Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعلیم یا کاروبار،کراچی میں 7 بڑے اسکول معطل

کراچی (صلاح الدین حیدر) عنوان تو پڑھ کر تو آپ چونک گئے ہوں گے لیکن اس کا پورا ایک پس منظر ہے اور وہ ہے پاکستان میں تعلیم کے نام پر تجوریاں بھرنا۔ مانہ کہ دنیا بھر، خصوصاً مغربی ممالک یورپ، امریکہ وغیرہ میں تعلیمی ادارے، اسکول ہوں، کالجز ہوں اور یونیورسٹیاں، نجی شعبے میں بہت مہنگے ہوتے ہیں، ان کی فیس ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتی لیکن ایک چیز تو بہت واضح ہے کہ تمام ادارے نصاب کے علاوہ طالبعلموں کو ایک اچھا شہری، ایک اچھا انسان بنانے کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ ہمارے یہاں تو مقصدیت نام کی کوئی چیز نہیں۔بس لوٹے جاو، گھر بھرے جاو اور آخر میں محکمہ تعلیم کے افسران نے ملی بھگت کر کے کسی نہ کسی طرح طلباءکو میٹرک یا انٹرمیڈیٹ پاس کرادیا جائے۔ ایک اور فراڈ ان نجی تعلیمی اداروں نے پاکستان میں کر رکھا ہے وہ ”او“ لیول اور ”اے“ لیول کے امتحان پاس کرانا ہے۔اس سے بڑا مذاق ہو نہیں سکتا۔ کراچی میں کم از کم صرف 4 اسکول ایسے ہیں جو کہ انگلستان کی یونیورسٹیوں سے منسلک ہیں۔ وہیں سے ”اے“ لیول یا سینیئر کیمبرج کے پرچے بن کر آتے ہیں اور وہیں طلباءکے جوابات کی کاپیاں جانچی جاتی ہے۔ان کے نام ہیں سینٹ پیٹرک اسکول، سینٹ جوزف اسکول، سینٹ مائیکل اسکول اور کراچی گرامر اسکول، باقی جتنے نجی اسکول طلباءکے کاغذات لندن بھجواتے ہیں، وہ وہاں تسلیم نہیں کئے جاتے۔ جہاں تک انسانیت کا تعلق ہے سب سے پہلے تو ان اسکولوں کے مالکان سے یہ پوچھا جائے کہ ان کے اداروں میں صفائی ستھرائی کا کیا انتظام ہے؟ اساتذہ کو کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ بچوں سے کتنی فیسیں مانگی جاتی ہیں؟ معمولی اسکول جو دو تین کمروں میں کھولے ہوئے ہیں اور جہاں بچے جانے پر مجبور ہیں، وہاں مہینے کی ٹیوشن فیس تو 15000 سے 20 ہزار تک لی جاتی ہے لیکن اساتذہ کا استحصال برے طریقے سے کیا جاتا ہے، تنخواہیں انہیں کچھ دی جاتی ہے اور سیلری بل پر رقم کچھ اور لکھی جاتی ہے، کھلی ناانصافی ہے۔ کراچی میں اسکول ایجوکیشن بورڈ اور انٹرمیڈیٹ بورڈ کے دفاتر ہیں، جو کہ صرف امتحانات کے پرچے جاری کرنے اور نتیجہ دکھانے میں دلچسپی لیتے ہیں، تعلیم کا معیار کیا ہے، کسی کو کچھ معلوم نہیں، لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ 50 اور 60 کی دہائیوں میں اسکول انسپکٹرز باقائدہ تعلیمی اداروں کو دیکھنے آتے تھے، اب سلسلہ جاری ہے کہ نہیں اور ہے بھی تو برائے نام، یا واقعی اس کا کچھ مقصد بھی ہے؟ مستقل مصیبت سے تنگ آکر، والدین نے اپنی ایک ایسوسی ایشن بنالی، یہ ان کی مجبوری تھی، لیکن اس انجمن نے جس کے کرتا دھرتا شہر کے وکیل حمودالرب جعفری ہیں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، ہائی کورٹ نے ان کی بات سن کر فیصلہ دیا کہ کوئی بھی اسکول سالانہ 5 فیصد سے زیادہ فیس میں اضافہ نہیں کرسکتا لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے، اسکول کے مالکان نے فیصلہ ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے باہر نکال دیا، تعلیم دینے والے خود ہی عدالت کا احترام کرنے سے جب قاصر ہوں تو پھر کیا کیا جائے؟ لیکن جب والدین نے عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کی تصدیق کردی۔ بات جب آگے بڑھی تو سندھ حکومت عملی اقدامات لینے پر مجبور ہوگئی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ خواب غفلت سے جاگ اٹھی تو غلط نہ ہوگا۔ سندھ کے وزیر تعلیم نے بہت بڑے بڑے اسکولوں کو جن کی پورے ملک میں چین بنی ہوئی ہے، بیکن ہاﺅس، سٹی اسکول سمیت 7 اسکولوں کی رجسٹریشن معطل کردی، وہاں پڑھائی ابھی تک بند ہے۔ بچوں کا کیا بنے گا جب مالکان کو ہی پروا نہیں تو والدین بھی کچھ روز صبر کر لیں گے۔

شیئر: