ہے پھرمقد مے با زی کا طویل سلسلہ خا ندا نو ں اور برا دریوں کے مابین ایک جنگ سے کم نہیں ہو تا ۔اس روش سے خا ندا نی نظام میں درا ڑیں پڑ چکی ہیں۔اولادیں بغاوت کو تر جیح دینے لگی ہیں۔یہ رویے مجمو عی تر قی کے را ستے کی دیوا ریں ہیں ۔سما جی ما ہرین کا کہنا ہے کہ شادی بیا ہ کے معا ملات کو انا یا عزت کا سوال بنانے میں برادریو ں اور قبیلو ں کے خود سا ختہ قوا نین حارج ہیں۔بے جو ڑ شا دیا ں اکثرکسی نہ کسی لا لچ کی بنیاد پر ہو تی ہیں ان میں عمرو ں کے فر ق کو بھی نہیں دیکھا جا تا ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم انسا نیت کے تقا ضو ں اور اخلا قیا ت کی اعلیٰ قد رو ں کا پاس رکھیں ۔اولاد کی زندگی کے سبھی فیصلے اپنے ہاتھ میں رکھنے کی بجائے انہیں روایتی زندگی کا شعور بچپن سے ہی دیں ۔رشتو ں کی قدرو قیمت بتا ئیں ۔گھر کے ہر سینیئر فرد کو رول ما ڈل کا کردار ادا کرنا ہے ۔رنگ روپ کی بجا ئے کر دار کی خو بصورتی کا شعور ہی ہماری زند گی کا محور ہو نا چا ہئے ۔بد قسمتی سے آج ہمارے نزدیک خو بصورتی کا معیارگورا رنگ اور عقل کا معیار انگریزی زبان ہے ۔والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ ،مختلف سو سا ئٹیو ں،میڈیا اور این جی اوز کو بھی اس موضو ع پر کام کرنا چا ہئے ۔مغرب میں مشتر کہ خا ندا نی نظام مو جو د ہی نہیں ۔ہمارے ہا ں عا ئلی زندگی کے استحکام کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ ہمارے ہا ں مرد اور عو رت کے کاندھوں پر الگ الگ ذ مہ دا ریا ںہیں ۔عورت پر گھر داری اور بچو ں کی پر ورش کی نہایت اہم ذمہ داری ہے ۔وہ خواہ ملازمت بھی کر رہی ہو پھر بھی اس ذمہ داری سے فرار اختیارنہیں کر سکتی ۔گھرکا کوئی فرد اگر اپنی پسند کے مطا بق رشتہ جو ڑ ہی لیتا ہے تو پھر ہمارا فرض ہے کہ اس رشتے سے انصاف کریں ۔نیا آ نے والا آپ کی محبت کا طلبگار ہو تا ہے ۔اس کو اپنا بنا نے کے لئے دو میٹھے بول ہی کا فی ہو تے ہیں۔
 

شیئر: