Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں اقتدار کی جنگ!!

سجاد وریاہ
چند دن قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو لیک کی گئی جس میں اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ گورنر پنجاب چوہدری سرور کو کنٹرول کیا جائے۔وہ طارق بشیر چیمہ کے حلقے میں مداخلت کرتے ہیں ۔اس مسئلے پر پھر چوہدری پرویز الٰہی نے پریس کانفرنس بھی کی اور بتایا کہ اتحادی جماعتوں کے اختلاف ہو سکتے ہیں ان کو حل کرنے کے لیے آپس میں شکایات اور شکوے بھی ہو تے ہیں ،وہ ان معاملات پر اپنے اتحادیوں سے بات بھی کرتے رہتے ہیں۔یہاں تک مجھے ان کی بات سے پورا اتفاق ہے کہ آپس میں مختلف مسائل پر مختلف رائے ہو سکتی ہے اور اس کا اظہار بھی کیا جانا کوئی ناجائز بات نہیںلیکن اس موقع پر ویڈیو بنانا اور اس کو لیک کرنا کسی خاص پلاننگ کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے ۔ اہم بات یہ کہ اس کی ٹائمنگ کے لحاظ سے خالی سیٹوں پر سینیٹ انتخابات کا وقت بھی قابل غور ہے۔عام انتخابات کے بعد سے ق لیگ اور چوہدری برادران کا رویہ انتہائی مثبت رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب میںق لیگ کے ساتھ تحریک انصاف کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے لے کرحکومتیں بنانے تک دونوں پارٹیوں کا کردار بہت مثبت رہا۔ اب چوہدری پرویز الٰہی اور بشیر چیمہ کے طرز عمل سے یہ لگ رہا ہے کہ وہ کسی گیم کا حصہ بن رہے ہیں،یا گوئی گیم پلان کھیلنے جا رہے ہیں،مان لیا کہ چوہدری سرور سے شکایات تھیں ،یہ بھی مان لیا کہ جہانگیر ترین کے ساتھ انہوں نے شیئر کردیا ،یہ بھی درست ہے کہ معمول کی ملاقات کی طرح اس ملاقات کو بھی ان کے کیمرہ مین نے ریکارڈ کر لیا ۔سوال تو اس بات پر اُٹھتا ہے کہ انہوں نے یہ اختلافی ویڈیو میڈیا کو جاری کر دی۔ اگر اجازت کے بغیر کی تو فوٹو گرافر کو صرف تنبیہ کی گئی اور بس۔چوہدری پرویز الٰہی کو احساس ہو نا چاہیے کہ تحریک انصاف نے انہیں ان کی سیٹوں سے زیادہ حصہ بھی دیا ہے اور عزت بھی دی ہے۔طارق بشیر چیمہ جو وفاقی وزیر ہیں ،ان کی چوہدری برادران سے قربت اور وفا داری سے سب واقف ہیں لیکن کیا ان کی ہر بات میں سچائی ہے ؟کیا ان کے حلقے میں ان کی اجارہ داری ہے؟کیا ان کا حلقہ گورنر پنجاب کے دائرہ اختیار سے باہر ہے؟ایسا نہیں ہوتا کہ حکومتی ادارے کسی ایک اتحادی پارٹی کو ہی سلام کرنے کے پابند ہیں؟طارق بشیر چیمہ کو بھی سمجھانا چاہیے کہ ہم ایک اکثریتی پارٹی کے اتحادی ہیں ،ہمیں ان کے گورنر اور وزیراعلیٰ کے ساتھ ملکر کام کرنا ہو گا۔نہ کہ ہر افسر کے تبادلے پر شور مچانا شروع کر دیں اور نہ ہی بہاولپور کا حلقہ صرف طارق چیمہ کی جاگیر ہے کہ کوئی گورنر اور سرکاری افسر اسکی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتا۔
جیسا کہ میں نے ابتداء میں عرض کیا کہ چوہدری پرویز الٰہی کا شروع میں رویہ دیکھتے ہوئے ان کی بردباری اور اخلاقی ساکھ کی ستائش کیے بغیر نہ رہ سکا لیکن اس ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد مجھے ان کی طرف سے کسی سازش کا ’’گمان‘‘ ہو نے لگا ہے۔ایسا محسوس ہو تا ہے کہ پرویز الٰہی کواندازہ ہو گیا ہے کہ وزیراعلیٰ بزدار کے معاملے میں پارٹی کے بڑوں میں اختلاف ہے ،وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ،میڈیا میں یہ تاٗثر ہے کہ عثمان بزدارایک کمزور وزیر اعلیٰ ہیں ،پارٹی میں انکی حمایت کمزور ہے ،بس وزیراعلیٰ کو وزیر اعظم عمران خان کی حمایت حاصل ہے،مجھے میڈیا میں ہونے والی اس تنقیداور تاثر سے جزوی طور پر اتفاق بھی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک طرح سے وزیر اعلیٰ بزدار کو ’’طاقتور‘‘ پوزیشن اور حمایت حاصل ہے کہ عمران خان اس کے وکیل ہیں۔میری نظر میں وزیراعلیٰ کی نرم اور عاجز شخصیت کو تمام دھڑے کیش کرانے کے چکر میں ہیں۔تحریک انصاف کے اندر ،جہانگیر خان ترین،علیم خان ،شاہ محمود قریشی اور چوہدری سرور اور پارٹی سے باہر ق لیگ ایسی کوششیں کر رہے ہیں جس سے عثمان بزدار کو عمران خان کے سامنے کمزور ثابت کیا جائے ،یہ شخصیا ت دراصل اپنے گروپ اور دھڑے مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔چوہدری سرور بھی کسی حد تک اپنی حدود سے باہر جا رہے ہیں۔ اپنی ’ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ‘بنانے میں لگے ہیں ۔وہ خو دکو برطانیہ کا تجربہ کار سیاستدان کہتے ہیںلیکن وہاں قانون اور حدود کے اندر رہتے ہیں لیکن یہاں آتے ہی ان کو ’آزادی‘کی اہمیت محسوس ہو نے لگتی ہے۔برطانیہ میں وہ آئین و قانون اور جمہوری روایات کی سیاست کرتے ہیں لیکن پاکستان میں کوئی عہدہ ملتے ہی ان کو برادری ،دھڑے بندی اور گروپ بندی کی سیاست کا جنون ہو جاتا ہے۔مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ بظاہر بڑے نظر آنے والے لوگ جب عہدوں پر پہنچ جاتے تو چھوٹی حرکتیں کیوں کرنے لگتے ہیں۔اپنے مفاد اور اندرونی تعصب کے سامنے کیوں لیٹ جاتے ہیں۔ میرا ’’گمان‘‘ تھاکہ عمران خان ایک نیوٹرل بندے کو وزیراعلیٰ لائے ہیں تو یہ لوگ اپنی عصبیتوں سے اوپر اُٹھ کر پارٹی کے وزیر اعلیٰ کو کامیاب کریں گے لیکن یہاں تو ہر کوئی اپنی’بوٹی‘ کے چکر میں پورا بکرا ذبح کرنے کو تیار بیٹھا ہے۔جہانگیر ترین ایک سلجھے اور باوقار انسان ہیں انہوں نے پارٹی کے لیے لا محدود کاوش کی وجہ سے بہت عزت پائی ہے۔عمران خان ان کو بہت عزت اور اہمیت دیتے ہیں ،ان کو بھی چاہیے کہ اپنے وزیر اعلیٰ کو کامیاب بنایا جائے۔یہ لوگ جان بھی چکے ہیں کہ اب ان کی حمایت ہونے یا نہ ہونے سے عمران خان اور پنجاب حکومت کو فرق نہیں پڑے گا کیونکہ عمران خان اپنی تین مہینے کی حکومت میں دنیا کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ان کی حکومت پاکستان اور قوم کے لیے بہترین کارکردگی دکھانے کا جذبہ رکھتی ہے۔دنیا بھر کا میڈیا اور حکومتیں یہ جان چکی ہیں کہ عمران خان اور حکومت اپنے مثبت ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔
پنجاب میں اقتدار کی جنگ کو ایک آسان ٹارگٹ سمجھا جا رہا ہے ،جس کے لیے مختلف گروپس اپنی کوشش کر رہے ہیں ،ان کی سازشیں کامیاب نہیں ہونگی،چوہدری پرویز الٰہی کو بھی اپنے وقار اور منصب کے حساب سے رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔پنجاب کی ’پگ ‘کے چکرمیں سازشوں کی وجہ سے کہیں ’’عزت سادات‘‘ بھی نہ جاتی رہے۔ان معتبر شخصیات کے پاس اب کوئی آپشن نہیں ہے کہ مناسب رویہ اختیار کریں۔ پنجاب کا اقتدار اس کے پاس ہی ہو گا جس کو عمران خان چاہے گا ،سازشیں اور کاوشیں بے کار جائیں گی۔
 

شیئر: