Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈی جی نیب کابیان حکومت کے گلے پڑ گیا

کراچی (صلاح الدین حیدر) نیب پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل سیلم شاہد نے مختلف ٹی وی چینلز پر اپنے خیالات کا اظہار کیا کر ڈالا۔ حکومت وقت کے لئے نئی مصیبت کھڑی ہوگئی۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ، سب ہی نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک طوفان کھڑا کردیا کہ آخر کسی سرکاری افسر کو زیر التوا مقدمات کے بارے میں کہنے کی ہمت کیسے ہوئی؟پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور آج کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے تو قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریر کر ڈالی جس میں حکومت پر نااہلی کا الزام لگا دیا۔ شیری رحمان، سید خورشید شاہ، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تو آسمان سر پر اٹھا لیا، ان کے کے اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے درمیان خوب نوک جھونک ہوئی، کیا کبھی پہلے کس سرکاری افسر نے ٹی وی پر بیان نہیں دیا، فواد چوہدری کب چپ ہونے والے تھے۔انہوں نے بھی خاقان عباسی کو خوب سنائی ۔ معاملہ بحرانی کیفیت اختیار کر گیا ۔اب تو تقریباً ہر دوسرے ٹی وی چینلر پر مبصرین اس کی مخالفت کررہے ہیں کہ نیب کے اتنے بڑے افسر کو زیر سماعت مقدمات کے بارے میں رائے زنی نہیں کرنا چاہیے تھی۔ نیب کوئی ترجمان یا پریس ریلیز کے ذریعے اپنا موقف عوام کے سامنے پیش کرسکتی تھی۔عوامی دباو بڑھتے ہی نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے فوری طور پر پمراسے سلیم شہزاد کے بیانات اور انٹرویو کی تفصیل طلب کرلیں۔ نیب کے پریس ریلیز کے مطابق یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان کے افسر نے مقدامات میں اثر ڈالنے کی کوشش تو نہیں کی یا محض حقائق بیان کئے ہیں؟ میڈیا میں نیب کے کردار پر بہت زیادہ تنقید ہورہی ہے۔ حمزہ شہباز کب چپ رہنے والے تھے، نیب کو ایک بدنام ادارہ قرار دے دیا، جس قانون کے تحت اسے قائم کیا گیا تھا اسے کالا قانون کہا گیا، لیکن سب یہ بھول گئے کہ نیب کا قانون جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں نہیں بلکہ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں 1997ءمیں بنا تھا جس کے پہلے سربراہ نواز شریف کے دوست سیف الرحمن تھے۔انہوں نے بےنظیر اور آصف زرداری کے خلاف لاتعداد شواہد دنیا کے سامنے پیش کر دیئے تھے کہ دونوں نے مل کر کیسے ناجائز دولت کمائے گی۔ بینظیر کا ایک لاکھوں روپے کا ہار بھی، ایک بینک کے سیف ڈپازٹ والٹ سے نکلا تھا۔

شیئر: