Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندوستان میں جہادی تحریکیں...مختلف وژن

علی الامین ۔ الشرق الاوسط
(آخری قسط)
میرا دعویٰ ہے کہ ہندوستانی تحریکیں سلفی تحریک سے متاثر نہیں ہوئیں۔ دلیل اس دعوے کی یہ ہے کہ ہندوستان میں سلفی تحریک عرب دنیا میں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمتہ اللہ علیہ کی تحریک سے پہلے معرض وجود میں آئی اور اسکا احیاءبھی اس سے قبل ہوا۔ شیخ محمد بن عبدالوھاب کے بحیثیت اصلاح پسند منظر عام پر آنے سے قبل ہندوستان میں ایک اور مصلح امت پیدا ہوئے تھے۔ ہندوستان آخری صدیوں کے دوران دینی علوم کا مرکز تھا۔ عرب دنیا کو یہ اعزاز حاصل نہیں تھا۔ ہندوستان میں مذہبی ، دینی اور فرقہ وارانہ رسہ کشی کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ دین اسلام اور ہندو مت کے درمیان بھی کشمکش ہورہی تھی۔ دیگر مذاہب کے پیرو کاروں میں بھی مذہبی تقابل کی فضا بنی ہوئی تھی۔
ہم شروعات سید احمد شہید بریلوی سے کرنا چاہیں گے۔ یہ رائے بریلی کے تھے۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد تھے۔ انہیں انکے استاد نے اسلامی ریاست ٹونک کے بانی میر خان کے پاس بھیجا تھا تاکہ 1810ءکے دوران وہ انکی فوج کے سائبان تلے جہاد کریں۔ انہوں نے 6برس تک میر خان کے لشکر میں رہ کر جنگ میں حصہ لیا البتہ انگریزوں سے میرخان کی مصالحت کے بعد سید احمد شہید بریلوی چھوڑ کر چلے آئے۔ انہوں نے 1821ءکے دوران سفر حج سے قبل جہا د شروع کردیاتھا۔ انہوں نے 2وجہ سے جہاد کیا تھا۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ وہ جہا دکے عمل کی قیادت سے قبل عبادات کے حوالے سے اپنا دین مکمل کرناچاہتے تھے۔
مظہر الدین صدیقی بتاتے ہیں کہ ”سید احمد شہید بریلوی مکہ مکرمہ پہنچے تھے تاہم انہوں نے وہاں کسی بھی وہابی سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اُن دنوں وہابی جائز القتل قرار دیدیئے گئے تھے اور ان پر قانون کی لعنت برس رہی تھی“۔ مظہر الدین صدیقی یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس وقت سید احمد شہید بریلوی نے حج کیا تھا اُس وقت حجاز کا اقتدار محمد علی پاشا نے پہلی سعودی ریاست کے حکمرانوں سے چھین کر اپنے قبضے میں کرلیا تھا۔ فریقین کے درمیان طویل اور گھمسان کے معرکے ہوئے تھے۔ حجاز اورمصر سلطنت عثمانیہ کے زیر کنٹرول آگیا تھا۔ جہاں تک مظہر الدین صدیقی کی تعبیر ” قانون کی لعنت“ کا تعلق ہے تو اس سے انکی مراد محمد پاشا اور سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں کے قانون سے تھی۔میں مظہر الدین صدیقی کے مذکورہ بیان میں اس امر کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اس وقت پہلی سعودی ریاست اپنے اصل مرکز میں بھی محمد علی پاشا کے لشکر کے ہاتھوں ختم ہوگئی تھی۔ محمد علی پاشا نے 1918ءمیں الدرعیہ کی طویل ناکہ بندی کرکے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔
سید احمد شہید رحمتہ اللہ علیہ نے جس وقت حج کیا تھا، انکے ہمراہ انکی تحریک سے تعلق رکھنے والے700افراد بھی انکے ہمراہ تھے۔ ایسے عالم میں کوئی شخص یہ دعویٰ کیونکر کرسکتا ہے کہ اس درجے اور اس حیثیت کا مالک شخص حرم شریف یا مسجد نبوی شریف میں درس دینے والے کسی عالم کے توسط سے شیخ محمد بن عبدالوہاب سے متاثر ہو۔ علاوہ ازیں سید احمد شہید مکہ مکرمہ حج کیلئے پہنچے تھے۔ یہاں انکی آمد کا ایک اور مقصد تھا اور وہ یہ تھا حرمین شریفین کے لوگوں میں اپنی دعوت کے حامیوں اور جہا د کے دیوانوں کی تلاش ۔ وہ حج پرتنہا نہیں آئے تھے بلکہ پورے گروپ کیساتھ پہنچے تھے۔ یہاں انکی آمد کا مقصد نہ تو علم کا حصو ل تھا اور نہ ہی کسی طریقہ تصوف یا سنی دینی مسلک کی تلاش انکا ہدف تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: