Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”بوتل“...اک خاموش داستاں

 
شہزاد اعظم
ایک دن تیز ترین دھوپ اور شدید گرمی میں ہم خطِ مستقیم میں دور تک بچھی ہوئی تارکول کی سیاہ سڑک کے کنارے ”رہِ پا“ یعنی ”فٹ پاتھ“ پر پیدل جا رہے تھے۔ ہم نے3000میٹر کا سفر طے کیا اور اس دوران ایک مجبور زندگی کی ابتدا سے انتہاءتک کی خاموش داستان کانوں سے سنی، آنکھوںسے پڑھی اور حسیات سے محسوس کی۔ہوا یوں کہ ایک نوجوان اپنی کار سڑک کے کنارے کھڑی کر کے بقالے میں گیا اور فریج سے پانی کی یخ بستہ بوتل نکال کر منہ سے لگا ئی، گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوتے ہوتے غٹا غٹ سارا پانی پیا اور کچھ دور جا کر بوتل سڑک پر پھینک دی۔ قبل اس کے کہ ہم اس بوتل کے قریب پہنچتے، ہمارے ہی جیسا ایک اور پیدل شخص وہاں سے گزرا۔ وہ نوجوان پیاسا تھا، اُس نے اِس مغالطے میں بوتل کو زمین سے اٹھالیاکہ شاید اس میں کچھ پانی موجود ہوگاکیونکہ ابھی تک ننھی ننھی بوندیں بوتل میں موجود تھیں اور ٹھنڈک کے آثار نمایاں تھے۔ جب اس نے دیکھا کہ بوتل توبالکل خالی ہے تو اس نے اسے دوبارہ سڑک پر ہی پھینک دیا۔ہم مسلسل پاﺅں پاﺅں چلے جا رہے تھے، قبل اس کے کہ ہم اس بوتل کے قریب پہنچتے، ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا جو بوتل کو اپنے ساتھ اڑاتا لے گیااور اسے 32گز دور لے جا کر پٹخ دیا۔ یہ بے چاری مزید 5گز تک لڑھکتی گئی اور راہ میں آنے والے ایک ننھے سے پتھر کی آڑ میں رُک گئی۔قبل اس کے کہ ہم اس بوتل کے قریب پہنچتے، ایک تیز رفتار کار نے اسے اپنی لپیٹ میں لیااور وہ اس کے ساتھ 10گز تک لڑھکتی ہوئی دور جاگری۔اس مرتبہ وہ سڑک کے بیچوں بیچ جا ٹھہری تھی۔ اس حالت میں چند سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ ایک تیزرفتار واٹرٹینکر وہاں آ نکلا اور بوتل پر چڑھائی کردی۔ ٹینکر کے ساتھ سفر کرنے والے ہوا کے جھکڑوں نے بوتل کو گرم تھپیڑوں سے دوچار کیااور ا سے بھاری بھرکم ٹائروں کے درمیان4، 6دھوبی پٹکے مارے۔ یوں یہ ٹینکر اس بوتل کے لئے کسی سونامی کی طرح آیا اور اسے دور لے جا کردے مارا۔یوں اس بوتل کی معیت میں ہم 2کلو یعنی 2000میٹر کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔قبل اس کے کہ ہم اس بوتل کے قریب پہنچتے ایک انتہائی قیمتی گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی آئی ۔ اس کے ایک ٹائر نے بوتل کے ”سر“ یعنی ڈھکن کو روندا تووہ زور سے چلائی اور اس کے ساتھ ہی ٹائر کے ”طمانچے“ نے اسے ”فٹ پاتھ“ پر زور سے پٹک دیا جہاں ہوا کا تیز جھکڑ اس کو دلاسے کے انداز میں 30گزدور تک گھماتا لے گیا ۔ قبل اس کے کہ ہم اس بوتل کے قریب پہنچتے ایک شرارتی سا نوجوان وہاں نمودار ہوگیا اور اس نے اس بوتل کو زور دار انداز میں ٹھوکر لگائی۔ ٹھوکر ایسی تھی جیسے فٹبال کا کوئی کھلاڑی حریف ٹیم کے خلاف پینلٹی کک کے ذریعے کامیاب گول کررہا ہو۔ اس ”کک“ کے باعث بوتل بے چاری ایک مرتبہ پھر شاہراہ کے بیچوں بیچ پہنچ گئی۔قبل اس کے کہ ہم اس بوتل کے قریب پہنچتے ایک موٹر سائیکل وہاں چلی آئی اور اس کا اگلا ٹائر بوتل کے ”پیٹ“ پر سے گزر گیااور وہ اس انداز میں پچک گئی کہ اب وہ ٹائروں کے حملوں سے بچنے کے لئے ہوا کے تھپیڑوں کو گلے لگانے کے قابل بھی نہیں رہی تھی۔ اتنی درگت بننے کے باعث بوتل کا ”کاغذی پیرہن“بھی تار تار ہو چکا تھا۔اب وہ شاہراہ کے اس حصے میں تھی جو تیز رفتار گاڑیوں کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔ یہاں وہ چپ چاپ پڑی تھی۔ گزرنے والی ہر گاڑی کا ٹائر اسے اپنی جسامت اور قامت کے اعتبار سے کچل رہا تھا۔اس معصوم کے تمام ”بوتلانہ خدوخال “معدوم ہو چکے تھے۔ اب وہ اس قابل بھی نہیں رہی تھی کہ کوئی اسے ٹھکرا ہی دے کیونکہ ٹھوکر مارنے والا اسے ہی ٹھکراتا ہے جس میں زندگی کی خواہش موجود ہو۔قبل اس کے کہ ہم اس بوتل کے قریب پہنچتے، کوئی گاڑی اس کے قریب نہیں پھٹکی ، ہم نے اسے اپنے ہاتھوں سے اٹھایااور فٹ پاتھ پر پیدل چلتے چلتے اسے غور سے دیکھتے رہے اور بہت کچھ سوچتے رہے۔ہمیں خیال آیا کہ 3کلومیٹر پیدل سفر کے دوران ہم نے اس بوتل کا جو حشر دیکھا، وہ ہمارے ہاں کے مردانہ معاشرے میں” زندگی کاٹنے“ والی مظلوم خواتین سے کس قدر مماثلت رکھتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ :
”جب لڑکا جوان ہوتاہے تو کتنے چاﺅ سے، شوق سے، لگن سے اور محبت سے دلہن کو بیاہ کر لاتا ہے۔ اسے اپنی زندگی کا حاصل قرار دیتا ہے۔دولہا کو اپنی دلہن کے عیب بھی خوبیوں کی طرح من کو بھاتے ہیں۔ دلہن خود کو کرہ¿ ارض پر موجود سب سے خوش قسمت ہستی سمجھنے لگتی ہے اور قربانی، محبت، وفا، پیار، ایثار، فرمانبرداری، سلیقہ شعاری اور خدمت گزاری سے شوہر کی عنایات کا جواب دیتی ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ جب بیوی اپنی ذات کی تمام صفات سے شوہر کو مالا مال کر دیتی ہے تو شوہر کی نظر میں بیوی کی اہمیت کم ہونے لگتی ہے بالکل ایسے جیسے جھلستے ہوئے صحرائے زندگی میں میسر آنے والے ٹھنڈے مشروب کے پہلے گھونٹ کی قدر و منزلت آبِ حیات سے کم نہیں ہوتی جبکہ اس کے آخری گھونٹ کی قدر نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے ۔ اب اس کی خوبیاں بھی عیب دکھائی دینے لگتی ہیں۔اس کا دل کہیں اور کسی اورکی جستجو میں مگن ہوجاتا ہے۔ وہ شوہر سے بے اعتنائی کا شکوہ کرتی ہے تو اسے تلخ جوابات ملتے ہیں۔ وہ ماضی کی باتیں یاد دلاتی ہے تو شوہر اسے اپنی بے وقوفی، دماغ کی خرابی یا جادو کا اثر قرار دیتا ہے۔ اب شوہر نئی دلہن بیاہ کر لے آتا ہے اور اس کے کہنے پر پہلی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔اب ماضی کی یہ ”دلہن“ خود کو کرہ¿ ارض پر چلتی پھرتی سب سے بدقسمت ہستی قرار دیتی ہے۔یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے”بوتل“ کا 3کلومیٹر سفر شروع ہوتا ہے ۔شاہراہِ زندگی پرماضی کی اس ”دلہن“ کوکبھی کوئی تھپیڑا پٹخ دیتا ہے تو کوئی ٹھوکر اسے کنارے لگا ریتی ہے۔وہ اپنے آپ کو امتدادِ زمانہ سے بچانے کے لئے لاکھ جتن کرتی ہے ۔ غیر اسے اُس نگاہ سے دیکھتے ہیںتواس کے اپنے ہمارے جیسے ہوتے ہیںجو بوتل کونشیب و فراز سے نبردآزما ہوتے تو دیکھتے ہیں مگر اس کی مدد نہیں کر سکتے یہاں تک کہ وہ پرانی دلہن”3000میٹر“ کا سفر طے کر چکی ہوتی ہے۔
 

شیئر: