Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تکریم

***محمد مبشر انوار***
موجودہ صورتحال کے تناظر میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے ایک بیان کا حوالہ انتہائی بر محل ہے،فرماتے ہیں کہ اندیشہ ہے میری امت پر ایک زمانہ ایسا بھی آئیگاکہ جب اسلام میں سے اسکے نام کے سوا کچھ نہیں بچے گا،قرآن میں اسکے رسم الخط کے سوا کچھ نہیں بچے گا،مومنوں کی مسجدیں آباد تو بہت ہونگی مگر ہدایت سے خالی ہونگی اور ان کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے، فتنہ انہی میں برآمد ہو گا اور انہی میں گھس جائیگا (یعنی ان کا کام فتنہ،جنگ و جدال بھڑکانا ہوگا ،مراد اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کے جذبات کو بھڑکانا،انگیخت کرناہو گا)اور مسلمانوں کے اندر نفاق کو ہوا دینا ہو گا۔نفاق کسی بھی قوم کی تباہی کیلئے زہر قاتل کا کام کرتا ہے اور اس وقت مسالک و فروعی اختلافات نے امت محمدیکو جس طرح ٹکڑوں میں بکھیر رکھا ہے، ہمارے سامنے ہے۔ہر فرقہ انتہا پسندی میں دوسرے فرقے کو کافر اور واجب القتل قرار دینے سے نہیں چوکتا۔ یہ بھی ایک عجب تماشہ ہے کہ انتہا پسندی کی اس دوڑ ،کفر اور واجب القتل کے فتاویٰ میں ہمارا ملک سب سے آگے ہے جبکہ باقی دنیا میں فتوؤں کا اختیارکسی ایک مخصوص ادارے یا فرد کے پاس ہے۔ پاکستان میں معاملات اس کے قطعی الٹ ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناتے ہوئے معمولی اختلافات،حاضر دماغی و چرب زبانی کی بنیاد پر نہ صرف الگ ٹولہ بلکہ اپنی سیاسی و مذہبی جماعت تشکیل دے لیتا ہے اور سادہ لوح و معصوم عوام کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ 
ناموس رسالتکے نام پر اس قوم کے جذبات کونہ صرف انگیخت کیا جا تا ہے بلکہ ان کے ساتھ بآسانی کھیلا بھی جا تا ہے۔ناموس رسالت کے تحفظ میں اگر یہ جان کام آئے تو اسے سعادت سمجھوں گامگربد قسمتی سے گزشتہ چند دہائیوںمیں سب سے زیادہ ناموس رسالت کے نام پر اس قوم کو استعمال کیا گیا ہے۔ توہین رسالت کے حوالے سے آسیہ مسیح کا مقدمہ اس وقت انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے جس نے ملکی صورتحال کو انتہائی مخدوش کر رکھا ہے۔عاشقان رسولکے نزدیک وزیراعظم پاکستان،چیف جسٹس آف پاکستان اورچیف آف آرمی اسٹاف فریق بن کر نہ صرف خود توہین کے مرتکب ہوئے ہیںبلکہ واجب القتل بھی ہو چکے ہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ معاہدے کے بعد یہ الفاظ واپس لئے جا چکے ہیںمگر کیا الفاظ کاواپس لیا جانا اُن کی حدت و شدت کو کم کر سکے گا؟عوام کے ذہنوں میںجو بیج بویا گیا ہے،اس کی کاشت رک سکے گی؟کسی بھی دوسرے موقع پر کیا یہی سوچ مزید تقویت نہیں پکڑے گی؟ایسی سوچ سے کس کو فائدہ پہنچے گا؟عاشقان رسولکو ان سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے،کیا وہ ان سوالوں پر غور کرنے کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہیں؟آسیہ مسیح مقدمے کے حوالے سے آج حقائق گرد و غبار کی نذر ہو چکے ہیں اور ممکن نہیں کہ مستند حقائق سامنے لائے جا سکیں مگر جو حقائق دستیاب ہیں ان کے مطابق پانی پینے پلانے کی’’سنی سنائی‘‘ پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا،مشتعل گاؤں کے سامنے ایک عورت ذات سے اقبال جرم کروایا گیا(جو کسی طور بھی انصاف کے اصولوںکے مطابق نہیں)کہ وہ اپنی جان کی امان کیلئے اس جرم کو قبول کرنے پر مجبور ہوئی۔ بعد ازاں مختلف اوقات میں آسیہ مسیح نے اپنی مقدس کتاب بائبل پر حلف اٹھا کر اس جرم کی صحت سے انکار کرنا چاہا،جس کی اسے اجازت نہ دے کر انصاف کے اصولوں کا قتل کیا گیا،دین اسلام کی بنیادی روح سے انحراف کیا گیا۔ برادرم کلاسرہ صاحب نے اپنے پروگرام میں بجا طور پر کہا کہ ہم کیسے عاشق رسولہیں،جو توہین رسالت ثابت نہ ہونے پرمشتعل ہیں،کیا ہمیں اس امر پر سجدہ شکر نہیں بجا لانا چاہئے کہ ہمارے نبی اکرمکی شان اقدس میں گستاخی کا ارتکاب نہیں ہوا؟یہ کیسے عاشقان رسولہیںجو کسی سے گستاخی کروا کر اسے جہنم واصل کروا کر ہی جنت کے حقدار بننا چاہتے ہیں؟کیا یہ حقیقت کہ امت محمدیؐ سرکار دوعالم کی شان اقدس کی پہرے داری کر رہی ہے،کسی کو گستاخی کی اجازت نہیں دیتی اور ہر صورت اپنا کردار ادا کرتی ہے،کافی نہیں؟
یہ تو وہ حقائق ہیں جن کاتعلق بہر طور مقدمے کے قانونی پہلوؤں سے بنتاہے جبکہ اس سے ہٹ کرکیا ہمارا سماجی ماحول اس قسم کی گستاخی کی اجازت دیتا ہے؟یا کوئی غیر مسلم ایسے جرم کا ارتکاب کر سکتا ہے؟اس پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ کوئی بھی مسلمان اُس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا ،جب تک وہ سرکار دوعالم سے قبل آنے والے انبیائے کرام علیہم السلام پر کامل ایمان نہ رکھے،ان کی تکریم میں کسی قسم کی کمی نہ آنے دے لیکن اس کے باوجود مسلمان ممالک سے غیر مسلم ممالک میں رہائش پذیر مسلمانوں کا رویہ بغور دیکھیں،اکثریت اپنے مسلم ناموں کو بگاڑ کرغیر مسلم معاشروں میں سکونت پذیر ہیں تا کہ متعصب یا انتہا پسندوں سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ حفاظتی اقدامات اس پس منظر میں ہیں جب کوئی مسلمان ،کسی بھی نبی کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس کا ایمان قائم ہی نہیں رہ سکتا۔ دوسری طرف ہمارے معاشرے میں بھی یہی صورتحال پائی جاتی ہے کہ غیر مسلموں کی اکثریت ایسے ناموں کو اختیار کرتی ہے،جس سے ان کی مذہبی شناخت آشکار نہ ہو سکے تا وقتیکہ ان کا مکمل نام سامنے نہ آئے۔ مذکورہ مقدمے میں بھی مجرمہ،ملزمہ آسیہ مسیح کی شناخت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کا پورا نام نہ لیا جائے،یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی کسی مسلم گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ بظاہر یہ معمولی سی بات اپنے اندر بہت زیادہ معنویت وگہرائی رکھتی ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں ،جہاں ایک ذمی کے حقوق کا تحفظ ریاست فراہم کرتی ہے،کس قدر گھٹن زدہ اور خوف کا ماحول ہے ۔ عاشقان رسولکیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ کیا دین رسولکی یہی تعلیمات ہیں؟کیا اسلاف نے دین اس طرح پھیلایا تھا؟قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا یہ انداز رہا تھا؟غیر مسلم تو آج تک یہ واویلا کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور ہمارے خودساختہ لبرلز کی کثیر تعداد بھی ان کی ہم خیال نظر آتی ہے مگر کیا کسی نے کبھی اس حقیقت کا اظہار کیا کہ تلوار کے زور پر فاتحین نے کبھی ذمیوں کے حقوق سے پردہ پوشی کی یااختیار ختم ہونے پرجزیہ کی رقم واپس کر دی گئی؟یا مسلم حکمرانوں کے حسن سلوک،کردار اور انصاف پسندی نے غیر مسلموں کو اسلام کی جانب راغب کیا؟کیا وہ مسلمان نہ تھے جنہوں نے مفتوحہ علاقہ قاضی کے فیصلے پرفقط اس لئے خالی کردیا کہ اسلامی اصولوں کی پیروی نہیں کی گئی تھی؟نظم و ضبط کی ایسی مثال کبھی اس زمین نے پہلے دیکھی اور نہ بعد میں دیکھے گی۔آسیہ مسیح کے مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے جن زریں اصولوں کو مد نظر رکھا ہے اور جس حدیث پر اختتام کیا ہے وہ انتہائی قابل غورو قابل تقلید ہیں۔حدیث مبارکہ ’’جان لو !جو کوئی بھی کسی غیر مسلم یا اقلیت پر ظلم کرے گا،سختی سے پیش آئیگا،ان کے حقوق سلب کرے گااور ان کو ان کی برداشت سے زیادہ ایذا دے گا اور ان کی مرضی کے بر خلاف ان سے کچھ چھینے گا،میں(حضرت محمد)اس کے بارے میں روز قیامت شکایت کروں گا‘‘ (ابو داؤد)۔
ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے والوں سے گزارش ہے کہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں ،اداروں کو اپنا کام کرنے دیںاور ان کے فیصلوں کو تسلیم کر کے ثابت کریں کہ ہم ایک منظم ملک و قوم ہیں ،اسی میں ہماری،ملک کی اور دین کی تکریم ہے۔
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں