Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندوستان میں ’’جہادی‘‘تحریکیں۔۔۔مختلف وژن

علی العمیم۔۔۔الشرق الاوسط
مکہ کے علماء نے 100برس قبل فتویٰ جاری کیا تھا کہ’’ چونکہ ہندوستانی مسلمانوں کو اسلامی عقائد پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے لہذا ہندوستان دارالاسلام ہی مانا جائیگا‘‘۔
اس فتوے سے ظاہر ہورہا ہے کہ مذکورہ مسئلے کا تعلق ہندوستانی مسلمانوں سے ہے۔ یہ مسئلہ مصر پر فرانس کے استعمار یا بعد میں انگریزوں کے استعمار کی دین نہیں۔ یہ مسئلہ کسی عرب ملک پر اہل فرانس یا انگریزوں یا اٹلی کے ناجائز قبضے کے بعد بھی رونما نہیں ہوا۔اس سے اس امر کی تاکید ہوتی ہے کہ مسئلے کا تعلق ہندوستان ہی سے تھا کسی اور ملک سے نہیں۔یہ واحد فقہی نظیر نہیں ۔ اس حوالے کے فقہی نظائر اور بھی ہیں۔ 
شاہ عبدالعزیز دہلوی ؒ نے 101برس پہلے یا 100برس اور چند ماہ قبل فتویٰ دیا تھا کہ ہندوستان دارالحرب بن چکا ہے اور دارالاسلام نہیں رہا۔یہ فتویٰ علامہ رشید رضانے اپنے مشہور و معروف رسالے ( المنار) میں 10اکتوبر 1904ء کو شائع کیا تھا۔ المنار رسالہ (فتاویٰ المنار) کے عنوان سے فقہی استفسارات اور ان کے جوابات شائع کیا کرتا تھا۔ مذکورہ فتویٰ ( ہندوستانی استفسارات) کے زیر عنوان جاری کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے الرسالہ میں تحریر ہے’’6سوال مصر کے مفتیٔ اسلام کو ہندوستان سے موصول ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنی مصروفیات کی بھرمار کی وجہ سے یہ سوالات جواب دینے کیلئے ہمیں بھیج دیئے ہیں۔ مفتیٔ اسلام نے یہ ذمہ داری ہمیں اپنا تلمیذ رشید سمجھتے ہوئے تفویض کی ہے ‘‘۔
علامہ رشید مصری نے تحریر کیا کہ مذکورہ 6سوالات حکیم مولوی نورالدین نے بھیجے ہیں۔ یہ ہندوستانی پنجاب کے مفتی ہیں۔چھٹا سوال یہ ہے کہ ’’کیا انگریزوں کے ملازم مسلمان کو انگریزی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا جائز ہوگا؟ کیا وہ حکم الٰہی سے مختلف  انگریز قوانین کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے؟‘‘
علامہ رشید رضا مصری ؒ نے اپنے فتوے کا آغاز یہ تمہید باندھ کر کیا کہ: دیندار مسلمان اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولٰئک ہم الکافرون‘‘کا ظاہری مفہوم اختیار کئے ہوئے ہیں۔آیت کا ترجمہ:(اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم سے مختلف فیصلہ کرتے ہیں یہ لوگ کافر ہیں)۔
آیت مذکورہ کا ظاہری مفہوم کسی بھی مشہور امام فقہ نے اختیارنہیں کیا۔ اہل السنہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے سلسلہ میں مختلف الرائے ہیں۔ علامہ رشید رضا مصری نے القرآن الکریم میں ’’آیات حاکمیت‘‘سے متعلق نیا فتویٰ جاری کیا۔ ہمیں اس فتوے کے جس حصے سے دلچسپی ہے وہ فتوے میں مذکور ان کا یہ جملہ ہے:’’اسلام کے اثر و نفوذ کی تقویت اور مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے سرکاری مناصب کے حصول سے بہتر کوئی اور وسیلہ نہیں۔خاص طور پر اگر حکومت تمام اقوام اور ملتوں کے درمیان عدل و انصاف کی روش کے سلسلے میں لچکدار رویہ رکھتی ہو تو ایسی حالت میں سرکاری عہدہ کا حصول تقویت اسلام کے موزوں ترین ذریعہ ہوگا۔مثال کے طور پر انگریز حکومت کو لے لیجئے ۔ انگریز حکومت کے قوانین دیگر حکمرانوں کے قوانین کے مقابلے میں اسلامی شریعت کے زیادہ قریب ہیں۔انگریز حکومت بیشتر عدالتی فیصلوںکا حق ججوں کے تصویبی اختیار پر چھوڑے ہوئے ہے لہذا جو مسلمان جج بننے کا اہل ہو اور وہ ہندوستان میں جج کے منصب پر فائز ہو، وہ بالقصداور نیک نیتی کے ساتھ اس منصب کی بدولت مسلمانان ہند کی شاندار خدمت کرسکتا ہے۔ اگر اس قسم کے اہل علم اور غیرت مندلوگ غیر اسلامی قوانین پر عمل کے گناہ سے اجتناب کی بنیاد پر جج بننے سے احتراز کرینگے تو وہ مسلمانان ہند کے بیشتر دینی و دنیاوی مفادات کے ضیاع کا باعث بنیں گے۔ہندوستان وغیرہ ممالک میں مسلمان اپنے اسی روش کی بدولت گھاٹے میں رہے ۔ یہ سرکاری وظائف سے محرومی کے باعث غیر مسلموں سے پیچھے رہ گئے۔ اس سلسلے میں ہمارے لئے مسلم ممالک میں مقیم یورپی شہری قابل تقلید ہیں جنہوں نے ہر طریقہ استعمال کرکے عہدے حاصل کئے اور مختلف مناصب پر فائز ہوکر اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کے مفادات کا تحفظ کیا۔ 
یہ علامہ رشید رضا ؒکا فتویٰ ہے تاہم یہی فتویٰ ان کے استاد علامہ شیخ محمد عبدہ کے دینی اور عملی موقف کا بھی ترجمان ہے۔ 
(باقی آئندہ )
 

شیئر: