Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کےلئے نیا امتحان

خلیل احمد نینی تال والا
گذشتہ ہفتہ عمران خان کی حکومت کا سیاہ ترین ہفتہ گزرا ہے جس میں پوراملک دھرنوں کی وجہ سے مفلوج ہو گیا تھااور پھر مولانا سمیع الحق کی شہادت کا سانحہ بھی پیش آ گیا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدلیہ کے خلاف آسیہ بی بی کی رہائی مذہبی جنگ میں تبدیل ہو گئی۔عوام سڑکوں پر آگئے اور 3 دن تک تمام کاروبار ٹھپ رہا، جگہ جگہ دھرنوں کی وجہ سے آمدورفت میں خلل پڑا۔شرپسندوں نے اس کی آڑ میں گھیرائو اور جلاؤکا بازار گرم کر دیا۔اربوں کا نقصان بھی قوم کو برداشت کرنا پڑا جبکہ کھربوں کا کاروبار ی نقصان الگ ہوا۔ اس کا کون ذمہ دار تھا؟۔حکومت کو پسپائی اختیار کرنی پڑی،بڑے بڑے دعوے کرنے والے پی ٹی آئی کے وزراء کے غلط مشوروں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ حقیقتاً عارضی صلح نظر آئی ہے اور پہلی مرتبہ فوج، عدلیہ اور حکومت کو مغظات سے نوازا گیا مگر کسی کے خلاف کوئی اقدام نہیں اـٹھایا گیا، بلکہ صلح کے پیغامات بھیجے گئے۔ اگلے دن ہی عالمی میڈیا بتا رہا تھا کہ آسیہ بی بی کو جیل سے رہا کر کے بیرون ملک روانہ کر دیا گیا ہے۔اگر چہ حکومت پاکستان اس کی پر زور تردید کر رہی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ اس کو اسلام آباد میں محفوظ مقام پر رکھا گیا ہے جس پر مخالف پارٹی یعنی تحریک لبیک پاکستان والوں کو یقین نہیں آرہا ہے ۔ وہ دوبارہ ملک کو یر غمال بنا کر عوام کے لئے مصیبت کا پہاڑ کھڑا کرنے کے لئے تیاری پکڑ رہے ہیں اور حکومت سعودیہ عرب ، چین اور دوست ممالک سے مالی امداد جمع کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔
 معاہدہ کی رو سے تو آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف نظر ثانی کی اپیل اور ای سی ایل میں نام ڈالنے کی شرائط تھیں مگر ای سی ایل میں قانونی طور پر صرف مجرم یا ملزم کا نام ڈالا جا سکتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے بری ہونے کے فیصلے کے بعد آسیہ بی بی نہ ملزم ہے اور نہ ہی مجرم اور نہ ہی نظر ثانی اپیل سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ۔ اب نہ تو سپریم کورٹ کچھ کر سکتی ہے نہ کوئی قانون آسیہ بی بی کو کہیں آنے جانے سے روک سکتا ہے ۔ دوسری طرف حکومت کی سبکی الگ ہو رہی ہے اور عوام تصادم کا خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ کوئی حل نہیں نکال رہا۔ ہر کوئی اس پھندے سے جان چھڑانا چاہ رہا ہے ۔ معاملے کو مذہبی رنگ چڑھ چکا ہے ۔ اب قانونی جنگ اس کا حل نہیں ۔ علماء کی جے آئی ٹی بنا کر ان کے سامنے سارے معاملے کو  رکھا جائے اور کوئی شرعی فیصلہ لیا جائے ۔ اگر آسیہ بی بی ملوث پائی جائے تو اس کو سزا دی جائے۔ اگر وہ بے قصور پائی جائے تو دوسری پارٹی کو جھوٹے الزام میں عبرتناک سزا دی جائے اور شرعی عدالت سے اس کا فیصلہ کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس مسئلے کو ختم کیا جائے ورنہ اس مرتبہ بہت خوفناک ردّ عمل سامنے آسکتا ہے۔ حکومت اور مخالفین ہوش کے ناخن لیں اور سنجیدگی سے اس کا حل نکالیں۔ ایک غلطی سے پورے ملک کا امن غارت ہو سکتا ہے ۔ ابھی تو صرف دھمکیوں سے وقت گزارا جارہا ہے ، سولی پر تو غریب عوام ہی چڑھتی ہے ۔ ایک عورت کی خاطر پہلے ہی کئی اموات ہو چکی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سے پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی ہے ، مہنگائی اوربے روزگاری بہت بڑھ رہی ہے۔ ہر قسم کا کاروبار ٹھپ ہور ہا ہے ۔ خریداروں کی جیبیں خالی ہیں ۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتیں قوم کو ہلا کر رکھ چکی ہیں ۔ جب نئی قیمتوںکا مال بازار میں آئے گا تو تباہی پھر جائے گی۔ 
قوم کب تک اور کیوں قربانی دے ۔ ایک روپیہ بھی نادہندگان یا لٹیرے سیاستدانوں سے نہیں نکلوایا جا سکا۔ درجنوں کیس تو دائر ہوئے ، کھربوں کی آوازیں سنائی گئیں ، کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ اُلٹا اسمبلیوں میں دونوں طرف سے چور چور کی صدائیں لگا کر قوم کو بے وقوف بنایا جا رہاہے ۔ طرح طرح کی کہانیاں سننے میں آرہی ہیں ۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ سعودیہ عرب اور چین نے ہمارا بوجھ ہلکا کر دیا ہے ۔ اب ہم آئی ایم ایف نہیں جارہے ہیںتو دوسرے ہی دن ہمارے وزیر خزانہ اسد عمر صاحب بیان دے کر مکر جاتے ہیں اور اسٹاک ایکسچینج پھر نیچے گر جاتا ہے ۔ سارا مصنوعی سانسوں پر گزارا کرایا جارہا ہے ۔ 
اب تو یار لوگ عمران خان کو یو ٹرن خان کا نام دے رہے ہیں ۔ ایمانداری کا صرف ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے ۔ خود ان کے وزراء کرپشن اور لینڈ مافیا بنتے جارہے ہیں۔ جتنا بڑا نام سامنے آتا ہے اتنا ہی بُرا کام نظر آتا ہے ۔ آخر یہ وزراء بھی تو دوسری پارٹیوں سے نکل کر ہی پی ٹی آئی کے جھنڈے میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ یہ کہاں سے ایمانداری کا لبادہ اُوڑھیں گے؟ ایک ایک کر کے وہ واپس اپنے اپنے دھندوں پر لگ جائیں گے ۔ یوں 5سال گزار کر پھر کوئی نیا ٹھکانہ ڈھونڈلیں گے ۔ ویسے بھی ہمارے ’’ہر دلعزیز‘‘ سابق صدر آصف علی زرداری صاحب نے کہہ دیا ہے کہ اگلی بار پھر پی پی پی حکومت بنائے گی۔ اللہ خیر کرے۔ شریف خاندان سے جو کسی طرح بچ گیا وہ پی پی پی والوں کا مقدر بنے گا۔ 
یہ ہفتہ ویسے بھی بہت بھاری نظر آرہا ہے ۔ ملین مارچ بھی کراچی سے دوبارہ شروع ہو چکا ہے ۔ مولانا فضل الرحمان دوبارہ اُوزار تیز کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کبھی پی پی پی ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو کبھی شریف خاندان آل پارٹیز کانفرنس سے بھاگ جاتا ہے ۔ بے چارے دونوں کو پکڑ کر بٹھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کب تک مولانا اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔
 

شیئر: