Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ بھی تو تھا!

جاوید اقبال
ہر برس ایک دفعہ یوم سیاہ کشمیر آتا ہے اور ایک بار یوم یکجہتی کشمیر۔ سال میں 2 بار ہم اکٹھے ہوتے ہیں۔ مقررین جوش سے بھرے اسٹیج پر آتے ہیں۔ دہنوں سے کف اڑتی ہے۔ نعرے لگاتے گلے ہلکان ہوتے ہیں، ہر بار آزادی کشمیر کی قرار دادیں متفقہ طور پر منظور کی جاتی ہیں جن میں ناپاک دشمن کو کشمیر پر مظالم توڑنے سے باز رہنے کو کہا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کی مذمت کی جاتی ہے۔ لیکن یہ تو سکّے کا ایک رخ ہے۔ یہ تو صرف تاریخ کے اس دور پر گریہ کیا جاتا ہے جس کا آغاز 24 اکتوبر 1947ء سے ہوا تھا اور جو 26 اکتوبر کو صرف 2 دن کے بعد اختتام پذیر ہوا تھا۔ ہم میں سے کوئی حقیقت پسند نہیں۔ کوئی اس لاپرواہی، سستی اور غیر ذمہ داری کا ذکر نہیں کرتا جو 24 ؍اکتوبر 47ء سے پہلے کے ایک ڈیڑھ ہفتے میں سرینگر پر یلغار کرنے والے کشمیری مجاہدین نے دکھائی اور جس کے نتیجے میں ہمالیہ کی گود گزشتہ 71 برس سے خون کے آنسو رو رہی ہے اور جانے کب تک اس وادی ستم پرور کی لہو کی پیاس بھڑکتی رہے۔ آئیں ذرا ان ایام پر نظر ڈالیں جو ہندوستانی فوج کے سرینگر کے ہوائی اڈے پر اترنے سے پہلے تھے۔ ابتدائی اقدامات مکمل کرچکنے کے بعد 20؍اکتوبر 1947ء کی رات کو کشمیری مجاہدین نے سرینگر کی جانب پیشقدمی کی۔ اگلے 2 روز کے دوران مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج اور راشٹریہ سیوم سیوک سنگ کے دستوں کو شکست دے کر کوہالہ، دومیل اور مظفر آباد فتح کر لیے۔ مظفر آباد سے آگے 10 میل دور گڑھی دوپٹہ کے مقام پر ڈوگرہ فوج کو مجاہدین کے ہاتھوں ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد اوڑی، بارہ مولا اور سرینگر تک راستہ صاف تھا۔ 24؍ اکتوبر کو مجاہدین نے مہورہ پر قبضہ کر کے وہ پاور ہائوس اڑا دیا جس سے سرینگر شہر کو بجلی فراہم ہوتی تھی۔ اس وقت مہاراجہ ہری سنگھ اپنے راج محل میں دسہرہ کا دربار لگائے بیٹھا تھا۔ مہورہ سے مجاہدین کا لشکر بارہ مولا پہنچا تو دیکھا کہ ڈوگرہ فوج اور آر ایس ایس کے درندے اس شہر کو تاخت و تاراج کر کے پہلے ہی وہاں سے بھاگ چکے تھے۔ سرینگر کی طرف مجاہدین کی یلغار کی خبر پاکر انہوں نے بے شمار نہتے اور معصوم مسلمان شہریوں کو شہید کر ڈالا تھا۔ ان کے گھر نذر آتش کردیئے تھے۔ بارہ مولا کا شہر ملبے کا ڈھیر بنا پڑا تھا۔ وہاں سے سرینگر صرف 35 میل دور تھا۔ آگے سڑک بالکل صاف تھی۔ دشمن کی طرف سے کسی بھی مزاحمت کا شائبہ تک نہ تھا۔ مجاہدین کا لشکر فتح و نصرت کے ڈنکے بجاتا بارہ مولا تک آپہنچا تھا اور اب صرف چند گھنٹوں میں وہ آگے بڑھ کر سرینگر کے ہوائی اڈے پر قبضہ کر کے اس مظلوم ریاست کی تاریخ کا دھارا بدل سکتا تھا۔
مہورہ کا بجلی گھر مجاہدین کے ہاتھوں شکستہ ہوجانے کی وجہ سے جب سرینگر کا شہر تاریکی میں ڈوبا تو ڈوگرہ نسل کے ہندو راجپوت مہاراجہ ہری سنگھ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ اپنا بیش قیمت سامان 8، 10 ٹرکوں پر لادکر راتوں رات بانہال روڈ کے راستے جموں کی طرف فرار ہوگیا۔ جموں کا شہر اور اس کے مضافات مسلمان آبادی سے یکسر خالی ہوچکے تھے اور یہیں سے بعد کے چند واقعات تاریخ کی کُہر میں غیر واضح لپٹے پڑے ہیں۔ 
ہم واپس سرینگر چلتے ہیں۔ 26 ؍اکتوبر کو صبح 9 بجے ہندوستانی ہوائی جہازوں نے ہندوستانی فوج کے دستے سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتارنا شروع کردیے۔ ایئر فورس کے جہازوں سے ان کے برآمد ہوتے ہی آزادی کشمیر کی جنگ کا پانسہ اچانک پلٹ گیا۔ مجاہدین کے لشکر کا زیادہ حصہ 2 روز سے خواہ مخواہ بارہ مولا میں اٹکا ہوا تھا۔ اگر اس لشکر کا تھوڑا سا حصہ بھی یلغار کر کے سرینگر ایئر پورٹ پر قابض ہوجاتا تو ہندوستانی فوج وادی کشمیر پر تسلط جمانے میں کسی طرح بھی کامیاب نہ ہوسکتی۔ اس کے برعکس مجاہدین کی ہمت ٹوٹ گئی، ان میں ایک طرح کی بھگدڑ مچ گئی اور وہ انتہائی غیر منظم طور پر اپنے اپنے علاقوں کی طرف واپس جانا شروع ہوگئے۔ قسمت تو دیکھیے کہ آٹوٹی کہاں کمند۔ اور یہی وہ مقام ہے جو اکثر تاریخ اسلام میں متعدد مواقع پر آیا ہے۔ جب ظفر باب قدم روک دیے گئے ہوں اور دم واپسیں آگیا ہو۔ طارق ابن زیاد ہو یا محمد بن قاسم، انجام اپنی یا اپنوں کی ہی کاہلی اور غیر ذمہ داری سے درد ناک ہوا ہو۔ بارہ مولا میں مجاہدین کے طویل قیام کی مورخین 3 وجوہ بتاتے ہیں۔ ایک نظریہ تو یہ مشہور ہے کہ مجاہدین کے کمانڈر میجر خورشید انور نے اپنی سپاہ کو بارہ مولا میں اس وجہ سے روکے رکھا کہ سرینگر پہنچنے سے پہلے وہ کشمیر کے سیاسی مستقبل میں اپنی ذاتی پوزیشن اور مرتبے کو صاف طور پر متعین اور مستحکم کرنے میں ہمہ تن مصروف ہوگئے تھے۔ یوں سرینگر کی جانب مجاہدین کی پیشقدمی معرض التوا میں پڑی رہی۔ دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ شیخ عبداللہ کی نیشنل پارٹی کے ایجنٹوں نے طرح طرح کے نفسیاتی حربوں سے کام لے کر مجاہدین کی صفوں میں یہ افواہ پھیلا دی کہ ہندوستان کی منظم فوج کیل کانٹے سے لیس ہوکر میدان جنگ میں اتر آئی ہے تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مقبول شیروانی نام کے ایک نیشنل کانفرنس کے سیاستدان نے مجاہدین کے ایک لشکر کی بارہ مولا تک راہنمائی کرنے کے بہانے اسے ایسے طویل اور پیچیدہ راستوں پر ڈال دیا کہ وہ 2 روز تک دشوار گزار اور غلط گھاٹیوں میں ہی بھٹکتا رہا۔ باقی ماندہ لشکر بارہ مولا ہی میں بیٹھا اپنے اس حصے کا انتظار کرتا رہا۔ سرینگر ہاتھ سے نکل گیا تو میں منتظر رہوں گا۔ اس دن کا جب یوم یکجہتی کشمیر یا یوم سیاہ کشمیر ہے کوئی مقرر سرینگر کے ہوائی اڈے پر ہندوستانی فوج کے اترنے سے پہلے کے ان ایام کا ذکر کرتے وقت اپنے ہی کشمیری مجاہدین کی کاہلی اور بے احتیاطی پر آنسو بہائے گا۔ اگر بارہ مولا پر قبضہ کرتے ہی فاتح قدم آگے بڑھتے تو آج کشمیر لہو نہ رو رہا ہوتا۔
 

شیئر: