Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

داوڑ کی شہادت ،مکمل تحقیقات ضروری

***احمد آزاد،فیصل آباد***
دہشتگردوں کے لئے ایک خوفناک خواب کی حیثیت رکھنے والے طاہر خان داوڑ کو افغانستان لے جاکر شہید کردیاگیا ۔اسلام آباد کے علاقے سے 26اکتوبر کوپراسرارطور پر غائب ہونے والے ایس پی کی لاش13نومبر کوافغانستان کے جنگ زدہ علاقے ننگرہار سے مقامی لوگوں کو ملی ۔قریب ہی ایس پی طاہر خان داوڑ کاسروس کارڈ بھی موجود تھا ۔اسلام آباد سے ایک ایسے بندے کو غائب کیا گیا جوکہ دہشتگردوں کے نشانے پر تھا اور جس پر ماضی میں بھی دو مرتبہ خودکش حملہ کیا گیا تھا۔افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں اور پاکستان نے بارہا افغانستان کو اس بارے میںآگاہ بھی کیا ہے ۔افغانستان میں ایک عرصہ گزرنے کے بعد بھی امن قائم نہ ہوسکا۔افغانی حکومت اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے ۔افغانی طالبان اپنی طاقت کو محفوظ رکھتے ہوئے موقع ملتے ہی امریکی وافغانی افواج پر ہلہ بول دیتے ہیں ۔تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) بھی افغانستان میں اپنی رہی سہی طاقت بچائے بیٹھی ہے جسے داعش جیسی بدنام زمانہ دہشتگرد تنظیم کی مدد وحمایت حاصل ہے ۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 14اضلاع ایسے ہیں جہاں اب بھی طالبان کا مکمل کنٹرول ہے جبکہ دیگر اضلاع میں طالبان اپنی موجودگی کو ظاہرکرتے رہتے ہیں ۔داعش بھی اپنی موجودگی کو ثابت کرچکی ہے۔ غزنی،کابل،جلال آباد،ننگرہار اور قندوز جیسے صوبوں میں داعش کی موجودگی ہے اورگاہے گاہے جھڑپوںاورحملوں میں اپنی بھرپور نمائندگی ظاہر کرتی رہتی ہے ۔ ننگرہار میں داعش کی موجودگی ہے اورتحریک طالبان پاکستان کے بھگوڑے بھی یہیں موجود ہیں اور اسی علاقے میں ایس پی طاہرخان داوڑ شہید کی لاش ملی ۔ پاکستان میں جب داعش نے سر اٹھانے کی کوشش کی تو پاک فوج اور پولیس نے انٹیلی جنس اداروں کے تعاون سے اس سانپ کا سر کچل دیا۔ماضی میں کچھ ایسے سانحات ہوئے ہیں جن سے درد اب تک اٹھتاہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ آرمی پبلک اسکول کا تھا جس نے پورے پاکستان کے دل کوچیرکر رکھ دیا۔
 شعر وادب سے خاص لگائو رکھنے والے طاہر خان داوڑ کا تعلق قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے گاؤں خدی سے تھا۔انہوں نے پرائمری سے ڈگری سطح تک کی تعلیم شمالی وزیرستان سے حاصل کی تاہم بی اے کرنے کے بعد وہ کچھ عرصے تک ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال، شمالی وزیرستان میں کمپاؤنڈر کے طور پر ملازمت کرتے رہے۔ وہ ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے۔پشتو زبان میں ماسٹر ڈگری رکھنے والے طاہرداوڑ ادبی و سماجی حلقوں میں کافی مقبول سمجھے جاتے تھے ۔ انہوں نے 90ء کے عشرے میں پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے پولیس میں بطور اے ایس آئی شمولیت اختیار کی ۔اپنے کیرئیر کے تقریباََ23 برسوںمیںطاہر خان داوڑ نے محنت کے بل بوتے پر اے ایس آئی سے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) تک کا سفر کیا ۔اپنی ملازمت کا پیشتر حصہ ضلع بنوں میں بطور ایس ایچ او اورڈی ایس پی گزارا۔شہادت سے 2ماہ قبل ہی ترقی پاکر ایس پی رورل کے عہدے پر فائز ہوئے ۔3 سال تک ایف آئی اے میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات رہے ۔دوران ملازمت کئی بار دہشتگردوں کا بہادری و شجاعت سے سامنا کیا جس کی وجہ سے طاہرخان داوڑ کو دھمکیوں کا سامنا رہتا تھا۔ ان کی فرض شناسی اور خدمات کی وجہ سے انہیں پاکستانی پولیس کا سب سے بڑا اعزاز قائداعظم پولیس میڈل بھی دیا گیا۔مختصر رخصت پر اسلام آباد میں واقع اپنے گھر آئے ہوئے طاہر داوڑ گھر سے 26اکتوبر کو اکیلے چہل قدمی کے لیے نکلے لیکن تھانہ رمنا کی حدود میں پراسرار طور پر غائب ہوگئے ۔ 2دن بعد ان کے موبائل سے انگریزی زبا ن میں ٹیکسٹ پیغام گھر والوں کو موصول ہوا کہ وہ جہلم کے کسی علاقے میں ہیں اور کچھ دنوں بعد گھر واپس آجائیں گے۔گمشدگی کی ایف آئی آر درج کی گئی لیکن کوئی سراغ ہاتھ نہ لگا اور پھر ان کی شہادت کی خبر نے پورے ملک میں سنسنی و غم کی فضاء کو جنم دیا کہ پاکستان ایک بہادر، حب الوطنی سے سرشاراور فرض شناس بیٹے سے محروم ہوچکا تھا ۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے واقعہ کی تحقیقات کا حکم بھی دیا جاچکا ہے اور کے پی کے کی حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اسلام آباد پولیس کے ساتھ مل کر تحقیقات مکمل کرے۔  ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے اس سانحہ پر کہاکہ’’ ایس پی طاہر داوڑکا اغوا، افغانستان منتقلی، قتل اور اس کے بعد افغان حکام کا رویہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ صورتحال افغانستان میں دہشتگرد تنظیم سے بڑھ کر ملوث ہونے کا اشارہ دیتی ہے۔ ٹویٹ میں کہا گیا کہ طاہر داوڑ کا افغانستان میں بہیمانہ قتل انتہائی قابل مذمت ہے ، ہم ایک بہادر پولیس افسر سے محروم ہوگئے ہیں۔ معاملے کی تحقیقات جاری ہے۔ افغان سیکورٹی فورسز باڑ لگانے اور دو طرفہ بارڈر سیکورٹی میں تعاون کریں تاکہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال کو روکا جاسکے‘‘۔
اسلام آباد سے افغانستان تک کا سفر جہاں ہمارے لیے ایک بہت بڑا سوال ہے وہیں ہمارے خدشات کو مزید یقین میں بدل رہا ہے کہ افغانستان میں موجود شرپسند عناصر کی موجودگی پاکستان کے لیے کس قدر خطرناک ہے ۔افغانستان میں ہندوستانی انٹیلی جنس کی موجودگی کی وجہ سے یہ تشویش مزید بڑھ جاتی ہے ۔پاکستان کے قبائلی علاقوںمیں آج کل پی ٹی ایم نامی ایک تنظیم سراٹھا چکی ہے جسے پاکستان میں پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی لیکن پاکستان دشمن ان کے سرکردہ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ضرور نظر آتے ہیں۔پی ٹی ایم سیکیورٹی اداروںکی چیک پوسٹوں پر سوالات کھڑے کرتی رہی ہے ۔یہی چیک پوسٹیں تھیں جن کی وجہ سے دہشت گرداپنی بلوں میں دبکنے پر مجبور ہوچکے تھے۔طاہر خان داوڑ کی شہادت کے موقع پر بھی سوشل میڈیا پر ایسے عناصر دیکھنے کو ملے جوحُب الوطن پاکستانی ایس پی کے حوالے سے لوگوں کو شک میں مبتلا کررہے تھے حالانکہ طاہر خان داوڑ حُب الوطنی کی چلتی پھرتی کتاب تھا ۔وہ ایک درد دل رکھنے والا پشتون تھا جو پاکستان کی محبت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکا ۔پاکستان اس وقت کئی مسائل میں گھرا ہوا ہے ،ہچکولے کھاتی معیشت اور سیاسی گرم بازاری میں اس طرح کے واقعات کا وقوع پذیر ہونا اور پھر اس پر بھی ایک طبقہ کی طرف سے سیاست کرنا بذات خود شرم کی بات ہے۔ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ راولپنڈی میں مولانا سمیع الحق کو گھر میں داخل ہوکر شہید کردیا گیا تھا۔یہ بالکل عین ان لمحات میں ہوا تھا جب آسیہ بی بی کی رہائی پر احتجاج ہورہا تھا۔پاکستانی قوم کو سمجھنا ہوگا کہ اس وقت جذبات قابو میں رکھ کر حواس سے کام لینے کا وقت ہے ۔ہم اس وقت یہ بات سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر ایس پی رینک کا بندہ اغواء ہوکر دوسرے ملک میں لے جاکر قتل کیا  جاسکتا ہے تو میں اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں ۔حکومت پاکستان کواس وقت سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے اندر چھپے سہولت کارسامنے لائے جاسکیں ۔افغانستان کے ساتھ جہاں ہمیں برادرانہ طرزعمل اختیار کرنا ہوگا وہیں ہمیں ذرا رویہ سخت بھی کرناہوگا اور دبائو ڈالنا ہوگا کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرے اور پاکستانی بارڈر پرسیکیورٹی کو سخت کرے۔ طاہر خان داوڑ کے واقعہ کی مکمل تحقیقات کو شفاف اور یقینی بناتے ہوئے اس میں ملوث افراد کو سخت سزا دینی ہوگی ۔انصاف کا بول بالا کرنا ہوگا۔ تحقیقات کو عوام کے سامنے رکھا جائے تاکہ ان میں پھیلی مایوسی ختم ہو۔
 

شیئر: