Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’پردیسی معصوم ‘‘

شہزاد اعظم 
جب کوئی پردیسی، پردیس
جب کوئی پردیسی ، پردیس میں قدم رکھتا ہے تو وہ نہ صرف فضائوں کو، ارد گرد کی ہوائوں کو، سماعت سے متصادم صدائوں کو، بچوں کی مائوں کو، پیڑوں کی چھائوں کو، ہر فرد کی زبان اور پائوں کواور ان کی ادائوں کوپرایا سمجھتا ہے ۔ انہیں حیرت و استعجاب سے تکتا ہے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے اور لمحہ در لمحہ یہی سوچتا ہے کہ’’وہ بھی اک دیس تھا، یہ بھی اک دیس ہے‘‘۔یہ نیا نویلا پردیسی آنکھوں میں حَسین خواب سجائے عزم و ہمت کے ساتھ خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اس مصروفیت میں بھی وہ گھر کے بارے میں سوچتا ہے کہ اس ماہ مجھے تنخواہ بھی غیر ملکی کرنسی میں ملے گی، میں جب وطن پیسے بھیجوں گا تو ابو کتنے خوش ہوں گے۔ بہن کے جہیز کی فکر نہیں رہے گی، چھوٹے بھائی کومہنگی یونیورسٹی میں داخلہ دلا دیں گے، بس صرف 5سال لگا لوں، اپنا مکان بھی بن جائے گا اور ہر ماہ کرائے کی مد میں بھری مٹھی نہیں دینی پڑے گی۔5سال کے بعد میں وطن واپس لوٹ جائوں گا، اپنا کاروبار ہوگا، بیوی بچے ہوں گے اور عیش و نشاط ہوگا۔انہی خیالوں میں مگن وہ جا بجا گھومتا پھرتا ہے ، شہر کی بلند و بالا عالیشان عمارتوں کے آگے، پیچھے، دائیں ، بائیں اور کروڑوں کی گاڑیوں کے ساتھ ’’مالکانہ انداز‘‘ میں تصاویر کھنچوا کر وطن اور خاص طور پر بیوی کو روانہ کرتا ہے کہ یہ دیکھیں کہ میں صرف آپ ہی کے ’’سرکا تاج‘‘ نہیں بلکہ غیر ملک میں بھی ’’نوابوں‘‘جیسی عشرت آگیں زندگی گزار رہا ہوں۔وہ 11مہینے اپنی شریک حیات ، بچوں نیز والدین اور دیگر اہل خانہ کے لئے تحائف خرید کر اکٹھے کرتا رہتا ہے اور پھر ایک دن وہ بھی آجاتا ہے جب وہ قیمتی 2پیس سوٹ زیب تن کئے، مہنگی ترین خوشبو ’’پہنے‘‘،جدید فیشن کا حامل معروف کمپنی کا پہیوں والا اٹیچی کیس ایک ہاتھ سے کھینچتے اور دوسرا ہاتھ جیب میں ڈالے ، مردانہ وار چال کے باعث نئے جوتوں کی ایڑیوں سے برآمد ہونے والی ’’ٹکا ٹک ، ٹکا ٹک ‘‘کی آواز پر قدم بڑھاتے اپنے وطن کے ایئر پورٹ پر ’’بین الاقوامی آمد‘‘ کے ہال میں موجود ہوتا ہے ۔ اس کی جیب ’’زر مبادلہ ‘‘ سے لبا لب بھری ہوتی ہے ۔وہ لائونج سے باہر نکلتا ہے تو اس کی نظر استقبال کے لئے آنے والوں پر پڑتی ہے جن میں والدین اور بیوی بچے ہی نہیں بلکہ بہن بھائی، ساس سسر، عمزاد اور عمزادیاں، حتیٰ کہ گھر کی ماسی اور ایک آدھ محلے والا اور ایک دو محلے والیاں بھی اسے خوش آمدید کہنے کے لئے موجود ہوتی ہیں۔ اس کے ابا خوش ہو کر کہتے ہیں کہ ہم نے منی بس کرائے پر لے لی تھی۔اسی دوران بچے اور نوجوان اس کے ہاتھ سے سامان لے کر چل پڑتے ہیں۔ وہ ایک ماہ اپنے گھر میں اس طرح رہتا ہے جیسے وہ اس گھر کا فرد نہیں بلکہ بیرون ملک سے دورے پر آنے وا لی کوئی اہم ترین شخصیت ہے ۔اس کی چھٹیاں ختم ہوتی ہیں اور وہ نئے سرے سے 11ماہ گزارنے میں جت جاتا ہے۔ یوں وقت کا پہیا گھومتا رہتا ہے اور 5سال مکمل ہو جاتے ہیں۔اب وہ واپس جانے کی سوچتا ہے مگر گھر والے کہتے ہیں کہ بس ایک 5سال اور لگا لو، آئندہ انتخابات پر وطن آ جانا، یوں سمجھو، میاں کے 5سال وہاں اور بیوی کے 5سال یہاں۔یوں 10سال گزر گئے۔ اب بیوی نے کہا کہ بچی کا رشتہ آگیا ہے ، اس کی شادی کا بندوبست کرنا ہے ، بڑا بیٹا پڑھنے کے لئے ملائیشیا جا رہا ہے ۔ چھوٹے کو یونیورسٹی میں داخلہ دلانا ہے۔ میرا خیال ہے آپ ابھی 5سال اور لگا لیں۔یہ وہ موڑ ہوتا ہے جہاں سے پردیسی کی ’’مشقت ‘‘ کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے ۔اس مرتبہ وہ وطن جاتا ہے مگر تحائف کی بھرمار نہیں ہوتی۔نہ وہ قیمتی لباس خریدتا ہے ، نہ نیا جوتا۔ معمولی خوشبو لگائے، بیگ کاندھے پر لٹکائے وطن پہنچتا ہے ، ایئر پورٹ سے باہر نکلتا ہے تو اس کی بیوی اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے۔وہ ایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہیں تو ٹیکسی لیتے ہیں اور گھر پہنچ جاتے ہیں۔اس سے ملنے بھی کوئی نہیں آتا۔ رات کے وقت ایک آدھ رشتہ دار ملنے آ جاتا ہے ۔وہ گھر میں 30دن گزارتا ہے اور پھر پردیس کے لئے رخت سفر باندھتا ہے ۔ اس موقع پر وہ بالکل خاموش ہو جاتا ہے ، اس کی آنکھیں بار بار دھندلاتی ہیںاور وہ انہیں ہتھیلی سے یوں پونچھ لیتا ہے جیسے وائپرکار کے شیشے پرپڑی بارش کی بوندوں کو نابود کر دیتا ہے ۔بس یوں ہی وقت گزرتا جاتا ہے اور تیسری دہائی کا آغاز ہو جاتا ہے۔
پردیسی کے بارے میںخیالات کی ترقیم کا سبب یہ تھا کہ چند روز قبل ہم باعث مجبوری مصروف شاہراہ کے درمیان ’’آئی لینڈ‘‘ پر کچھوے کی چال چلتے دفتر کی جانب رواں دواں تھے۔ ہمارے علاوہ ایک انسان اورتھا جو اسی آئی لینڈ پر ہماری ہی رفتار سے چلتا ہماری جانب آتا دکھائی دے رہا تھا۔وہ قریب آیا تو ہم نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں دوائوں کی تھیلی تھی جسے اس نے قیمتی متاعِ حیات کے طور پر دل سے لگا رکھا تھا۔وہ نحیف سا شخص تھا جس کی شکل ہمیں مانوس سی لگ رہی تھی ۔ ہم سڑک عبور کرنے کے لئے رُکے تو پتہ چلا موصوف بھی سڑک عبور کرنے لگے ہیں۔اسی اثناء میں اس ان کی جیب میں رکھا فون ’’سرگرم‘‘ ہوگیا۔ انہوں نے فون اٹھاتے ہی کہا’’رفعت ! تمہارا معصوم صبح و شام کرتے کرتے بہت تھک چکا ، یوں لگتا ہے کہ آرام کا وقت آ پہنچا ہے۔ ویسے بھی اب بیٹی کی شادی ہوگئی اور بیٹے اپنی زندگی اور شریک زندگی کی ناز برداریاںمیں مگن ہیں۔رہی رفعت تو ہم سفر کے بغیر زندگی کے سفر کی عادی ہو چکی ۔ مجھے تو چھٹی پر وطن گئے ہوئے بھی 6برس ہو چکے ہیں۔رفعت!کتنی عجیب بات ہے ، آج مجھے سب کی ضرورت ہے مگر میری ضرورت کسی کو نہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کیا اور ہماری جانب دیکھا۔ ہم نے استفسار کیا کہ ’’آپ معصوم ہی ہیں ناں؟ انہوں نے کہا جی ہاں! مگر ؟آپ کون؟ ہم نے اپنا تعارف کرایا کہ ہم آپ کے ہم جماعت ہوا کرتے تھے۔ وہ ہمیں پہچان کر ہمارے گلے لگ گیا اور روتے ہوئے کہنے لگاکبھی میرے مکان پر آئیے، میں اپنی تنہائی کے ساتھ اکیلا ہی رہتا ہوں۔ آج 24سال کے بعد آپ سے ملاقات ہوئی، میں اُس ماضی میں پہنچ گیا جب شریک زندگی کی طرح مجھے اپنی زندگی بھی عزیز تھی۔آج مجھے صرف اور صرف تنہائی عزیز ہے ۔
 

شیئر: