Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایم کیو ایم پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا؟

کراچی (صلاح الدین حیدر) ایم کیو ایم کے اگر وزراءنیب کے سامنے پیش ہوئے تو3 گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد انہوں نے جو کچھ بھی صفائی میں کہا وہ پرانی کہانی ہے۔ معروف قانون دان بیرسٹر فروغ نسیم اور پارٹی کے سربراہ خالد مقبول صدیقی بالترتیب قانون اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں۔ انہوں نے صاف طور پر نیب کو بتادیا کہ الطاف حسین کی بنی ہوئی پارٹی خدمت خلق کا ادارہ بھی چلاتی ہے اس میں فروغ نسیم نے 2013 سے 2015ءتک مختلف اوقات میں کل 2,60,000 روپے کی رقم جمع کروائی تھی جو کہ معمولی بات ہے، پارٹی کے قوائد کے تحت پارلیمنٹ کے ممبران وزراءحضرات اور مشیران کے ذریعے ہی چندہ اکٹھا کیا جاتا تھا۔ وہ بھی اس لئے کہ پہلے الزام لگ چکا تھا کہ ایم کیو ایم سیکٹر یونٹ انچارج وغیرہ زور زبردستی سے لوگوں سے پیسے اینٹھتے تھے، وزراءمشیران اور پارلیمنٹ کے ممبران کو موقر سمجھا جاتا ہے اس لئے یہ طریقہ کار اپنایا گیا۔پارٹی کے بارے میں کتنے ہی الزام لگے لیکن فروغ نسیم اور خالد مقبول صدیقی دونوں اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ 2 سال میں اگر فروغ نسیم نے 2,60,000 روپے پارٹی فنڈ میں جمع کرائے تو کوئی انوکھی بات نہیں لیکن مسئلہ چندوں کا نہیں، اصل مسئلہ ایم کیو ایم کے مستقبل کا ہے، پارٹی اس سال 5 فروری کو 2 دھڑوں میں بٹ گئی۔ بانی ایم کیو ایم کی پاکستان کے خلاف تقریر کے بعد 22 اگست 2016ءکو تنظیم کا باب بند ہوگیا پھر مصطفی کمال تقریباً ڈیڑھ سال ملک سے غیر حاضری کے بعد واپس آئے ایم کیو ایم کی صفوں میں تہلکہ مچا دیا۔ ان کی واپسی پارٹی میں پہلی دراڑ تھی۔ نہ جانے کیوں صرف فرد واحدکی خاطر پارٹی کو تقسیم کردیا گیا اور اب انہیں تنظیم سے نکال دیا گیا ۔ انہیں شکایت ہوئی کہ ایم کیو ایم پاکستان والوں نے بہادر آباد آفس پر قبضہ جما لیا مگر انہیں خود سوچنا چاہیے تھا کہ آخر صرف ایک آدمی کی خاطر پوری تنظیم کو بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔ انہیں ضمنی انتخابات میں بھی نامزد کردیا، شکست کے علاوہ اور یہی ہونا تھا۔ بہرحال ایم کیو ایم بہادر اور پی آئی بی کالونی جو کہ فاروق ستار کا گھر ہے میں تقسیم ہوگئی۔ شیشے میں بال آجائے تو پھر اس کا جڑنا مشکل ہوتا ہے۔ شیشہ چیز ہی ایسی ہے کہ آرے سے کٹ سکتا ہے۔ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ بات کتنی سنگین تھی۔ ایک ایسی پارٹی جو 32 سال سندھ کے شہری علاقوں کی بلاشرکت غیرے مالک رہی وہ آج دربدر بھٹکنے پر مجبور ہے۔ کسی اور کا نہیں پارٹی کے ذمہ داروں کا ہی قصور ہے کہ انہوں نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ فاروق ستار نے بنیادی رکنیت سے فارغ ہونے کے بعد خالد مقبول صدیقی اور کنور نوید جمیل پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کردیا جو کہ کسی طرح بھی معززین یا پارٹی کے حق میں نہیں تھا۔
اس سال 25 جولائی کے پارلیمانی انتخابات میں بڑے بڑے دعوےٰ کئے گئے کہ کراچی سے 15/16 نشستیں جیت لیں گے۔ مبصرین بھی حیران تھے کہ کیسے ممکن ہے۔ ایم کیو ایم کا ووٹ بینک تقسیم ہی نہیں ہوا تھا بلکہ متنفر بھی ہو چکا تھا۔ کراچی کی قومی اسمبلی کی21 میں سے ایم کیو ایم 4 نشستیں جیت سکی، 14 تحریک انصاف لے اڑی۔ ضمنی انتخابات میں بھی جو 14 اکتوبر کو ہوئے، ایم کیو ایم کو بری طرح شکست ہوئی پی ٹی آئی نے عمران کی خالی کی گئی نشست دوبارہ جیت لی۔ اس پس منظر میں لامحالہ سوال یہی اٹھتا ہے کہ آخر پارٹی کا مستقبل کیا ہے؟ اڑتی اڑتی خبریں یہی ہیں کہ پاک سرزمین پارٹی، ایم کیو ایم اور شاید فاروق ستار بھی سوچ بچار پر مجبور ہوگئے ہیں۔ انہیں دوبارہ صورتحال کو بحال کرنا پڑے گا۔ لیکن کیسے؟ جب اختلافات اتنے شدید ہوں تو کون سا فارمولا اپنایا جائے گا؟ کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ دیکھیں شاید کچھ ہوجائے، امید ویسے کم ہی ہے، لوگوں کو تو ایم کیو ایم کا مستقبل کوئی نظر نہیں آتا لیکن قدرت کے کھیل میں کون دخل اندازی کرسکتا ہے؟

شیئر: