Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپ ﷺ کا تحمل ، غصے پر غالب

عبدالمالک مجاہد۔  ریاض
مدینہ منورہ کے یہود میں گنتی کے لوگ تھے جنہوںنے اسلام قبول کیا اور اللہ کے رسول کے صحابی ہونے کا شرف حاصل کیا۔ یہود نے اللہ کے رسول کی علامات کو اپنی مذہبی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا۔ تورات شریف میں اللہ کے رسول کی2صفات کو بڑے نمایاں طور پربیان کیا گیا ہے۔ ان میں ایک صفت ’’ یسبق حلمہ جہلہ‘‘ کہ آپ  کا تحمل غصہ پر غالب ہوگا۔ دوسری صفت ’’ ولا یزیدہ شدۃ الجہل علیہ الاحلماً‘‘آپ کے ساتھ شدید جہالت کے سلوک کے باوجود حلم میں اضافہ ہی ہوتا چلاجائے گا۔
    محترم قارئین! اس سے پہلے کہ میں آپ کو بڑا خوبصورت واقعہ سناؤں جس میں رسول اللہ کی مذکورہ دونوں صفات پوری ہوتی ہیں ذرا غور کریں کہ کون سا ایسا شخص ہے کہ جس کو غصہ دلایا جائے ، اس کے خاندان کو برا بھلا کہا جائے اور وہ تحمل کا ثبوت دے۔ اسی طرح کون ایسا شخص ہے جس کے ساتھ جہالت ہوتی جائے مگر اس کے حوصلے اور حلم میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔ ہمارے پیارے رسول کے اندر یہ دونوں صفات بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ آیئے اس واقعہ کو پڑھتے ہیں۔
    زید بن سعنہ ایک مشہور یہودی عالم تھا۔ وہ حق کا متلاشی تھا،تورات کا عالم تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں اللہ کے رسول کی صفات پڑ ھ رکھی تھیں۔ جب اس نے اللہ کے رسول   کو ان صفات کی روشنی میں دیکھا تو اسے یقین ہوگیا کہ اللہ کے رسول سچے ہیں اور آپ  کو اقعی اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے مگر اوپر ذکر کی گئی2 صفات ایسی تھیں جن کی وہ تصدیق کرنا چاہتا تھا۔
    قارئین کرام!مکارم اخلاق میں سب سے اہم چیز انسان کا حلم اور اس کا حوصلہ مند ہونا، غصہ میں نہ آنا وغیرہ شامل ہے۔ دنیا میں چند ہی ایسے لوگ ہوں گے کہ جن کے ساتھ بد تمیزی کی جائے اور وہ اس کے جواب میں اچھا سلوک کریں۔جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ زید بن سعنہ حق کی تلاش میں تھا۔ وہ مختلف بہانوں سے اللہ کے رسول کی مجالس میں آتا، آپ سے سوالات کرتا اورمذکورہ صفات کو آپ کی ذات گرامی میں دیکھنے کے لئے بے تاب رہتا تھا۔ چند دن گزرے کہ اسے یہ موقع میسر آگیا۔ آیئے اس خوبصورت واقعہ کو ہم زیدکی زبانی سنتے ہیں۔
    زید بن سعنہ کہتے ہیں:میں ایک دن اللہ کے رسول کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص اپنی سواری پر آیا اور عرض کیا:
     ’’ اللہ کے رسول ! میری قوم فلاں بستی میں رہتی ہے یا اس نے اپنی قوم کے بارے میں بتایا کہ میرا تعلق فلاں قبیلہ اور بستی سے ہے۔ ان لوگوںنے اسلام قبول کرلیا ہے ۔میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم لوگ اسلام قبول کرلوگے تو تمہارے پاس صبح وشام بڑی وافر مقدار میں رزق آئے گا۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان دنوں قحط سالی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ مرتد نہ ہوجائیں اس لئے اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان کو کچھ مال ومتاع بھیج دیں تا کہ ان کی بھوک کا مداوا ہوجائے۔ اللہ کے رسول نے سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی طرف دیکھا گویا آپ ان سے پوچھنا چاہتے تھے کہ کیا ہمارے پاس ان دنوں بیت المال میں کچھ مال موجود ہے جو ان کو بھیجا جاسکے ۔
     یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان ایام میں بیت المال خالی تھا۔ شاید اس لئے سیدنا علیؓ نے کوئی جواب نہ دیا۔ زید بن سعنہ نے موقع غنیمت جانا اور اللہ کے رسول سے عرض کی:
    ’’ آپ مجھے فلاں باغ کی کھجوریں ایک مقررہ وقت کے بعد ادا کردیں اور ان کے پیسے ابھی لے لیں۔
    آپ نے ارشاد فرمایا:
    تمہارا کہنا درست ہے مگر کسی مخصوص باغ کا نام نہ لو۔
    زید بن سعنہ کہنے لگا کہ ٹھیک ہے۔
    زید کہتا ہے کہ میں نے اللہ کے رسول کو سونے کے80 سکے(دینار)دیئے۔ آپ نے یہ سارا مال اس شخص کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا:
    اس مال سے اپنی قوم کی مدد کرو۔وہ بدو دُعائیں دیتا ہوا رخصت ہوگیا۔
     اللہ کے رسول کے وعدے میں چند روز ابھی باقی تھے۔ میں نے آپ کے تحمل وبردباری کو جاننے کا فیصلہ کرلیا۔ اللہ کے رسول   سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ  اور دیگر صحابہ کرام کے ساتھ ایک جنازے میں شرکت کے لئے بقیع الغرقد میں تشریف لے گئے تھے۔ جب آپ جنازہ سے فارغ ہوئے تو میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے اپنے منصوبے کے مطابق اچانک آپ کی چادر پکڑلی اور اسے خوب زور سے کھینچا۔چادر آپ کے کندھے سے اتر گئی۔ میں نے ساتھ ہی نہایت کرخت لہجہ میں کہا:
    محمد () کیا میرا قرضہ واپس نہیں کروگے؟ تم بنو عبدالمطلب قرض واپس کرنے میں اچھے نہیں ہو۔ادائے قرض میں بہت دیر کرتے ہو۔
    قارئین کرام!ذرا اوپر والے الفاظ پر غور کیجئے۔ زید کا مطالبہ بڑا ہی غیر معقول تھا۔ ابھی وعدے کی مدت میں کئی دن باقی تھے۔ پھر انداز ایسا بازاری کہ پورے خاندان کو شامل کر دیا۔ یہ انداز، یہ طریقہ کسی بھی شخص کو غصہ دلانے کے لئے کافی تھا۔ سیدنا فاروق اعظمؓ  بھی اس موقع پر موجود تھے اور اس یہودی کی بکواس کو سن رہے تھے ۔ اللہ کے رسول کے بارے میں ہر زہ سرائی سنی تو خاموش نہ رہ سکے۔
    سیدناعمر فاروق گویا ہوئے :
    ’’ائے اللہ کے دشمن! تمہاری یہ جرأت کہ تم اللہ کے رسول کے ساتھ اس قسم کی گھٹیا گفتگو کررہے ہو۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ، اگر مجھے اللہ کے رسول   کا خیال نہ ہوتا تو میں اس بدتمیزی پر تمہاری گردن اڑا دیتا۔ تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی کہ تم ایسی واہیات گفتگو کرو۔ ‘‘
    ادھر اللہ کے رسول کا اعلیٰ اخلاق ملاحظہ کیجئے کہ آپ، زید بن سعنہ کے کوتاہی کو سن کر بھی مشتعل نہیں ہوئے بلکہ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ آپ نے سیدنا عمر فاروق کو مخاطب ہوکر فرمایا:
    ’’ عمر! ایسی بات نہ کرو۔ تمہیں چاہئے تھا کہ مجھ سے کہتے کہ میں اس کاقرض خوش اسلوبی سے ادا کردوں اور اسے سمجھاتے کہ قرض کا تقاضا بھلے طریقہ سے کرو۔‘‘
    پھرسیدنا عمر فاروق کو ا للہ کے رسول   نے حکم دیا کہ:
    ’’ جاؤ اور اس کا قرض واپس کردواور اسے 20 صاع یعنی 50 کلو کھجوریں زیادہ ادا کرو۔ ‘‘
    سیدنا عمرؓنے پوچھا کہ کھجوریں زیادہ کیوں دیں؟۔آپ نے فرمایا:
    ’’چونکہ تم نے اسے ڈرایا دھمکایا ہے، اس لئے اس کے بدلے میں زیادہ کھجور اداکرو۔‘‘
    زید بن سعنہ اللہ کے رسول کی گفتگو پوری توجہ سے سن رہاتھا۔ وہ حیران تھا کہ اس قدر اشتعال انگیز گفتگو کے باوجود آپ حسب سابق تبسم کناں ہیں۔ بلاشبہ آپ کا حلم غصہ پرسبقت لے گیا ہے۔
    زید بن سعنہ کہتا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ مجھے ساتھ لے کر بیت المال گئے۔ میرا قرض واپس کیا اور حسب ہدایت 20صاع کھجوریں زیادہ دیں۔ جب میں نے کھجوریں وصول کرلیں تو سیدنا عمر فاروق سے کہا :
    کیا تم نے مجھے پہچانا؟
    عمر فاروق نے کہا:
    تم ہی اپنا تعارف کروا دو۔
    میں نے کہاکہ میں زید بن سعنہ ہوں۔
     حضرت عمر فاروق نے کہا:
    یعنی وہی جو مشہور یہودی عالم ہے۔
    میں نے جواب دیا کہ ’’ ہاں‘‘۔عمر فاروق نے کہا : تم نے اللہ کے رسول کے ساتھ جو گفتگو کی ہے اور ان کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آئے ہوتمہیں ہر گزاس کا کوئی حق نہیں تھا۔ زید بن سعنہ نے کہا: عمر تم بالکل درست کہتے ہو مگر تمہیں معلوم نہیں کہ میں حق کا متلاشی تھا۔ میں نے آپ سے نبوت کی تمام صفات دیکھ لی تھیں۔ صرف2 صفتیں باقی رہ گئی تھیں جن کا تعلق آپ کے تحمل، حوصلہ مندی اور بردباری سے تھا۔ آج میں نے ان2 صفات کا بھی خوب مشاہدہ کرلیا ہے۔ بلاشبہ اللہ کے رسول بنی آخری الزمان ہیں۔
    عمر! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں آج اسلام قبول کرتا ہوں۔پھر زید بن سعنہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی معیت میں مسجد نبوی شریف میں آئے اور سب کے سامنے واشگاف الفاظ میں کہا:     ا شہد ان لا الہ الا ا للہ وان محمد رسول اللہ۔ ‘‘
    حضرت زید بن سعنہؓ  اسلام قبول کرنے کے بعد تمام غزوات میں آپ کے ہمرکاب رہے۔ یہ انتہائی مالدار شخص تھے۔ مال کے ساتھے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں دریا دلی سے بھی نوازتھا۔اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ یہ غزوہ تبوک کے دوران انتقال کر گئے ۔
مزید پڑھیں:- - - -ہمارا د ین ، اسلام ، ایمان اور احسان کا مجموعہ

شیئر: