Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہاجروں نے کراچی کے لئے بہت کچھ کیا

کراچی (صلاح الدین حیدر) ایک معروف ہندو پروفیسر، دانشور اور سیاسی مقررین نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ہندوستان سے تقسیم ہند کے بعد آنے والے مہاجروں نے کراچی کی قسمت بدل ڈالی اور اس شہر کو بین الاقوامی حیثیت دی ہے۔ یہ بالکل سچ ہے 50 سالہ روچی رام نے جو کہ تھرپارکر کا رہنے والا ہے کراچی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد 1921ءمیں کاروباری سلسلے میں تھرپارکر سے کراچی آئے، ان دنوں بزنس کرنا آسان کام نہیں تھا اسی لئے وہ واپس اپنے آبائی گاﺅں لوٹ گئے پھر 1945ءمیں میٹرک کا امتحان دینے کراچی آئے۔ ان دنوں میں صرف 3 ایسے شہر تھے جہاں میٹرک کے امتحانات ہوتے تھے۔ کراچی، حیدرآباد اور شکار پور۔اس زمانے میں مہنگائی نہیں تھی، دودھ عام سڑکوں پر بکتا تھا بلکہ کبھی کبھی تو لوگ مفت بھی فراہم کردیتے تھے۔ کراچی مچھیروں کا شہر تھا جہاں ماہی گیر مچھلیاں پکڑ کر اپنا گزارا کرتے تھے۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں نے ظاہر ہے کہ اپنی تہذیب، تعلیم و تربیت کی وجہ سے اس شہر پر بے پناہ اثر ڈالا۔ اب 21 ویں صدی میں پھر کراچی میں انقلابی تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ یہ اب کراچی والوں پر منحصر ہے کہ وہ سی پیک کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ کیا چین پاکستان اکنامک کوریڈور اپنی شکل میں نیا مشرقی انڈیا کمپنی ثابت ہوگا۔کراچی کے لوگ اپنی دانشمندی اور تعلیم کی وجہ سے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی فکر میں ہوں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سب سے بڑا خطرہ نہیں بلکہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا غلط ہے۔ انہوں نے پھر کہا کہ مہاجروں نے کراچی کے لئے بہت کام کیا ہے، اسے ایک ترقی یافتہ شکل دیدی۔ ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے مہان ڈاکٹر پیدا کئے لیکن کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنا مناسب نہیں ۔ کراچی جیسے اور بھی بڑے شہر جیسے لندن، نیویارک، ٹوکیو بھی اپنی اصل ہیت بدل چکے ہیں۔ ان شہروں کی آبادی بھی اپنے اصل رہائشیوں سے خالی ہوگئی اب وہاں دوسری جگہوں سے آنے والے کی تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن وہاں تو علیحدگی کا نعرہ نہیں لگتا۔سندھ میں جہاں بے روزگاری، صحت اور تعلیم کی سہولتیں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں کراچی ان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اس کے پاس وسائل ہے، تربیت یافتہ لوگ ہیں، اس لئے شہر کراچی کی ذمہ داریاں بھی بہت ہیں۔ انہوں نے مہاجروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان جو کہ ریاست کے نواب زادے تھے، ان کا اپنا کوئی مکان پاکستان میں نہیں تھا، وہ پاکستان کے لئے جئے اور پاکستان کے لئے شہید ہوئے۔
 

شیئر: